ایم کروپّیاہ کی خواہش ہے کہ ان کی جب موت آئے، تو وہ کومبو بجا رہے ہوں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو، یہ پھونک سے بجنے والا ساز تھا، جسے میدانِ جنگ میں دشمن سے لڑائی کا اعلان کرنے کے لیے تیز آواز میں بجایا جاتا تھا۔ لہٰذا، لغوی طور پر دیکھا جائے تو، موت سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ لیکن اگر کروپّیاہ پیتل یا تانبہ سے بنے ہاتھی کی سونڈ کی شکل کے اس بگل کو بجاتے ہوئے دنیا کو الوداع کہنا چاہتے ہیں، تو اس کے پیچھے کی وجہ کچھ اور ہے۔
۴۹ سالہ کروپیاہ کے لیے ’کومبو‘ فن موسیقی کی ایک عظیم شکل ہے۔ اور ان کا تعلق اس ساز کو بجانے والی چوتھی نسل سے ہے، حالانکہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے مدروئی کے اپنے گاؤں میں انہیں آٹورکشہ چلانے پر بھی مجبور ہونا پڑا، پھر بھی یہ ساز ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
کروپیاہ بتاتے ہیں کہ تقریباً تین دہائی پہلے تک فون موسیقی کی یہ ’’سرفہرست‘‘ شکل تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ۱۹۹۱ میں انہوں نے یہ ساز وزیر اعلیٰ جے جیہ للتا کے لیے بجایا تھا۔ ’’وہ اس سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے اسے دوبارہ بجانے کے لیے کہا!‘‘
لیکن آج کل، تیروپرن کُندرم بلاک میں واقع اُن کے گاؤں، میلکوئل کُڈی میں اُنہیں اور کومبو بجانے والے دیگر فنکاروں کو کام نہیں مل رہا ہے۔ موسیقی کی اس مترنم شکل کی جگہ اب حالیہ پاپ کلچر نے لے لی ہے، جس کی وجہ سے مارچ ۲۰۲۰ کے بعد کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کومبو کا کافی نقصان ہوا ہے۔ اس آلۂ موسیقی کو بجانے والوں کے پاس نہ تو کوئی کام ہے اور نہ ہی پیسہ۔
کروپیاہ کو جب بھی کوئی کام ملتا ہے – مثلاً مندروں میں، عوامی تقریبات میں یا آخری رسومات کے دوران جب وہ کومبو بجاتے ہیں – تو انہیں اسے ایک بار بجانے کے ۷۰۰ روپے سے لیکر ۱۰۰۰ روپے تک ملتے ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کی وجہ سے، پچھلے سال سے ہم الگر کوئل تیروویلا میں نہیں بجا پا رہے ہیں۔ اس پروگرام میں ہمیں آٹھ دنوں کا کام مل جاتا تھا۔‘‘ مدورئی شہر سے ۲۰ کلومیٹر دور واقع الگر کوئل مندر میں ہر سال (اپریل- مئی میں) منائے جانے والے اس تہوار میں لاکھوں عقیدت مند جمع ہوتے ہیں، جہاں کومبو کے فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
’’ہر کوئی کومبو نہیں بجا سکتا۔ اسے بجانے میں کافی ہنر کی ضرورت پڑتی ہے،‘‘ الٹرنیٹو میڈیا سنٹر (اے ایم سی) کے بانی، آر کالیشورن کہتے ہیں۔ چنئی میں واقع یہ تنظیم، علاقائی فنکاروں اور فنون کی مدد کرتی ہے۔ اس ساز کو پروگرام کے شروع میں، اور پھر درمیان میں بجایا جاتا ہے، لیکن لگاتار نہیں بجایا جاتا۔ لہٰذا، اس کے فنکار عام طور پر اسے ۱۵ منٹ بجاتے ہیں، پھر پانچ منٹ آرام کرتے ہیں، اس کے بعد دیگر ۱۵ منٹ کے لیے بجاتے ہیں۔ ’’فنکار عموماً گہری سانس لیتا ہے اور پھر ہوا کو اس میں [کومبو میں] پھونک دیتا ہے۔‘‘ کالیشورن کہتے ہیں کہ سانسوں پر کنٹرول کا ہی کمال ہے کہ اس ساز کے تقریباً ۱۰۰ سال کی عمر کے فنکار آج بھی زندہ ہیں۔
۶۵ سالہ کے پیریا سامی، میلکوئل کُڈی میں فنکاروں کے گروپ، کومبو کلائی کُلو کے سرپرست ہیں۔ انہیں صرف کومبو بجانا آتا ہے۔ انہوں نے کئی لوگوں کو یہ ساز بجانا سکھایا ہے اور ان میں سے زیادہ تر مرد فنکاروں کی عمر ۳۰ سے ۶۵ سال کے درمیان ہے۔ ’’ہم کوئی دوسرا کام تلاش نہیں کر سکتے۔ ہمیں راشن میں صرف اَریسی [چاول] ملتا ہے، جو خراب کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ہم خود کو کیسے زندہ رکھیں؟‘‘ پیریاسامی کہتے ہیں۔
ان کے گھر کا تمام قیمتی سامان – اسٹیل کا ایک برتن، تانبہ کی بنی ہوئی چاول کی ایک دیقچی، ان کی بیوی کی تھالی (منگل سوتر، یعنی گلے میں پہننے والا زیور) – گروی رکھا ہوا ہے۔ ’’ہمارے پاس اب صرف پانی بھرنے کے لیے پلاسٹک کا ایک ڈبہ بچا ہے،‘‘ پیریاسامی آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں۔ لیکن ان کی بنیادی تشویش فن موسیقی کی اس شکل کو لیکر ہے – کیا سرکار اس فن اور اس کے فنکاروں کے لیے کچھ کرے گی؟ اگر نہیں، تو کیا کومبو بجانے کا سلسلہ انہی کے ساتھ ختم ہو جائے گا؟
میلکوئل کُڈی میں کومبو بجانے والے ۲۰ فنکاروں کے پاس ۱۵ ساز ہیں۔ یہ بگل (باجا) اس کمیونٹی کے پاس ۴۰ سالوں سے ہے۔ پرانے کومبو کو احتیاط کے ساتھ، ٹیپ سے چپکاکر محفوظ رکھا جاتا ہے۔ برا وقت آنے پر، ساز بجانے والے کومبو کو گروی رکھ دیتے ہیں۔ نئے ساز مہنگے ہیں، جن کی قیمت ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے ہے، اور یہ صرف کُمبکونم میں ہی ملتے ہیں، جو یہاں سے ۲۵۰ کلومیٹر دور ہے۔
پی مگراجن اور جی پلپانڈی ۳۰ سال کے ہیں، اور دونوں نے ۱۰ سال کی عمر سے پہلے ہی اسے بجانا شروع کر دیا تھا۔ دونوں فن موسیقی کی اس شکل کے ارتقا کے ساتھ بڑے ہوئے، اور اس کے ساتھ ہی ان کے اعزازیہ میں بھی اضافہ ہوا۔ ’’جب میں ۱۰ سال کا تھا، تو اسے بجانے کے لیے مجھے ۵۰ روپے ملتے تھے۔ میں کافی خوش ہو جاتا تھا۔ اب مجھے ۷۰۰ روپے ملتے ہیں،‘‘ مگراجن بتاتے ہیں۔
پلپانڈی راج مستری کا کام کرکے ایک دن میں ۷۰۰ روپے کماتے ہیں۔ یہ کام ہمیشہ ملتا ہے اور آمدنی بھی یقینی ہے۔ لیکن کومبو سے انہیں عشق ہے، جسے بجانا انہوں نے اپنے دادا سے سیکھا تھا۔ ’’ تاتا [دادا] جب زندہ تھے، تو مجھے اس فن کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں دوہری مار جھیلنی پڑی ہے۔ عمارتوں کی تعمیر کا کام ختم ہو گیا ہے اور کومبو بجانے کا کام بھی نہیں مل رہا ہے۔ ’’میں مدد ملنے کا انتظار کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’کالیشورن سر کی طرف سے مدد ملی،‘‘ کروپّیاہ بتاتے ہیں۔ تمل ناڈو میں جب مئی میں لاک ڈاؤن لگایا گیا، تو کالیشورن کی تنظیم، اے ایم سی نے ان فنکاروں کی فیملی کو ۱۰ کلو چاول تقسیم کیے تھے۔ کروپیاہ کی فیملی بڑی ہے، جس میں ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔ لیکن وہ اپنا انتظام کر لیں گے، وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم کھیت سے کچھ سبزیاں لا سکتے ہیں۔ کچھ بینگن، کچھ پیاز۔ لیکن شہروں میں رہنے والے لوگ کیا کریں گے؟‘‘
اس اسٹوری کا متن اپرنا کارتی کیئن نے رپورٹر کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز