’’جب [کھیتوں میں] کوئی کام نہیں ہوتا، تو میں کرماتا کا پھل اور دیگر پیداوار جمع کرنے کے لیے جنگل جاتی ہوں،‘‘ گنگے کہتی ہیں۔ وہ لاؤڈ، ایک مقدس باغ اور نامکمل جنگل، کا ذکر کر رہی ہیں، جو ان کی بستی، بالینگا پاڑہ کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ گہرے بھورے رنگ کی چٹانوں، جن میں سے کچھ کے سائز گاؤں کے گھر جیسے ہیں اور کچھ کار جتنے بڑے ہیں، میدانی علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اونچے پرانے درخت میناروں جیسے کھڑے ہیں، ان کی شاخیں بیلوں سے گھری ہوئی ہیں۔
بالینگا پاڑہ، بَستر علاقے میں امراوتی جنگل کے کنارے واقع ایک بستی ہے۔ جنوبی چھتیس گڑھ کے راج ناند گاؤں ٹاؤن سے یہاں تک آنے کے لیے پہلے بوسیدہ راستوں سے بس کے ذریعے آٹھ گھنٹے کا سفر کرنا پڑتا ہے، پھر اس کے بعد دو کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ بستی میں، صرف عام سڑک تارکول سے بنی ہے، باقی راستے گندگی، گوبر اور غبار سے بھرے ہیں۔ بالینگا پاڑہ کے ۳۳۶ باشندے (مردم شماری ۲۰۱۱) عام سڑک کے ارد گرد تقریباً ۶۰ ایک منزلہ گھروں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پرانے اور بھورے رنگ کے ہیں، اور مٹی اور اینٹ سے بنے ہیں۔ کچھ گھر نئے ہیں، جو کنکریٹ اور ٹن یا اسبسطوس کی چھتوں سے بنے ہیں، جن میں سے کچھ ہرے اور گلابی رنگ سے پینٹ کیے ہوئے ہیں۔
۳۳ سالہ گنگے سوڈھی گونڈ آدیواسی ہیں۔ وہ ہلبی، گونڈی اور تھوڑی ہندی بولتی ہیں۔ پہلے تو وہ شرمائیں، لیکن تھوڑی دیر بعد ہمیں اپنی زندگی کے بارے میں لکھنے کی اجازت دے دی۔
گنگے اپنی فیملی کی دیکھ بھال کرنے، اپنے والد کے کھیتوں میں کام کرنے اور ہفتہ واری ہاٹ (بازار) میں بیچنے کے لیے مہوا کے پھولوں سے شراب بنانے میں اپنا وقت گزارتی ہیں۔
ان کا دن صبح ۵ بجے شروع ہوتا ہے، ’’دن کے کھانے کے لیے میں دھان کوٹتی ہوں۔ میں برتن دھوتی ہوں اور پاس کے پمپ سے پانی لاتی ہوں اور جلانے کی لکڑی جمع کرتی ہوں۔ میں ناشتہ بناتی ہوں اور ۱۰ بجے کھیتوں میں کام کرنے چلی جاتی ہوں۔‘‘ دوپہر کو وہ کھانا کھانے تھوڑی دیر کے لیے گھر آتی ہیں، اور پھر واپس لوٹ جاتی ہیں۔ چار بجے تک وہ اپنے سبھی کام ختم کر لیتی ہیں۔ ’’میں نہاتی ہوں، اور پانی اور جلانے کی لکڑی لاتی ہوں، کبھی کبھی فرش کو گائے کے گوبر سے صاف کرتی ہوں، اور رات کے کھانے کے لیے چاول اور شوربا [سبزی اور گوشت دونوں کا] پکاتی ہوں۔ خاص موقعوں پر ہم کھیر [گیہوں کے ٹکڑوں سے بنائی گئی] کے ساتھ پوری کھاتے ہیں۔‘‘
گنگے، گلی سے ٹھیک باہر بنے ایک گھر میں اپنی ماں کومینتی اور والد منگل رام، اپنے بھائی بہن شیو راج، اُمیش، سہن دَئی اور رتنی، اور اپنی تین بیٹیوں – ۱۵ سالہ جتیشوری، ۱۳ سالہ جیوتی، اور ۱۱ سالہ پرتیما کے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ پانی کے پمپ کے قریب ہے – جو گاؤں میں پانی کا واحد ذریعہ ہے۔ ٹیراکوٹا ٹائل کی چھت کے ساتھ ان کا اینٹ سے بنا گھر تیز ہرے رنگ سے رنگا ہوا ہے۔ دروازے کے نیچے فرش پر رنگین شیشے کی چوڑیوں سے گھماؤدار پیٹرن بنائے گئے ہیں۔
’’میں [اپنے والد کے چار ایکڑ] کھیتوں میں بند بناتی اور فصل کاٹتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ گنگے پانچ سال کی عمر سے زمین پر کام کر رہی ہیں۔ کھیت پر، وہ دھان، مسور، کالا چنا اور تلہن اُگاتے ہیں۔ اور مکان کے پیچھے بڑے سے آنگن میں ان کی فیملی کچھ سبزیوں کے ساتھ راگی (باجرا) اور اڑد کی دال اُگاتا ہے۔ ان فصلوں کی سینچائی جون اور نومبر کے درمیان مانسون کی بارش سے ہو جاتی ہے۔
’’گرمیوں کے مہینوں میں، میں زمین پر گرے ہوئے مہوا کے پھولوں کو جمع کرتی ہوں اور انہیں بڑے پتھروں پر سُکھاتی ہوں۔ پھر انہیں کچھ دنوں تک ذخیرہ کرنے کے بعد پانی میں بگھوکر خمیر تیار کرکے ان کا مانڈ [شراب] بناتی ہوں۔‘‘ کئی گونڈ آدیواسی مہوا کی شراب بناتے اور فروخت کرتے ہیں۔ ’’یہ ۵۰ روپے فی بول فروخت ہوتا ہے،‘‘ گنگے بتاتی ہیں۔ وہ ۶۵۰ ملی لیٹر کی بیئر کی بوتلوں کو دوبارہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈیڑھ پاؤ (۴۵۰-۵۰۰ ملی لیٹر) کی بوتل کو اڈّی کہا جاتا ہے، جو ۲۵ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔
جمعہ کو لگنے والے ہفتہ واری ہاٹ میں، جہاں ۱۰۰ سے زیادہ دکانیں لگتی ہیں، لوگ ۲۰ کلومیٹر دور تک سے اپنے مال بیچنے پیدل چل کر یا موٹر بائک اور سائیکل سے آتے ہیں۔ وہ جنگلاتی پیداوار، سبزیاں، مٹھائیاں اور تلی ہوئی غذائی اشیاء، کپڑے، آرائشی سامان اور پلاسٹک کی چیزیں خریدتے اور بیچتے ہیں۔
یہ ہاٹ اس پرسکون علاقے میں رنگوں کی ایک بوچھار ہے۔ یہاں بیچنے کے لیے رکھے گئے سامانوں میں املی، آم، آم چور، کولیاری بھاجی (سبزی کے طور پر کھائے جانے والے درخت کے پتے)، بوہاڈ کے پتے اور پھل، کرماتا کا پھل (سبھی سبزیاں بنانے کے لیے)، بیہڑا ، ہِردا (ادویاتی پھل)، شہد، ٹیکور (ایک خوشبودار ادویاتی جڑ)، کوسم کا پھل، تورا (مہوا کے تلہن) اور خشک مہوا کے پھول، سلفی (سلفی کا رس)، آنولہ، چار کے بیج (جسے شری کھنڈ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے)، بھیلوا کے بیج (ادویاتی)، مش روم کی ایک قسم، مختلف قسم کے قند، سینڈی (کھجور)، انجیر، جامن اور تیندو کے پھل شامل ہوتے ہیں۔
نہ کھانے لائق جنگلاتی پیداوار بھی فروخت ہوتی ہے: جیسے سال کے بیج، کرنجی کے بیج، گرچی کے بیج اور وڈانگل کے بیج، ان سبھی کو تہلن میں ملا کر صابن بنایا جاتا ہے یا ادویاتی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کھجور کے پتوں یا گھاس یا بانس سے بنے جھاڑو بھی یہاں فروخت ہوتے ہیں۔
بازار دوپہر کے وقت شروع ہوتا ہے اور کئی گھنٹوں تک رہتا ہے۔ شام کے سات بجے، جب دن کی روشنی کم ہونے لگتی ہے، تو ہر کوئی پیک کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تاجر اپنے مال کو پھر سے دوسرے بازار میں بیچنے کے لیے لادتے ہیں، اور بالینگا پاڑہ کے لوگ اپنے سامان کو گھر لے جاتے ہیں۔ اپنے ذریعے خریدے گئے پھل اور سبزیوں، اور شاید بچی ہوئی ایک یا دو بوتل مانڈ کے ساتھ گنگے بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔
گنگے جب چھوٹی تھیں، تو وہ اسکول جانا چاہتی تھیں، لیکن نہیں جا سکیں۔ ’’اب، مجھے اپنی بیٹیوں پر فخر ہے کہ وہ پڑھ رہی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کسی دن وہ شادی کریں اور اپنے گھروں میں رہیں۔
گنگے کی شادی چھیدی لال سوڈھی سے ۲۰۰۲ میں، تقریباً ۱۷ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ ان کی برادری میں، عورت اور مرد دونوں کا ایک دوسرے کو پسند کرنا ضروری ہے۔ شادی کی رسم دلہن کے گاؤں میں نبھائی جاتی ہے، اس کے بعد دولہے کے گاؤں میں جشن منایا جاتا ہے۔
’’اسے میرے والدین نے منتخب کیا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن کچھ سال پہلے میں نے اسے چھوڑ دیا اور اپنے بچوں کے ساتھ والدین کے گھر لوٹ آئی کیوں کہ وہ شراب پی کر مجھے پیٹتا تھا۔ میرے اور اس کے والدین اور گاؤں والوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن بات نہیں بنی۔ کچھ وقت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا، اس لیے میں واپس نہیں گئی۔‘‘
کیا وہ کبھی دوسری شادی کرنا چاہتی تھیں؟ ’’نہیں۔ میں اپنے بچوں کو چھوڑ کر دوبارہ شادی نہیں کروں گی۔ مجھے اپنے بارے میں اچھا لگتا ہے۔ میں یہیں اپنے گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
رپورٹر، ہمارے ساتھ وقت گزارنے کے لیے پریاگ جوشی کا، اور اس اسٹوری کو کرنے میں سی ایف ایل میں ہمارے ٹیچروں کے ذریعے رہنمائی اور تعاون فراہم کرنے کے لیے، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
پاری سے متاثر ہوکر، سینٹر فار لرننگ (سی ایف ایل)، بنگلور کی ہائی اسکول کی دو طالبات نے، اسکول سے مدھیہ پردیش کے ایک سفر کے دوران ایک کسان سے اپنی ملاقات کی دستاویز کاری کی۔ پاری نے انہیں دیہی ہندوستان کے مختلف پہلوؤں اور ان کی تحقیق کی دستاویز کاری کے عمل کے بارے میں معلومات فراہم کی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)