اتراکھنڈ کے چمپاوت ضلع کے گڈیورا گاؤں میں دھری رام لڑکھڑاتے ہوئے چلتے ہیں، چلتے وقت ان کے ہاتھوں میں ایک ڈنڈا ہوتا ہے، پہاڑیوں کی سخت دھوپ کے سبب ان کی پیشانی اور آنکھوں میں شکن پڑ جاتا ہے۔ وہ ہرنیا کے مرض میں مبتلا ہیں، لیکن سرجری کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس کے لیے انھیں ۱۵۰ کلومیٹر دور واقع ٹنک پور کے سرکاری اسپتال، یا پھر ہلدوانی کے سرکاری اسپتال جانا ہوگا، جو کہ اس سے بھی زیادہ دور ہے۔
’’میں مہینہ میں ایک روپیہ بھی نہیں کما سکتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لہٰذا ۶۷ سالہ دھری رام، جو پہلے ایک مزدور تھے، پتھر توڑا کرتے تھے، اب پوری طرح سے ۱۰۰۰ روپے کی اپنی بڑھاپے کی پنشن پر منحصر ہیں، جو انھیں سات سال قبل ریاستی حکومت سے ملنی شروع ہوئی تھی۔ یہ بیش قیمتی رقم اکتوبر ۲۰۱۶ سے ان کے بینک کھاتے میں آنی بند ہو گئی۔ یہ تب ہوا، جب ریاستی حکومت نے ان لوگوں کے لیے پنشن اسکیم بند کر دی، جنہوں نے اپنے ضلع کے محکمہ برائے سماجی بہبود کو اپنی آدھار تفصیلات جمع نہیں کی تھیں۔
دھری رام اپریل ۲۰۱۷ میں، اپنے گاؤں سے تقریباً ۶۵ کلومیٹر دور، چمپاوت شہر میں واقع اس محکمہ میں اپنی تفصیلات رجسٹر کرانے گئے تھے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ بھی ہے، جو انھیں تین سال پہلے تب ملا تھا، جب انھوں نے آس پاس کے تقریباً ۱۰ گاؤوں کے نوڈل علاقہ، بھنگرارہ کے ایک پرائیویٹ سنٹر سے اسے بنوایا تھا۔ لیکن کارڈ پر – جسے وہ پوری احتیاط کے ساتھ ایک پلاسٹک کور میں رکھتے ہیں – نام لکھا ہے ’دھنی رام‘۔ اور یہ محکمہ برائے سماجی بہبود کے ان کے نام کے ریکارڈ سے میل نہیں کھاتا۔ اسی لیے ان کی پنشن رک گئی۔
دھری رام اکیلے رہتے ہیں؛ ان کی بیوی کا تقریباً ۱۵ سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی واحد اولاد، ایک بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ دہلی میں رہتا ہے، اور وہ بھی مزدور کے طور پر کام کرتا ہے۔ دھری رام کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ ’’یہ تو پہاڑی لوگوں کی مہربانی ہے کہ میں اب تک زندہ ہوں،‘‘ وہ نحیف آواز میں کہتے ہیں۔ ’’میں جب دکانوں پر جاتا ہوں، تو وہ اتنے نیک ہیں کہ مجھے آدھا کلو چاول اور دال مفت میں دے دیتے ہیں۔ میرے پڑوسی بھی مجھے کھانا دیتے ہیں۔‘‘ لیکن انھیں اس بات کی فکر ستاتی رہتی ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لیے کب تک ان پر منحصر رہیں گے۔ ’’وہ بھی غریب ہیں۔ بہت سے لوگ میری جیسی حالت کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
مقامی میڈیا میں یہ رپورٹ شائع ہو چکی ہے کہ ریاست کے کم از کم ۵۰ ہزار لوگوں – بیواؤں، معذوروں، بزرگوں – کو اکتوبر ۲۰۱۶ سے ہی، ۱۵ مہینوں کی پنشن اس لیے نہیں ملی ہے، کیوں کہ ان کے آدھار کی تفصیلات جمع نہیں کی گئی ہیں۔ دسمبر ۲۰۱۷ کی نیوز رپورٹس کے بعد، ریاستی حکومت نے جنوری کے شروع میں اعلان کیا کہ پنشن ۳۱ مارچ، ۲۰۱۸ تک کھاتے میں بھیج دی جائے گی۔ لیکن اس تاریخ کے بعد، حکومت صرف انہی لوگوں کو پنشن دے گی، جن کے کھاتے آدھار نمبروں سے جڑے ہوں گے، اور جن کی تفصیلات محکمہ سماجی بہبود کے پاس ہوگی۔
سرکار کے اعلان کے بعد، ہو سکتا ہے کہ دھری رام کی بقایہ پنشن بھنگرارہ کے نینی تال بینک میں ان کے کھاتے میں پہنچ گئی ہو – وہ اسے ابھی تک چیک نہیں کر پائے ہیں۔ لیکن یہ بھی ۳۱ مارچ کے بعد بند ہو جائے گی۔ لہٰذا دھری رام کے پاس اپنے آدھار کارڈ میں نام کو ٹھیک کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔
لیکن مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، بدعنوانی کی شکایتوں کے بعد بھنگرارہ کا آدھار سنٹر، اتراکھنڈ کے دیگر ۵۰۰ مراکز کے ساتھ بند ہو چکا ہے۔ سرکار کے ذریعہ چلایا جانے والا سب سے قریبی، چمپاوت کا آدھار سنٹر بھی دسمبر ۲۰۱۷ میں اس لیے بند کر دیا گیا، کیوں کہ اس پر بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا اور ساتھ ہی درخواستوں کی پروسیسنگ میں کافی وقت لگتا تھا۔ اب سب سے قریبی آدھار سنٹر بن باسا میں ہے، جو کہ گڈیورا گاؤں سے ۱۴۶ کلومیٹر دور ہے۔
’’میں اپنے آدھار کی غلط تفصیلات کو ٹھیک کرانے چمپاوت نہیں جا سکتا۔ مشترکہ ٹیکسیوں کے ذریعہ وہاں جانے میں ۵۰۰ روپے سے زیادہ کرایہ لگتا ہے، پھر وہاں دن بھر گزارنا اور پھر واپس آنا۔ میں اتنا خرچ کیسے برداشت کر سکتا ہوں؟‘‘ دھری رام سوال کرتے ہیں۔ ’’اور بن باسا کا سفر کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ وہاں جانے میں ۲۰۰۰ روپے لگیں گے۔ آدھار کارڈ کے بغیر یہیں مر جانا میرے لیے بہتر ہے۔‘‘
تقریباً ۵۵۰ لوگوں کی آبادی والے گاؤں، گڈیورا (مردم شماری میں اس کا املا ہے گڈورا) میں، بنیادی سرکاری خدمات سے آدھار کو جوڑنے کے فیصلہ کا اثر ہر فیملی پر پڑا ہے۔ وہ زمین جہاں کا بڑ علاقہ اکثر خشک رہتا ہے اور بے روزگاری بہت زیادہ ہے، آدھار ضابطوں نے گاؤں والوں کی مشکلوں میں صرف اضافہ ہی کیا ہے۔
انہی میں سے ایک ۴۳ سالہ آشا دیوی بھی ہیں، جنہیں اکتوبر ۲۰۱۶ تک ان کا بیوہ پنشن ملا تھا۔ ان کے شوہر، جو سرکاری واٹر ورکس ڈپارٹمنٹ میں ٹھیکہ دار ملازم تھے، کا انتقال چھ سال پہلے ہو گیا تھا۔ اپنی ماہانہ پنشن سے وہ اپنے بچوں کو گاؤں کے اسکول بھیج سکتی تھیں – ان کے تین بیٹے ہیں جن کی عمر ۱۴، ۱۲ اور ۷ سال ہے۔ پیسہ آنا جب رک گیا، تو دو بڑے بچوں نے اسکول چھوڑ دیا۔ ’’سرکاری اسکولوں میں بھی بچوں کو کتاب کاپیاں خریدنی پڑتی ہیں۔ میں اس کے لیے کہاں سے پیسے لاتی؟ میرے بیٹے اور میں مزدور کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ لیکن کوئی کام نہیں ہے، تو ہم کہاں جاکر یومیہ مزدوری کریں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔
’دکان کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، وہ مجھے راشن دینا بند کر دیتے ہیں۔ تب میں دوسری دکان سے سامان خریدتی ہوں۔ وہ بھی کچھ دنوں بعد مجھے راشن دینا بند کر دیتے ہیں... ہم ایسے ہی جی رہے ہیں...‘
تو آشا دیوی کی پنشن کیوں رک گئی؟ (محکمہ سماجی بہبود کے ریکارڈ میں) ان کے کھاتہ پر ان کے شوہر کا نام ہے، گووند بلبھ، جب کہ ان کے آدھار کارڈ پر ان کے والد، بال کرشن کا نام ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک دوسرا معاملہ ہے کہ عورتوں کو سرکاری فارم اور درخواستوں میں اپنے شوہر یا والد کا نام دینا ہوتا ہے۔
’’پنشن سے، میں اپنے بچوں کو اسکول جانے کے لیے تیار کر سکتی تھی۔ میرے پاس تھوڑی زمین ہے [مشکل سے ۲۰۰ مربع میٹر]، لیکن بارش نہیں ہوتی۔ میں تھوڑا دھنیا لگاتی ہوں [گھریلو استعمال کے لیے]، لیکن یہ مناسب پانی کے بغیر نہیں اُگتی،‘‘ آشا دیوی کہتی ہیں۔ ’’میں دکانوں سے راشن اُدھار خریدتی تھی [بھنگرارہ میں؛ چاول، تیل، دال، اور دیگر سامان]۔ لیکن دکان کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، وہ مجھے راشن دینا بند کر دیتے ہیں۔ تب میں دوسری دکان سے سامان خریدتی ہوں۔ وہ بھی کچھ دنوں بعد مجھے راشن دینا بند کر دیتے ہیں۔ پھر میں کسی اور دکان پر جاتی ہوں۔ ایسے ہی ہم اپنی زندگی جیتے ہیں۔ کوئی کام نہیں ہے۔ کوئی پیسہ نہیں ہے۔ اور سب سے اوپر یہ کہ سرکار سے ہمیں جو تھوڑا بہت پیسہ ملتا تھا آدھار نے وہ بھی چھین لیا۔‘‘
ستیش بھٹ کی فیملی میں، اکتوبر ۲۰۱۶ سے دو پنشن بند ہو چکی ہیں – ان کی ماں دُرگا دیوی اور ذہنی طور سے معذور بھائی راجو کی۔ درگا دیوی کے آدھار کارڈ پر ان کے والد، جوگا دت کا نام ہے، جب کہ ان کے بیوہ پنشن کھاتے پر ان کے شوہر، نارائن دت بھٹ کا نام درج ہے۔ سرکار کے ذریعہ حالیہ اعلان کے بعد، ان کی ۱۵ مہینے کی بقایہ پنشن کے ۹۰۰۰ روپے ان کے کھاتہ میں بھیجے جا چکے ہیں۔ اگر انھوں نے اپنی تفصیلات درست نہیں کروائیں، تو مارچ کے بعد یہ دوبارہ بند ہو جائے گی۔
تاہم، راجو کی پنشن اب بھی بند ہے۔ ستیش گاؤں کے ارد گرد کنسٹرکشن ورکر کے طور پر ماہانہ جو ۶۰۰۰ روپے کماتے ہیں اسی سے اپنی چھ رکنی فیملی – ان کی بیوی اور دو بچے، اور ان کی ماں اور بھائی – کا خرچ چلاتے ہیں۔ اکتوبر ۲۰۱۷ میں، انھوں نے چمپاوت کے آدھار سنٹر میں کارڈ کے لیے راجو کا اندراج کرانے کے لیے ۲۰۰۰ روپے میں پوری ایک کار بک کرائی۔ ’’جب میرے بھائی سے آنکھیں کھولنے کے لیے کہا گیا تاکہ پتلیوں کا اسکین کیا جا سکے، وہ فوراً ہی ان کو بند کر لیتا تھا۔ وہ دماغی طور سے بیمار ہے، بہت سی چیزوں کو وہ نہیں سمجھتا۔ ہم اسے مجبور نہیں کر سکتے۔ پھر بھی، ہمیں اس کے اندراج کی رسید مل گئی۔ لیکن بعد میں ہمیں بتایا گیا کہ اس کا اندراج ردّ کر دیا گیا ہے۔ اسے اب دوبارہ اندراج کرانا ہوگا۔ صرف اس کام کے لیے میں ہزاروں روپے خرچ کرنے کے لیے کہاں سے لاؤں؟‘‘ ستیش پوچھتے ہیں۔
بھنگرارہ علاقہ کے آس پاس کے گاؤوں، بشمول بالتاری، چلتھیا، بھنگرارہ، بیرگل اور پینانا کے بہت سے باشندوں کی ایسی ہی دکھ بھری کہانی ہے۔ انھوں نے ۲۳ دسمبر، ۲۰۱۷ کو ضلع مجسٹریٹ کو ایک درخواست دے کر یہ مطالبہ کیا کہ بھنگرارہ میں آدھار اینرولمنٹ سنٹر قائم کیا جائے۔ لیکن ابھی تک انھیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
اتراکھنڈ کے محکمہ برائے سماجی بہبود کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، ڈاکٹر رنبیر سنگھ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ریاست کے کم از کم ۵۰ ہزار لوگوں کو اکتوبر ۲۰۱۶ سے ان کی پنشن نہیں ملی ہے۔ ’’آدھار کو لازمی بنا دیا گیا ہے، اور مجھے معلوم ہے کہ پریشانیاں ہو رہی ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم انھیں دیکھ رہے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس آدھار کارڈ نہیں ہیں، اور جن لوگوں کے پاس غلط تفصیلات والے آدھار کارڈ ہیں، فی الحال تاریخ کو بڑھا کر ۳۱ مارچ، ۲۰۱۸ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر مسئلہ برقرار رہتا ہے، تو ہم تاریخ کو مزید آگے بڑھانے پر غور کریں گے۔ لیکن انھیں اس محکمہ میں اپنی آدھار تفصیلات جمع کرانی ہی ہوں گی۔ اگر کسی آدمی کے نام کا املا اس کے آدھار کارڈ پر غلط لکھا ہوگا، تو ہم اسے ہی حتمی نام سمجھیں گے تاکہ اس آدمی کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)