’’عورتیں ہوائی جہاز بھی اڑاتی ہیں، پھر آٹو رکشہ چلانے میں کیا مشکل ہے؟‘‘ چاندنی پرمار کہتی ہیں۔ صرف ۲۰ سال کی عمر میں، وہ ۲۰۱۸ کے آخر میں بھُج شہر کی پہلی خاتون آٹو رکشہ ڈرائیور بن گئیں۔ ایسی ہی دوسری ڈرائیور تھیں آشا واگھیلا، جو عمر میں ایک سال چھوٹی اور چاندنی کی خالہ ہیں۔
وہ چھکڑو یا چھکڑا کے نام سے مشہور تین پہیے والی گاڑی چلاتی ہیں، جس میں ۱۰ لوگ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ گجرات کے کچھّ ضلع کے ہیڈکوارٹر، بھُج سے ۲۵ کلومیٹر دور تک کے گاؤوں سے آنے جانے والے لوگوں کے لیے یہ ٹرانسپورٹ کا ایک عام ذریعہ ہے۔ چونکہ یہ ٹیکسی میٹر کے بغیر چلتی ہے، اس لیے کرایہ اندازاً، غیر تحریری ریٹ کارڈ کے مطابق لیا جاتا ہے۔ ’’ہم چھوٹی دوری کے لیے ۲۰-۳۰ روپے اور لمبی دوری کے لیے اس سے زیادہ لیتے ہیں،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ ’’اگر ہمیں بہت دور تک گاڑی چلانی پڑی، تو یہ ۳۰۰ روپے تک بھی جا سکتا ہے۔‘‘
شروع میں، ان کے اہل خانہ – خاص طور سے آشا کے والدین – اپنی بیٹیوں کو وہ کام نہیں کر دینا چاہتے تھے، جس سے پہلے کبھی نہ تو ان کی فیملی کی کسی عورت نے اور نہ ہی پورے بھُج میں کسی اور عورت نے کیا تھا۔ چاندنی کے معاملے میں، ایک بڑے اور لگاتار بڑھتے خاندان کی اقتصادی ضرورتوں نے ان کے والدین کو اس بات کے لیے تیار کرنے میں مدد کی کہ اپنی بیٹی کو تین پہیہ گاڑی چلانا سیکھنے کی اجازت دیں۔
چار بہنوں، دو بھائیوں اور اپنے والدین کی فیملی میں سب سے چھوٹی بچی، چاندنی مجھے اتوار شام کو بھُج ریلوے اسٹیشن کے اُس پار ایک نیم دیہی کالونی، بھوتیشور نگر میں واقع اپنے گھر لے گئیں۔ مین روڈ سے ان کے گھر تک ایک ٹیڑھا میڑھا، اوبڑ کھابڑ اور غبار آلودہ راستہ ہے۔ ’’میرے علاوہ کوئی بھی آٹو والا یہاں نہیں آئے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’اس لیے مجھے اپنے گھر کے آس پاس سے شہر جانے والے گاہک مل جاتے ہیں۔‘‘
ان کے والد، بھرت پرمار ایک ٹھیکہ مزدور ہیں، جو شادیوں اور دیگر پروگراموں کے لیے بانس اور کپڑے کے پنڈال بناتے اور اکھاڑتے ہیں۔ ’’ہم دونوں ناخواندہ ہیں۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سبھی بچے پڑھائی کریں۔ اب ہم سبھی آٹھ پورے دن باہر رہتے ہیں – یا تو اسکول میں یا کام پر!‘‘ چاندنی کی ماں بابی پرمار مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ وہ ایک ہوٹل کے باورچی خانہ میں کام کرتی ہیں، روزانہ تقریباً سو روٹیاں بیلتی ہیں۔
چاندنی کے سبھی بھائی بہن پڑھائی کر رہے ہیں۔ ان کا بھائی راہل ۸ویں کلاس میں اور بھاوِک ۷ویں کلاس میں ہے۔ ایک بہن، گیتا نے ۱۲ویں کلاس پاس کر لی ہے اور اب بھُج میں سرکار کے ذریعے چلائے جا رہے انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) میں کمپیوٹر سائنس کا کورس کر رہی ہیں۔ دوسری بہن، دیکشا ۹ویں کلاس میں اور سب سے چھوٹی بہن، ریتا کلاس ۳ میں ہے۔ ’’کبھی کبھی جب میرے والدین کام پر ہوتے ہیں، تو میں ان سبھی [بھائی بہنوں] کو اپنے چھکڑا میں گھمانے کے لیے باہر لے جاتی ہوں،‘‘ چاندنی ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔
’’آشا کی طرح مجھے بھی ۸ویں کلاس کے بعد پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ہم دونوں نے اسکول جانا بند کر دیا،‘‘ وہ مجھے بتاتی ہیں۔ نوجوان خالہ اور بھانجی ایک دوسرے کی چچیری بہنوں جیسی ہیں۔ اسکول چھوڑنے کے بعد، آشا نے اپنا زیادہ تر وقت بھُج میں گومتی روڈ پر ایک نیم دیہی کالونی، رام دیو نگر کے اپنے گھر میں اپنی ماں کی مدد کرنے میں گزارا۔
لیکن چاندنی نے چار سال تک، بجلی کے بلب بنانے والے کارخانے میں پیک کرنے والی کے طور پر کام کیا۔ وہ عارضی مزدور کے طور پر ہر مہینے ۶-۷ ہزار روپے کماتی تھیں، جو ان کے کام کے دنوں کی تعداد پر منحصر تھا۔ یہ ایک عارضی کام تھا، جو کارخانہ بند ہونے پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وہ کچھ برسوں تک بے روزگار رہیں، جب تک کہ ڈرائیونگ سیکھنے کا موقع نہیں آیا – جب کچھّ میں عورتوں کے درمیان اقتصادی آزادی کو فروغ دینے والی ایک تنظیم کے سماجی کارکنوں نے ان کے علاقے کا دورہ کیا۔
کام اور آزاد آمدنی نے انہیں مزید آزادی عطا کی۔ جینس اور ٹی شرٹ پہننے جیسی آسان چیزوں کے لیے اب انہیں اپنے والدین کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے
عورتوں کے گروپ نے پتا لگایا کہ روایتی ہنر جیسے کڑھائی، سلائی اور پاپڑ اور کھاکھرا جیسی کھانے کی خشک چیزیں بنانے کے علاوہ چاندنی اور آشا روزگار کے کون سے راستے تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لڑکیوں نے دلچسپی یا صلاحیت کی کمی کے سبب پینٹنگ، فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی سے انکار کر دیا۔ کام کی فوری اور آسان دستیابی کے امکان کے مد نظر آٹو رکشہ چلانا ایک عملی متبادل لگ رہا تھا۔
بھُج اور احمد آباد میں واقع غیر سرکاری تنظیموں نے ان کی ٹریننگ کے لیے فنڈ دیا اور انہیں گاڑی خریدنے کے لیے قرض دیا۔ چاندنی اور آشا نے تین ہفتے میں آٹو رکشہ اور بڑا چھکڑا چلانا سیکھ لیا۔ ۲۰۱۸ کے آخر تک، دونوں لڑکیوں نے اپنے اپنے چھکڑے خرید لیے – ہر ایک ۲ لاکھ ۳۰ ہزار روپے کے سود سے پاک قرض کے ساتھ۔ وہ فروری ۲۰۱۹ سے ۶۵۰۰ روپے کی ماہانہ قسطوں میں اپنا قرض چکا رہی ہیں۔ پورا قرض چکانے میں انہیں تقریباً تین سال لگیں گے۔
وہ ہر دن صبح ۸ بجے کام شروع کرتی ہیں اور شام کو ساڑھے ۷ بجے تک اپنے گھر لوٹ آتی ہیں۔ چاندنی کے لیے، ورڈی – مقررہ سواری – ایک یقینی آمدنی لاتی ہے۔ کچھ مہینوں تک، وہ ایک پروفیسر کو ہفتے میں روزانہ کچھّ یونیورسٹی لے جاتی تھیں۔ شام کو وہ انہیں ان کے گھر واپس چھوڑتی تھیں۔ نومبر ۲۰۱۹ میں جب ہم ان سے ملے، تو چاندنی کی واحد ورڈی ایک نابینا عورت تھیں، جسے وہ ان کے کام کے مقام تک پہنچاتیں اور شام کو گھر واپس چھوڑتی تھیں۔ ہر ایک ورڈی سے آمدنی ۱۵۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہوتی ہے۔
دن کے بقیہ وقت میں ان کا چھکڑا کرایے پر لے جانے کے لیے خالی رہتا ہے۔ آشا کی گاڑی بھی پورے دن کے لیے خالی رہتی ہے۔ بھُج کا سوامی نارائن مندر ایک مشہور مقام ہے جہاں وہ سواری حاصل کرنے کے لیے اپنی گاڑی پارک کرتی ہیں، گاہکوں کو ریلوے اسٹیشن، یا بھُج میں کسی مقام پر یا دیہی علاقوں میں واقع ان کے گھروں تک لے جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، دن میں اوسطاً ۶۰۰ روپے کے آس پاس کما لیتی ہیں۔ اس میں سے تقریباً ۲۰۰ روپے ایندھن خریدنے میں چلے جاتے ہیں، اور بقیہ رقم ان کے قرض کی قسطوں اور ذاتی اور گھریلو اخراجات کی ادائیگی پر خرچ ہوتی ہے۔
ممبئی، تھانے، پونہ، کولکاتا اور اندور جیسے شہروں میں تو عورتیں آٹو رکشہ چلاتی ہیں۔ لیکن ہندوستان کے سب سے بڑے ضلع، کچھّ کے ہیڈکوارٹر بھُج میں چاندنی اور آشا کے سڑکوں پر اترنے سے پہلے چھکڑا چلانے والی کوئی عورت نہیں تھی۔
چنوتی گاڑی کو سنبھالنے میں نہیں، جو کہ آسان تھی، بلکہ سماج والوں کے فقروں اور فیصلوں کے باوجود چھکڑا ڈرائیور بننے میں تھی۔ ’’کوئی عورت چھکڑا کیسے چلا سکتی ہے؟ کیا یہ مردوں کا کام نہیں ہے؟ انہیں کوئی شرم نہیں ہے؟‘ پڑوسی اس قسم کے سوال پوچھتے تھے،‘‘ چاندنی کہتی ہیں۔ ’’کچھ لوگ ہمیں اس کے ساتھ یا اُس کے ساتھ دیکھنے کی کہانی لیکر آتے – جب کہ وہ جن مردوں کے بارے میں باتیں کرتے، درحقیقت وہ ہمارے مسافر ہوتے تھے جنہوں نے سواری کے لیے ہمارے چھکڑے کو کرایے پر لے رکھا ہوتا تھا!‘‘ آشا غصہ سے کہتی ہیں۔
’’پہلے تو ہم گھر سے اکیلے باہر نکلنے میں بھی ڈرتے تھے، مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں ایسا کرنے کی ہمت کہاں سے ملی،‘‘ چاندنی کہتی ہیں۔ آشا کا ماننا ہے: ’’ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ ہماری فیملی ہمارے ساتھ کھڑی تھی۔ ہمیں ان سے طاقت ملی اور دوسروں نے ہمارے بارے میں جو کچھ برا کہا، اسے ان لوگوں نے نظرانداز کر دیا۔‘‘
کام اور آزادانہ آمدنی نے انہیں مزید آزادی عطا کی۔ جینس اور ٹی شرٹ پہننے جیسی عام چیزوں کے لیے اب انہیں اپنے والدین سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اپنے نئے کریئر کا مزہ لو، شادی کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے،‘‘ چاندنی کے والد نے ان سے کہا۔ ’’میں تمام والدین سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گھر تک محدود نہ رکھیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’دنیا بڑی ہے، اور گھر سے نکلنا ضروری ہے۔‘‘
’’کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ لڑکیاں کمزور ہیں،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ ’’لیکن ہم کمزور نہیں ہیں، ہم مضبوط ہیں! ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ چاندنی کہتی ہیں کہ چھکڑا ڈرائیور بننا اور خود سے کمانا ان میں آزادی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
’’مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب گاہک تعریف کرتے ہیں کہ میں چھکڑا چلاتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لیکن اصلی خوشی تو تب ہوتی ہے جب سڑک پر گاڑی چلانے کے دوران لڑکیاں ہمیں انگوٹھا یا جیت کا نشان دکھا کر زور سے کہتی ہیں ’گرل پاور، بیسٹ آف لَک‘۔‘‘
مضمون نگار کچھّ مہیلا وکاس سنگٹھن اور بھُج کی سکھی سنگنی کی ٹیموں کا ان کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز