’’کہیں سے ایک روپیہ بھی نہیں آیا۔ ہم کیا کھائیں؟ ہم کیسے زندہ رہیں؟‘‘ ممبئی میں پھنسے بہار کے ایک ۲۷ سالہ محنت کش نے اپریل میں مجھ سے پوچھا تھا۔ یہ تب کی بات ہے، جب ۲۴ مارچ ۲۰۲۰ کو اچانک اعلان کیے گئے ۲۱ دن کے لاک ڈاؤن کو آگے بڑھا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کے جیسے لاکھوں مہاجر مزدور نوکری اور آمدنی کے بغیر جگہ جگہ پھنس گئے تھے، اور کئی لوگوں کو ان شہروں کو چھوڑنا پڑا تھا جہاں وہ کام کر رہے تھے، اور اپنے گھر لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

میں نے ان سے پہلی بار تب بات کی، جب انہوں نے راحت کے لیے شروع کی گئی ہیلپ لائن پر کال کیا، جہاں میں رضاکار کے طور پر کام کر رہی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنی مشکلوں کے بارے میں بتایا اور بعد میں ایک فلم کے لیے انٹرویو دینے کے لیے راضی ہوئے، لیکن اس شرط پر کہ ان کا نام اور دیگر تفصیلات پوشیدہ رکھی جائیں۔

ہم نے مئی میں جب فلم بنانی شروع کی، تو وہ کسی بھی طرح سے اپنے گاؤں لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اس بات کو لیکر غصے میں تھے کہ ریاستی اور مرکزی حکومتیں مہاجر مزدوروں کی مدد کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر رہی ہیں۔ ’’ہم ٹرینوں کے لیے فارم بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس جتنا بھی پیسہ تھا، ہم نے اس پر خرچ کر دیا،‘‘ انہوں نے کہا۔ گھر جانے کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے کا مطلب ایک بدنظم اور غیر یقینی درخواست کے عمل سے گزرنا ہے جس نے ان کی معمولی بچت کو بھی ختم کردیا۔

فلم دیکھیں: ممبئی سے بہار اور پھر وہاں سے واپسی – ایک مہاجر مزدور لاک ڈاؤن کی اپنی کہانی بتا رہا ہے

متبادل – پرائیویٹ ٹرانسپورٹ – بھی کوئی آپشن نہیں تھا۔ ’’حکومت کو لوگوں کو بغیر کوئی فیس لیے بھیجنا چاہیے۔ ایک غریب آدمی، جس کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، وہ پرائیویٹ [ٹرکوں] کے لیے پیسے کیسے ادا کرے گا؟‘‘ انہوں نے مایوسی سے کہا۔ جلد ہی، انہیں اور ان کے دوستوں کو ممبئی سے تقریباً ۲ ہزار کلومیٹر دور، بہار میں اپنی منزل تک جانے کے لیے ایک پرائیویٹ ٹیکسی مل گئی۔

لیکن اگست میں وہ ممبئی واپس آ گئے۔ گھر پر کوئی کام نہیں تھا اور انہیں پیسے کی اشد ضرورت تھی۔

مئی سے ستمبر ۲۰۲۰ تک کے انٹرویو کے اس سیٹ میں، مہاجر مزدور نے لاک ڈاؤن کی غیر یقینیت کے مہینوں کے دوران اپنی مشکلات کے بارے میں بتایا۔ عصری تاریخ کے سب سے برے انسانی بحرانوں میں سے ایک کے پس منظر میں، انہوں نے بتایا کہ ان کے جیسے محنت کشوں کو روزی روٹی کمانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں: ’’میں ایسی حالت میں ہوں کہ میں صرف زندہ رہ سکتا ہوں، اپنی زندگی نہیں جی سکتا۔‘‘

یہ فلم ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کی مدد سے بنائی گئی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Chaitra Yadavar

چیترا یادَوَر ممبئی میں مقیم ایک فلم ساز اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ سماجی شعبے کی تنظیموں کے لیے دستاویزی فلمیں بناتی اور ان کی ہدایت کاری کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Chaitra Yadavar
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique