عینل جب صبح سویرے امروہہ سے دہلی آنے کے لیے کاشی وشوناتھ ایکسپریس میں بیٹھیں، تو ان کا ذہن اندیشوں سے بھرا ہوا تھا۔ ’’میں ڈری ہوئی تھی۔ میں سوچتی رہی کہ بامبے جا رہی ہوں۔ میں اتنی دور جا رہی ہوں۔ وہ میرے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے؟ میں سارا انتظام کیسے کروں گی؟‘‘ خواتین کے جنرل ڈبے میں ۱۷ سالہ اس خاتون کو ان ساری فکرمندیوں نے رات بھر سونے نہیں دیا۔

ان کے سسر اسی ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ دہلی سے دوسری ٹرین پکڑنے کے بعد، یہ لوگ باندرہ ٹرمنس پر اتر گئے۔ اس کے بعد وہ مخدوم علی ماہمی درگاہ کے باہر بھیک مانگنے کا اپنا کام شروع کرنے سے پہلے، عینل کو ماہم کی نئی بستی جھگی کالونی میں واقع ان کے نئے گھر میں لے گئے۔

تین سال بعد عین الشیخ کو بھی یہی کام کرنا تھا۔ اس سے ان کے ۱۸ مہینے کے بیٹے کو سنٹرل ممبئی کے کستوربا اسپتال میں کئی ہفتوں تک رکھنے کا خرچ نکلتا تھا، حالانکہ خود عینل کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیٹے کو کیا بیماری ہے۔ ’’مجھے کسی سے قرض نہیں مل سکا [میڈیکل بل کے لیے] کیوں کہ اسے واپس کون چکاتا؟‘‘ وہ کہتی ہیں۔

اس ٹرین پر عینل کی فکرمندیاں بلاوجہ نہیں تھیں۔ اس دن کاشی وشوناتھ ایکسپریس میں، عینل کے پاس صرف ایک کپڑے کا تھیلا تھا، جس میں کچھ کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے سسرال لے جانے کے لیے ایک ایک کرکے جتنے بھی برتن خریدے تھے، ان سب کو فروخت کرنا پڑا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی کے طور پر انھوں نے کئی سالوں تک کڑی محنت کی تھی – دوسرے لوگوں کے برتن دھوتیں، گھروں میں صفائی کرتیں، کھیتوں میں مزدوری کرتیں۔ ’’مجھے کھانا دیا جاتا یا کچھ روپے۔ اس پیسے کو میں ڈبے میں رکھ لیتی اور، کرتے کرتے میں نے شادی کے لیے پیسہ جمع کر لیا۔ میں نے ۵۰۰۰ روپے جمع کیے ہوں گے۔ میں تھوڑے تھوڑے پیسے لے کر مقامی دکان پر جاتی اور پیتل کی واٹی، تھالی، کف گیر، یہاں تک کہ تانبے کی دیکچی خریدتی۔‘‘

A woman and her son and daughter
PHOTO • Sharmila Joshi

عین الشیخ اپنے چھوٹے بیٹے جنید اور بیٹی مہ جبین کے ساتھ؛ ان کے بڑے بیٹے محمد نے تصویر کھنچوانے سے منع کر دیا

امروہہ میں اپنے ہی محلہ کے اندر جب ان کی شادی ہوئی اور وہ اپنے شوہر جمیل کے گھر آئیں، تو اس نے شراب کی اپنی لت کو پورا کرنے کے لیے سارے برتنوں کو ایک ایک کرکے بیچ دیا۔ اور باندرہ ٹرمینس پر ان کے ٹرین سے اترنے کے بعد، وہ ۱۰ سال سے زیادہ دنوں تک انھیں اکثر تب تک پیٹتا رہتا جب تک کہ ان کے خون نہیں نکل جاتے۔ تشدد کا یہ سلسلہ ان کے ممبئی آنے کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا، حالانکہ انھیں اس کی صحیح تاریخ نہیں معلوم ہے۔ ’’میں نے اپنی ماں کو فون کیا،‘‘ عینل بتاتی ہیں۔ ’’انھوں نے کہا کہ تمہیں وہیں رہنا ہوگا، یہ سب برداشت کرنا ہوگا...‘‘ فروخت کیے گئے برتنوں کے علاوہ، عینل (تب) اترپردیش کے جیوتبا پھولے نگر ضلع میں امروہہ شہر کے دیہی مضافات میں واقع، بٹوال محلہ میں اپنے پیچھے اپنی فیملی – اپنی ماں، دو بہنیں اور تین بھائیوں – کو بھی چھوڑ آئی تھیں۔ ان کے والد ایک حجام تھے، جن کا انتقال چند سال قبل ہو گیا تھا۔ ’’ہم لوگ سلمانی جاٹ ہیں،‘‘ دھاراوی کے کنارے ٹن اور اسبسطوس سے درمیانی منزل میں بنے ایک کمرہ کے  اپنے گھر میں فرش پر بیٹھی ہوئی، وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہماری برادری کے مرد عام طور سے حجام ہیں۔ ابا ایک چھپر کے نیچے بیٹھتے اور لوگوں کے بال کاٹتے اور داڑھی بنایا کرتے تھے، جس سے بعض دفعہ ان کی کچھ کمائی ہو جاتی تھی۔ ہم بہت غریب تھے۔ امی کبھی کبھار ہم چھ بچوں کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے گرم پانی، یا اپنی بھوک مٹانے کے لیے گڑ کا ایک ٹکڑا دے دیا کرتی تھیں۔ ہمارے پاس صحیح کپڑے بھی نہیں ہوا کرتے تھے، اور ہم دو رنگ کی چپلیں پہنا کرتے تھے – اگر ایک کا رنگ نیلا ہوتا، تو دوسرے کا کالا ہوا کرتا تھا – انھیں جوڑنے کے لیے سیفٹی پن لگے ہوتے تھے۔‘‘

چھ بچوں میں سب سے چھوٹی، عینل کبھی اسکول نہیں گئیں۔ تمام بچوں نے جتنا جلدی ممکن ہو سکتا تھا، کام کرنا شروع کر دیا – ایک بھائی گیراج میں ہیلپر کا کام کرنے لگا، دو بھائی رکشا چلانے لگے۔ ان کی ماں عینل کی سب سے بڑی بہن کے ساتھ گھر پر بیڑیاں بناتیں (دونوں کو بعد میں ٹی بی کا مرض ہو گیا)، اور ۱۰۰۰ بیڑیوں کے بدلے ایک ایجنٹ سے انھیں ۵۰ روپے ملا کرتے۔ عینل نے، اپنی بڑی بہن کے ساتھ پاس کے جویا گاؤں میں کھیت میں مزدوری کرنے کے لیے جانا شروع کر دیا، جہاں سے انھیں عموماً اناج کی شکل میں مزدوری ملتی جس سے فیملی کے ماہانہ راشن میں تھوڑا اضافہ ہو جاتا۔ ’’لیکن اُن دنوں میں صرف کام کرتی تھیں اور سوچتی نہیں تھی، میں آرام کرنے اور ہنسنے کے لائق تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

دھیرے دھیرے شیخ فیملی نے ایک بڑا گھر بنا لیا، جو اُن کے والد کے کام کی جگہ تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کی والدہ کو ایک مقامی تنظیم کی اسکیم کے تحت گھر میں کام کرنے کی ٹریننگ دی گئی، اور انھوں نے تھوڑا بہت کمانا شروع کر دیا۔ لیکن وہ جب تقریباً ۱۳ سال کی تھیں (عینل اب اپنی عمر کے ۳۰ویں سال میں چل رہی ہیں، تفصیلات کے لیے ان کی یادداشت بہت تیز ہے، لیکن عمر اور سال کے معاملے میں دھندلی ہے)، تو اکثر بیمار رہنے والے ان کے والد کو دو سال سے زیادہ دنوں تک کے لیے فالج ہو گیا۔ اس مرض نے ان کی فیملی کو دوبارہ غریبی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔ ’’ہم نے کافی کوشش کی، ہمارے محلہ کے لوگوں نے بھی مدد کی۔ لیکن ہم انھیں بچا نہیں سکے۔‘‘ عینل جب ۱۵ سال کی تھیں، تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ ۱۶ سال کی ہوئیں، تو ان کے بھائیوں نے ان کی شادی کروا دی۔

کچھ دنوں تک عینل اپنے سسر، علیم کے گھر پر رہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ممبئی میں کچھ مہینوں تک بھیک مانگنے کے بعد وہ کچھ پیسے جمع کرتیں، پھر انہیں پیسوں سے کچھ مہینے امروہہ میں گزارتیں۔ ان کے شوہر جمیل کا انتقال کچھ دنوں پہلے ہی ہوا ہے، اس کا بھائی بھی بٹوال محلہ میں ایک حجام تھا۔ شادی کے تقریباً ایک سال بعد علیم، عینل کو لے کر ممبئی آ گئے۔

A road in Dharavi, a slum in Mumbai

وہ گلی جس میں عینل کا ایک کمرے کا گھر واقع ہے

جمیل مختلف قسم کے کام کرتا – دھاراوی میں ری سائیکلنگ سیکٹر میں بطور قلی، جہاں سے اسے روزانہ ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے ملتے، اترپردیش چاول اور گیہوں لے جانے والے ٹرکوں پر ہیلپر کے طور پر سفر کرتا۔ علیم ہمیشہ تھوڑے بہت پیسوں سے ان کی مدد کرتے۔ عینل بتاتی ہیں کہ وہ بدچلن تھا اور جوا کھیلنا پسند کرتا تھا، ان کے لیے وہ نکمّا تھا۔

عینل نے ممبئی آنے کے بعد کچھ سالوں تک پیسے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ’’میں اپنے شوہر سے کہتی کہ وہ مجھے بھیک مانگنے کے لیے درگاہ جانے دیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں گھریلو خادمہ کا کام کر سکتی ہوں، لیکن وہ مجھے کہیں جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ مجھے روزانہ ۳۰ روپے دیتے اور مجھے اسی پیسے سے سب کچھ چلانا پڑتا تھا۔ ہمارے پڑوسی اچھے تھے جو بعض دفعہ ہمیں بچا ہوا کھانا دے دیتے۔‘‘ ان کا پہلا بچہ جب بیمار ہوا، تو عینل نے جمیل کی پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، کام کے لیے درگاہ جانا شروع کر دیا۔

تقریباً آٹھ سال پہلے جب علیم کا انتقال ہو گیا، ’’تو بہت برا وقت شروع ہوا۔‘‘ جمیل، جو ہمیشہ سے ایک ظالم آدمی تھا، اور بھی زیادہ بے درد ہو گیا۔ ’’مجھے بہت پیٹا گیا ہے،‘‘ عینل بتاتی ہیں۔ ’’میں نے ان سے کافی گندی گالیاں سنی ہیں۔ ایک بار انھوں نے مجھے ماہم کی ریلوے پٹریوں پر لے جا کر دھکیل دیا اور مجھ سے کہا کہ مر جاؤ۔‘‘ وہ مجھے پرانے زخم دکھاتی ہیں – جب ان کا گھٹنہ پھٹ گیا تھا – اس دھکیلنے کی وجہ سے۔ ’’وہ مجھے ہاتھ سے، چھڑی سے، چمٹے سے، جو کچھ بھی انھیں مل جاتا، اس سے پیٹتے تھے۔ میں کیا کر سکتی تھی؟ مجھے یہ سب برداشت کرنا پڑتا تھا۔‘‘

ان سب کے درمیان، عینل نے تین  بچوں کو جنم دیا – دو بیٹے، محمد، جو اب ۱۵ سال کا ہے، جنید، جس کی عمر ۹ سال ہے، اور ایک بیٹی، مہ جبین، جس کی عمر ۱۱ سال ہے۔ ’’بعض دفعہ، لوگ مجھ سے کہتے کہ میں اپنے شوہر کو چھوڑ دوں،‘‘ وہ بتاتی ہیں، ’’لیکن میرے بچوں کا کیا ہوتا؟ ہماری برادری میں تب لوگ ان کی شادیوں کے لیے راضی نہیں ہوتے۔‘‘

کچھ دنوں بعد، عینل کی ملاقات درگاہ میں ایک عورت سے ہوئی جس نے انھیں اپنے گھر میں کام کرنے کے لیے ۶۰۰ روپے ماہانہ پر رکھ لیا۔ تب سے، عینل نے بہت سے کام کیے ہیں – ’واڈی لائن‘ میں یا کیٹرنگ کا کام جس میں ٹھیکہ دار مزدوروں کو شادی کی جگہوں پر لے جا کر ان سے برتن دھلواتے ہیں، جوگیشوری میں ایک گھر کے اندر نرس کے طور پر کام کیا۔

ان سالوں میں، وہ ماہم-دھاراوی میں کرایہ کے چھوٹے کمروں میں رہیں، جب ان کے بچے، ان کے شوہر اکثر پاس کے فٹ پاتھوں پر رات میں سوتے، اور بعض دفعہ انھیں سڑکوں پر زندگی گزارنی پڑی۔ دھاراوی میں کمرہ کرایہ پر لینے کے لیے عام طور پر کم از کم ۵۰۰۰ روپے ایڈوانس میں ادا کرنے پڑتے ہیں۔ عینل کے پاس اکثر اتنی چھوٹی رقم بھی نہیں ہوا کرتی تھی۔ ’’لیکن دھیرے دھیرے یہاں کے لوگوں سے میری جان پہچان ہو گئی، اور پھر مجھے پیسہ جمع کیے بغیر کمرہ مل جاتا۔ مجھے کئی کمرے چھوڑنے پڑے [کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے]، تب میں سڑک پر آ جاتی، وہیں ٹھہرتی، کوئی دوسرا کمرہ ڈھونڈتی، پھر چلی جاتی...‘‘

A woman crouching on the floor of her house
PHOTO • Sharmila Joshi

عینل اپنے گھر پر، یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کو اب جا کر کچھ استقامت ملی ہے

ان سالوں میں عینل، اپنی فیملی کے ساتھ ماہم-دھاراوی کے کرایے کے چھوٹے کمروں میں رکیں، اور بعض دفعہ سڑک پر کھلے میں رہنا پڑا۔ ’ مجھے کئی کمرے چھوڑنے پڑے [کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے]، تب میں سڑک پر آ جاتی، وہیں ٹھہرتی، کوئی دوسرا کمرہ ڈھونڈتی، پھر چلی جاتی...‘

جنوری ۲۰۱۲ میں، ان کی بستی میں آگ لگ گئی۔ ’’تب صبح کے تقریباً ۳ بج رہے تھے، ہر کوئی سو رہا تھا،‘‘ عینل یاد کرتی ہیں۔ ’’ہم لوگ چھتوں پر چڑھ گئے اور دوڑنے لگے۔‘‘ آگ لگنے کے بعد، وہ اور ان کے بچے آٹھ مہینوں تک ماہم-سائن پل کے فٹ پاتھ پر رہے؛ ان کا شوہر بھی وہیں ان کے ساتھ تھا۔ ’’مانسون کا وقت بہت مشکل تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’جب زوردار بارش ہوتی، تو میں اپنے بچوں کو پاس کی بھانگر کی دکان کے نیچے لے جا کر بیٹھ جاتی۔‘‘

مقامی تنظیموں اور لیڈروں نے آگ سے متاثرہ افراد کی مدد کی، وہ بتاتی ہیں۔ انھیں بھی اناج، برتن، بالٹیاں، ایک اسٹوو، چٹائیاں ملیں۔ دھیرے دھیرے، عینل کے دوستوں اور جاننے والوں کی تعداد جیسے جیسے بڑھنے لگی، تقریباً دو سال پہلے ان کے توسط سے، انھیں پل پر ایک کمرہ مل گیا، جہاں اب وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ایسے ہی بے ہوا کمروں کے برعکس، اس میں ایک بڑی کھڑکی ہے اور ہوا بھی آتی ہے۔ ’’یہ ایک چھت کی طرح ہے،‘‘ وہ فخریہ انداز میں مجھ سے کہتی ہیں۔

عینل کو مارچ ۲۰۱۵ سے، ری سائیکلنگ اور دیگر امور سے متعلق کام کرنے والی ایک مقامی غیر منافع تنظیم کے یہاں ردّی کے کاغذوں کو چننے کی نوکری مل گئی ہے۔ اس سے انھیں ماہانہ ۶۰۰۰ روپے کی تنخواہ ملتی ہے – اور اس نے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی ہے۔ اپنی تنخواہ سے، وہ ہر مہینے ۳۵۰۰ روپے کمرہ کا کرایہ دیتی ہیں، تقریباً ۱۰۰۰ روپے اناجوں، آٹے، کچھ سبزیوں پر خرچ ہوتے ہیں – فیملی کا راشن کارڈ آگ میں ہی جل گیا تھا، اور تب سے عینل کو دوسرا کارڈ نہیں ملا ہے۔ ان کی آمدنی کا باقی پیسہ بجلی اور دیگر اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ ’’اب مجھے اچھا لگتا ہے جب میرے بچے پیٹ بھر کھانا کھا لیتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

یہ فیملی پاس کے پبلک ٹوائلیٹ بلاک کو استعمال کرتی ہے۔ کمیونٹی ٹیپ سے پانی لینے پر ماہانہ ۲۰۰ روپے دینے پڑتے ہیں (یہ پیسہ علاقہ کی سب سے طاقتور عورت کو دینا پڑتا ہے)؛ عینل روزانہ شام کو ۷ سے ۸ بجے کے درمیان پانی بھرتی ہیں – بالٹیوں، ڈبوں، بوتلوں میں۔ ’’میرا بیٹا محمد پانی بھرکر لانے میں میری مدد کرتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ان کی بیٹی مہ جبین، چھٹی کلاس میں ہے، وہ ذہین ہے اور جب میں ان کے گھر گئی تو وہ اپنی اسکولی کتابوں میں مصروف تھی؛ ان کا چھوٹا بیٹا جنید، شرمیلا اور ہنس مکھ ہے، دوسری کلاس میں ہے، دونوں بچے پاس کے میونسپل اسکول میں پڑھتے ہیں۔

A woman standing on a ladder amidst hutments in Dharavi, a slum in Mumbai
PHOTO • Sharmila Joshi
The view from a hutment room in Dharavi
PHOTO • Sharmila Joshi

عینل کے گھر میں پہنچنے کے لیے، آپ کو ان دو عمودی سیڑھیوں کے اوپر چڑھنا پڑے گا جس سے سٹ کر وہ کھڑی ہیں۔ دائیں: ان کی کھڑکی سے، ’بمبئی‘ کے ایک حصہ کا منظر

محمد نے پانچویں کلاس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی، اور اب کبھی کبھار ایک ویلڈر کے ہیلپر کے طور پر کام کرتا ہے جس کے بدلے اسے روزانہ ۱۰۰ روپے مل جاتے ہیں، یا بعض دفعہ ایک پڑوسی کے لیے کتابیں لاکر کچھ پیسے کما لیتا ہے۔ اس کی خواہشیں چھوٹی ہیں – اپنے پڑوسی کی طرح وہ بھی سڑک کے کنارے کتاب کی ایک دکان کھولنا چاہتا ہے، یا پھر اپنے چچا کی طرح ایک میکینک بننا چاہتا ہے۔ یا، وہ کہتا ہے، ’’میں اپنی برادری کے دیگر لوگوں کی طرح ہی ایک حجام بننا چاہتا ہوں، لیکن مجھے یہ کام سیکھنا پڑے گا... تو میں کوئی بھی کام کروں گا، کوئی بات نہیں، اور کماؤں گا اور اپنی ماں کو کچھ پیسے دوں گا۔‘‘

محمد اب اپنے باپ کو روکنے کی کوشش کرتا ہے، جب وہ عینل کی پٹائی کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے جمیل ان کے اوپر صرف چلا کر رہ جاتا ہے۔ سالوں سے پٹائی کھانے، کڑی محنت کرنے اور بھوکے رہنے کی وجہ سے عینل کی صحت پر کافی برا اثر پڑا ہے – وہ پیلی ہو چکی ہیں، بلڈ پریشر کی پریشانی رہتی ہے، اکثر سر میں درد ہوتا ہے۔

عینل ایک دو بار بٹوال محلہ بھی واپس گئی ہیں۔ وہاں، وہ تب تک اپنی ماں کے ساتھ رہیں، جب تک کہ طویل عرصے سے ٹیوبر کلوسس کے مرض سے ان کی موت نہیں ہو گئی۔ ’’وہ مجھے کچھ پیسے بھیج دیا کرتی تھیں، انھوں نے مدد کرنے کی کوشش کی... میری امی،‘‘ عینل نرمی سے کہتی ہیں۔ وہ اب بھی چند سالوں کے بعد اپنے آبائی شہر جاتی ہیں، اور آج بھی اپنی بھتیجی کی شادی کے لیے امروہہ کی ٹرین پکڑنے کی تیاری کر رہی ہیں۔

’’میرے دل میں اب بھی ایک خواہش بچی ہے کہ میں اپنے آبائی شہر میں اپنے لیے ایک چھوٹا سا گھر بناؤں۔ تاکہ جب میں مروں، تو میری موت میری اپنی زمین پر ہو۔ میرا دل بمبئی میں نہیں ہے ... اس شہر میں میرا دَم گھُٹتا ہے... میرے گاؤں میں، ہم اگر بھوکے بھی ہوتے تھے، تو چل جاتا تھا۔ میری یادداشتیں وہاں کی ہیں، میرا بچپن وہاں گزرا تھا۔ میں وہاں آسانی سے ہنس سکتی تھی۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Sharmila Joshi

شرمیلا جوشی پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی سابق ایڈیٹوریل چیف ہیں، ساتھ ہی وہ ایک قلم کار، محقق اور عارضی ٹیچر بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز شرمیلا جوشی
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique