لکڑی کے ایک تختہ کو گانے لائق بنانے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اسے بنانا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے نہایت ماہر دستکار کی ضرورت پڑتی ہے۔ نرسنگاپیٹئی (تمل ناڈو کے کُمبکونم کے قریب کا ایک گاؤں) کے چار کنبے، جو اَب بھی ہاتھ سے ناد سُوَرَم بناتے ہیں، اس فن میں اتنے ماہر ہیں کہ جب وہ اسے بناتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے یہ بہت آسان کام ہے۔ ان کے آنگن میں خام مال کاٹھ کباڑ کی طرح پڑا ہوا ہے۔ ان کے گھروں کے سامنے بنے ورکشاپ میں، لکڑی کاٹی جاتی ہے، پھر اسے برابر کرکے، ہتھیار سے اس میں سوراخ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو سالوں کی مشق سے آتا ہے۔ نادسُوَرَم بجانے والوں نے، جن میں سے کچھ کافی مشہور موسیقار ہیں، ان ورکشاپس میں کئی دنوں تک اس ساز کے لیے انتظار کیا ہے۔ اسے بجاکر انھوں نے کئی ایوارڈس جیتے اور ہزاروں لاکھوں روپے کمائے ہیں۔ لیکن، اس ساز کو بنانے والے دستکاروں کو ایک عدد بیچنے پر صرف ہزار روپے کا فائدہ ہوتا ہے؛ اگر وہ خوش قسمت ہیں تو ۵۰۰ روپے اور مل جائیں گے۔
اس کے باوجود، چار نسلوں سے ناد سُورَم بنانے والی فیملی میں پیدا ہونے والے ۵۳ سالہ این آر سیلوراج، اس چھوٹے ورکشاپ میں ہر روز صبح ۱۰ بجے چلے آتے ہیں۔ اپنے دو معاونین کی طرح ہی دُبلے پتلے سیلوراج، بعض دفعہ دو فٹ لمبی لوہے کی چھڑ پوجا کے کمرے سے لاتے ہیں۔ ’پتّرئی‘ (لکڑی کے خراد) پر ہوشیاری کے ساتھ لکڑی کا گول لٹھا چڑھاتے ہوئے، سیلوراج مجھے اپنے گاؤں کی اس ساز کو بنانے کی لمبی تاریخ بتاتے ہیں، جس کے بغیر تمل شادی یا مندر جانے کی کوئی بھی تقریب کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔
’’نادسورم ایک ’منگل وادھیَم‘ (مبارک ساز) ہے۔ اس کی ابتدا اسی علاقے میں ہوئی، مایاوَرَم کے قریب ایک گاؤں میں۔ میرے پردادا، گوونداسامی اچری، وہاں گئے اور اس ہنر کو سیکھا۔‘‘ ہاتھ سے گھمائے گئے خراد کی آواز کے درمیان بولتے ہوئے، سیلوراج تفصیل سے بتاتے ہیں کہ ان کے پردادا نے بھلے ہی ایک نیا ہنر گاؤں میں متعارف کرایا ہو، لیکن یہ ان کے والد تھے جنھوں نے دنیا کو ایک نیا ساز دیا۔ ’’۱۹۵۵ میں، میرے والد رنگناتھن اچری نے تجربہ کیا، اصلی ساز میں کچھ تبدیلی کی، اور ایک ایسا ساز بنایا جس میں ساتوں سُوَر (آوازیں) یا سُر بولنے لگے۔‘‘
روایتی طور پر، ناد سورم آچا مارم (سیاہ رنگ کی ہندوستانی لکڑی، اَنجن) سے بنایا جاتا ہے۔ ’’لیکن آپ تازہ لکڑی استعمال نہیں کر سکتے؛ یہ کم از کم ۷۵ سے ۱۰۰ سال پرانی ہونی چاہیے۔ اس سے کم عمر کی لکڑی مڑ جائے گی اور جھک جائے گی۔ پرانے زمانے میں اس لکڑی کا استعمال گھروں کی شہتیر ڈالنے اور ستونوں میں ہوتا تھا۔‘‘ وہ اپنے آنگن میں پڑے انبار کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ’’لیکن ہمیں اس لکڑی کو لانے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں چیک پوسٹ پر روک لیا جاتا ہے اور بل دکھانے کو کہا جاتا ہے؛ لیکن آپ ہی بتائیے، بھلا پرانی لکڑی کو بیچنے پر کون بل دے گا؟‘‘ اس سے بھی خراب بات یہ ہے کہ ان پر صندل کی لکڑی اسمگلنگ کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
لکڑی پانے کے بعد بھی ان کی پریشانیاں کم نہیں ہوتیں۔ ’’ایک عدد بنانے کے لیے آپ کو تین آدمیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ لکڑی اور مزدوری پر لگنے والے تمام خرچ کو کاٹنے کے بعد ہمارے پاس ایک ناد سورم کے عوض ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے بچ جاتے ہیں،‘‘ سیلوراج افسردہ لہجہ میں کہتے ہیں۔
’’اس ساز کو بجانے والے اسے ۵۰۰۰ روپے میں خریدتے ہیں۔ وہ اس سے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔ لیکن کئی سالوں کے بعد جب وہ دوسرا پیس خریدنے آتے ہیں، تو ہم سے قیمت کم کرنے کے لیے کہتے ہیں!‘‘ سکتھی ویل اچری (سیلوراج کے چچا) کہتے ہیں، جو اسی گلی میں آگے ناد سورم بناتے ہیں۔ سرکار کے اس مسلسل بھید بھاؤ والے رویے سے سکھتی ویل بھی پریشان ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں، ساز بجانے کے لیے ہی سارے ایوارڈس اور مقبولیت کیوں ریزرو ہیں، جب کہ پری ناد سورم کو سب سے پہلے جس جگہ بنایا گیا، وہاں کے دستکاروں کو کوئی نہیں پوچھ رہا ہے؟
تاہم، لیمی نیشن کیا ہوا، ہاتھ سے تحریر کردہ ایک لیٹر ہے، جس میں موسیقی کے لیے رنگناتھن اچری کے کارناموں کی خوب تعریف کی گئی ہے۔ سیلوراج اسے تالے میں بند کرکے رکھتے ہیں۔ اسے تحریر کرنے والے لیجینڈری نادسورم وِدوان (اس ساز کو بجانے میں مہارت رکھنے والے)، ٹی این راجارتھینم پلئی تھے۔
دوپہر کے کھانے، جسے مٹی کے چولہے پر ورکشاپ میں بچی ہوئی لکڑی کی کھرچن سے بنایا گیا ہے، کے وقت سیلوراج کے بڑے بیٹے ستیش نے مجھے آٹوموبائلس سے اپنے شوق کے بارے میں بتایا۔ ’’لوگوں کے پاس اپنے موبائل فون کی اسکرین پر یا تو بھگوان کی تصویریں ہیں یا اپنے والدین کی۔ میں نے گاڑی کی لگا رکھی ہے!‘‘ ایک سال پہلے جب میں اس سے ملی تھی، تو ستیش سیاحوں کی گاڑی چلانے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن اب (چچاؤں، اپنی بہن اور ماں کی باتوں سے متاثر ہو کر) وہ اپنا گھریلو پیشہ اپنانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ ’’لیکن میں اپنا ٹورِسٹ بزنس جاری رکھوں گا اور ساتھ میں کھیتی بھی کروں گا۔‘‘
ستیش کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ (ایسا ہی اس کے چھوٹے بھائی پرکاش کو بھی کرنا پڑے گا، جو اس وقت انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہا ہے۔) فل ٹائم صرف اس ساز کو بناکر ملنے والے پیسے سے اب اپنا گھر نہیں چلایا جا سکتا۔ فیملی کی شہرت و عزت کو آگے لے کر جانے سے تمام اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ اور نہ ہی اس سے لکڑی خریدنے کا خرچ کم ہوگا۔
سکھتی ویل کی فیملی میں وارث کو لے کر بھی پس و پیش کی حالت بنی ہوئی ہے۔ ان کا پوتا سبری، جو درس و تدریس کے میدان میں جانا چاہتا ہے، اکلوتا وارث ہے۔ سکھتی ویل کا بیٹا، سینتھل کمار، جو ۱۵ سال کی عمر سے ہی نادسورم بنا رہا ہے، کا ماننا ہے کہ سبری ’’سی این سی ٹکنالوجی کا استعمال کرے گا، وہ اسے نئی شکل دے گا۔‘‘ سبری نے اپنے گھر کو جو نئی شکل دی ہے، سینتھل کمار وہ مجھے دکھاتے ہیں، جیسے مرمت کی ہوئی گئو شالہ، آنگن میں ایک جنریٹر اور، ورکشاپ میں، ایک ایچ پی موٹر سے چلنے والا خراد۔ ’’میرے والد سمیت کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اچھی طرح کام کر رہا ہے۔‘‘ اور یہ کافی مدد گار بھی ہے، کیوں کہ آج کل مزدور ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ ’’ہم ہاتھ جوڑ کر ان کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں!‘‘ سکھتی ویل چٹکی لیتے ہوئے کہتے ہیں۔
لیکن اپنی مرضی سے مزدوری کرنے والوں اور موٹر سے چلنے والا خراد نوجوان نسل کو اتنی آسانی سے اس عظیم دستکاری کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکتتے۔ ’’جو چار کنبے اس کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں، انھیں ایوارڈ ملنا چاہیے،‘‘ سیلوراج کہتے ہیں۔ وہ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لکڑی بھی مناسب قیمت پر دستیاب ہونی چاہیے اور ساتھ ہی پرانے دستکاروں کو پنشن ملنی چاہیے۔ نئے ناد سورم میں انوسو (ساز کے نچلے حصے) کو فِٹ کرتے ہوئے، سیلوراج کھڑے ہو جاتے ہیں اور پورے احترام کے ساتھ اس ساز کو انتظار کر رہے موسیقار کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ساز کو بجانے والے مُروگندھم اس نئے نادسورم سے، پیار سے پیچیدہ سُروں کو بجانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں ابھی تھوڑی دقت ہو رہی ہے، دوسری طرف سیلوراج مجھ سے کہتے ہیں کہ اب ’نرسنگاپیٹئی ناد سورم‘ کو جی آئی (جیوگریفیکل انڈِکیشن) نشان دلانے کی بات چل رہی ہے۔
’’چند سرکاری اہل کار یہاں آئے اور مجھ سے بات کی،‘‘ سیلوراج بتاتے ہیں۔ ’’مجھے بتایا گیا کہ جی آئی ایک ٹریڈ مارک یا تجارتی نشان کی طرح ہوتا ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس سے ہمیں کس طرح فائدہ ملے گا۔‘‘ دوسرے لوگوں کو بھی اس کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے، لیکن انھیں اس بات پر پورا اعتماد ہے کہ وہ بغیر کسی باہری مدد کے اس تجارت کو چلا سکتے ہیں۔ لیکن ہر صبح وہ نئی فکرمندیوں کے ساتھ اٹھتے ہیں: کیا آج انھیں اچا مارم مل پائے گا، کیا ان کے بیٹے بیٹھ کر ان سے یہ ہنر سیکھیں گے، کیا سرکار موسیقی کے تئیں ان کے کارناموں کو پہچان دے گی، وغیرہ وغیرہ۔
یہ مضمون سب سے پہلے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ہوا:
http://www.thehindu.com/features/magazine/narasingapettais-nadaswaram-makers/article7088894.ece
یہ مضمون ’دیہی تمل ناڈو کے ختم ہوتے ذریعہ ہائے معاش‘ سیریز کا ایک حصہ ہے، جسے این ایف آئی نیشنل میڈیا ایوارڈ ۲۰۱۵ کے تحت تعاون حاصل ہے۔