’’ساریکا اور دیانند ساتپوتے نے ایک سال پہلے، مئی ۲۰۱۷ میں بے دلی سے گھر منتقل کر لیا تھا۔ یہ عدم تحفظ اور خوف پر مبنی فیصلہ تھا،‘‘ ۴۴ سالہ دیانند کہتے ہیں۔
مہاراشٹر کے لاتور ضلع کے اپنے گاؤں موگرگا میں، دلت برادری نے ۳۰ اپریل، ۲۰۱۷ کو امبیڈکر جینتی منائی تھی۔ ’’ہم ہر سال، بابا صاحب کی جینتی [۱۴ اپریل] کے کچھ دنوں بعد، اس موقع کی یاد میں ایک پروگرام کرتے ہیں،‘‘ دیانند بتاتے ہیں۔
موگرگا گاؤں کی آبادی تقریباً ۲۶۰۰ ہے – اکثریت مراٹھوں کی ہے، اور تقریباً ۴۰۰ دلت ہیں، جن میں سے زیادہ تر مہار اور ماتنگ برادریوں سے ہےیں۔ مراٹھا گاؤں کے بالکل درمیان میں رہتے ہیں، جب کہ دلت کنارے پر۔ کچھ ہی دلت کنبوں کے پاس زمین کے چھوٹے ٹکڑے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر مراٹھا کسانوں کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں، جو عموماً یہاں جوار، ارہر اور سویابین کی کھیتی کرتے ہیں۔ یا پھر وہ ۱۰ کلومیٹر دور، کِلّاری شہر میں مزدور، بڑھئی اور قلی کی شکل میں کام کرتے ہیں۔
لیکن پچھلے سال کے پروگرام کے بعد حالات بگڑ گئے۔ ’’پروگرام کے اگلے دن [پنچایت کے ذریعے] گرام سبھا بلائی گئی،‘‘ دیانند کہتے ہیں۔ ’’کچھ لوگ ہمارے گھروں میں گھُس گئے، ہمیں دھمکی دی اور ہمیں حاضر رہنے کا حکم دیا۔ اگلی صبح جب ہم [تقریباً ۱۵ لوگ] اُس سبھا میں پہنچے، تو انہوں نے ہمیں بھڑکانے کے لیے ’جے بھوانی، جے شیواجی‘ کے نعرے لگائے۔‘‘ یہ نعرے ۱۷ویں صدی کے مراٹھا حکمراں چھترپتی شیواجی کی تعریف میں لگائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر امبیڈکر کی سالگرہ منانے کے لیے جشن کے منتظمین میں شامل دیانند اور دیگر لوگوں کو اس کے بارے میں تفصیل سے بتانے کے لیے کہا گیا۔ ’’ہم نے کہا کہ ایسا کرنا ہمارا حق ہے، اور یہ ہم نے ہمیشہ کیا ہے،‘‘ دیانند کہتے ہیں۔ ’’لڑائی شروع ہو گئی اور ہمارے زیادہ تر لوگ بری طرح زخمی ہو گئے۔ ان کے پاس پہلے سے ہی لوہے کی چھڑ، پتھر اور اس قسم کی دیگر چیزیں تیار تھیں...‘‘
گرام سبھا کے بعد جو کچھ ہوا وہ پوری طرح سے ناانصافی تھی،‘‘ ساریکا کہتی ہیں۔ ’’اکثریتی طبقہ ہونے کے ناطے، انہوں نے آٹورکشہ کے ڈرائیوروں کو ہمیں بیٹھانے سے منع کر دیا، گاؤں کے دکانداروں نے بھی ہمیں کچھ بھی بیچنے سے انکار کردیا۔ ہم اپنے بچوں کے لیے ضروری راشن بھی نہیں خرید سکتے تھے،‘‘ ’پابندی‘ نے گاؤں کے سبھی دلت کنبوں کو متاثر کیا۔
پولس انسپکٹر موہن بھونسلے، جنہوں نے موگرگا معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا – کلّاری پولس اسٹیشن میں دلت اور مراٹھا، دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف معاملہ درج کرایا تھا – واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، ’’حالات اب پرامن ہیں۔ ہم نے پچھلے سال اکتوبر میں دیوالی کا پروگرام کا انعقاد مشترکہ طور پر کیا تھا۔ بھاؤبیج پر، جب بھائی اپنی بہن کو تحفہ دیتا ہے، مراٹھوں اور دلتوں نے ایک دوسرے کو تحفے دیے اور امن بنائے رکھنے کا وعدہ کیا۔‘‘
لیکن دیانند اور ساریکا کو زبردستی تھوپے گئے اس امن پر شک ہے۔ ’’دیوالی سے پہلے جب کسی شخص نے ایک دوسرے شخص کو ’جے بھیم‘ کہا، تو [دو برادریوں کے درمیان] ایک اور لڑائی چھڑ گئی،‘‘ دیانند، بھیم راؤ امبیڈکر سے متعلق دلت برادری کے سلام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’آپ امن پر کیسے بھروسہ کریں گے جب محض ’جے بھیم‘ کہنے سے جھگڑا بھڑک سکتا ہے؟‘‘
موگرگا کی یہ ذات پر مبنی لڑائی مہاراشٹر میں پہلے سے ہی اپنی جڑیں جما چکے ذات پر مبنی تناؤ کی کہانی بیان کرتی ہے، جس نے جولائی ۲۰۱۶ سے خطرناک شکل اختیار کرنی شروع کر دی جب احمد نگر ضلع کے کوپرڈی گاؤں میں ایک نابالغ طالبہ کی عصمت دری کی گئی، اس کے ساتھ ظلم کیا گیا اور پھر اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کا تعلق مراٹھا برادری سے تھا۔ نومبر ۲۰۱۷ میں ایک خصوصی عدالت نے تینوں ملزموں، سبھی دلت، کو موت کی سزا سنائی تھی۔
اس وحشیانہ جرم کے خلاف مراٹھوں نے ریاست بھر میں کئی مورچے نکالے – اور ۹ اگست، ۲۰۱۷ کو تقریباً ۳ لاکھ مراٹھوں نے ممبئی تک مارچ کیا۔ انہوں نے کئی مطالبات رکھے، لیکن بنیادی مانگ یہی تھی کہ کوپرڈی کے مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔
ان احتجاجی مظاہروں میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے ظلم کے نمٹارہ کے قانون (۱۹۸۹) کو ردّ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اونچی ذاتوں کا لمبے وقت سے دعویٰ ہے کہ دلتوں کے ذریعے اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
مراٹھا کرانتی مورچہ کے اُدے گوارے، جو لاتور واقع ایک وکیل ہیں اور ’فرضی‘ ظلم کے مقدمے مفت میں لڑتے ہیں، موگرگا گرام سبھا میں دلتوں پر ہوئے حملے کی مذمت کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ گاؤں میں نافذ یہ ’پابندی‘ ظلم سے نمٹارہ کے قانون کے غلط استعمال کے ردِ عمل میں تھا۔ ’’ظلم کے معاملے ان لوگوں کے خلاف بھی درج کرائے گئے جو تنازع کو حل کرنا چاہتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملے اگر صحیح ہیں، تو مراٹھوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ لیکن اگر معاملہ جھوٹا ہے، تو ملزمین کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔‘‘
موگرگا میں دو برادریوں کے درمیان تناؤ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ خوفزدہ ساریکا اپنی ۱۲ اور ۱۱ سال کی دو بیٹیوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دیتیں۔ ’’ہمیں چھوٹی سے چھوٹی چیز خریدنے کے لیے گاؤں سے باہر جانا پڑا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میرے سسر کو جب ہائی بلڈ پریشر کے لیے دواؤں کی ضرورت تھی، تو کیمسٹ نے انہیں دوا نہیں بیچیں۔ اسے [گاؤں کے باہر کی ایک دکان سے] خریدنے کے لیے انہیں پانچ کلومیٹر پیدل چلنا پڑا۔ کسی نے ہمیں کام پر نہیں رکھا۔ زندہ رہنا مشکل ہو گیا تھا۔‘‘
پوری برادری نے ایک مہینے سے زیادہ وقت تک اس کا سامنا کیا، ساریکا کہتی ہیں۔ مئی ۲۰۱۷ کے آخر میں، انہوں نے اور دیانند نے اپنے بیگ پیک کیے اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ لاتور شہر کی اندرا نگر کالونی چلے گئے۔ انہوں نے لاتور کے ایک اسکول میں لڑکیوں کا داخلہ کرایا۔ ’’ہمارے پاس اپنی زمین نہیں ہے،‘‘ دیانند کہتے ہیں۔ ’’وہاں پر ہم مزدوروں کے طور پر کام کرتے تھے، یہاں بھی مزدوروں کا کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں کی زندگی مشکل ہے کیوں کہ اخراجات زیادہ ہیں۔‘‘
تبھی سے دونوں میاں بیوی ہر صبح، شہر میں کام کی تلاش کے لیے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ ’’گاؤں کے مقابلے یہ مشکل ہے،‘‘ دیانند کہتے ہیں۔ ’’مجھے ہفتہ میں تین دن کام ملتا ہے، [مزدور یا قلی کے طور پر] تقریباً ۳۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے۔ ہمیں ۱۵۰۰ روپے کا کرایہ دینا پڑتا ہے۔ لیکن کم از کم میں اپنی فیملی کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوں۔‘‘
ساتپوتے فیملی کی کہانی قصبوں اور شہروں میں دلتوں کی بڑی تعداد میں مہاجرت کو بتاتی ہے۔ زرعی بحران کے سبب تمام گاؤوں کے لوگ بڑی تعداد میں اپنے گاؤوں سے باہر نکل رہے ہیں، لیکن ایک فرق ہے، دلت آدیواسی ادھیکار منچ کے پونہ واقع قانون کے پروفیسر نتیش نوسگرے کہتے ہیں۔ ’’دلتوں اور دیگر لوگوں کی مہاجرت میں فرق یہ ہے کہ [عام طور پر] دوسروں کے پاس خود کی زمین ہے، اس لیے انہیں گاؤں چھوڑنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ دلت سب سے پہلے مہاجرت کرتے ہیں۔ ان کے پاس واپس جانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ زیادہ تر وقت، صرف ان کے بڑے بوڑھے ہی وہاں رکتے ہیں۔‘‘
۲۰۱۱ کی زرعی شماری کے ڈیٹا واضح طور پر بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں دلتوں کے پاس کتنی کم زمینیں ہیں۔ ملک کی کل ۱۳۸۳۴۸۴۶۱ قابل کاشت زمین میں سے، درج فہرست ذاتوں کے پاس صرف ۱۷۰۹۹۱۹۰ یا ۱۲ء۳۶ فیصد زمین تھی۔ مالکانہ حق والی کل ۱۵۹۵۹۱۸۵۴ ہیکٹیئر زمینوں میں سے، دلت صرف ۱۳۷۲۱۰۳۴ ہیکٹیئر ۸ء۶ فیصد زمین کے مالک تھے۔
ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے اسکول آف سوشل ورک کے ڈین، منیش جھا کا کہنا ہے کہ دلت برادریوں کی مہاجرت میں اضافہ زرعی بحران کے ساتھ ساتھ بھید بھاؤ بڑھنے کی وجہ سے بھی ہو رہی ہے۔ ’’گاؤوں میں ان کا استحصال یا بھید بھاؤ ان کے اندر بے عزتی یا بائیکاٹ کا جذبہ پیدا کرتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اوپر سے، دلتوں کے پاس زمین نہیں ہے۔ اور مزدور کے طور پر کام کرنے کی ان کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ خشک سالی یا زرعی بحران کے دوران عام طور سے کوئی کام دستیاب نہیں ہوتا ہے۔‘‘
لاتور کے بدھ نگر میں، جہاں صرف دلت رہتے ہیں، ۵۷ سالہ کیشو کامبلے کہتے ہیں کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ’’فی الحال، ۲۰ ہزار سے زیادہ لوگ یہاں رہتے ہیں،‘‘ ان کا اندازہ ہے۔ ’’کچھ لوگ [اپنےگاؤوں سے] دہائیوں قبل آئے، جب کہ کچھ حال ہی میں آئے ہیں۔‘‘ کالونی کے تقریباً سبھی کنبے یومیہ مزدور ہیں، جیسے کویتا اور بالا جی کامبلے، جو پانچ سال پہلے لاتور سے ۲۰ کلومیٹر دور واقع کھارولا گاؤں سے یہاں آئے تھے۔ ’’ہم قلیوں کا، تعمیراتی مقام پر مزدوری کا کام کرتے ہیں – یا جو کچھ بھی کام ہمیں مل جائے،‘‘ کویتا کہتی ہیں۔ ’’گاؤں میں جو لوگ زمین کے مالک تھے، وہ طے کرتے تھے کہ ہمیں کام ملے گا یا نہیں۔ دوسروں کے رحم و کرم پر کیوں رہا جائے؟‘‘
واپس موگرگا میں، ذات پر مبنی تناؤ ایک سال بعد بھی جاری ہے، دیانند کے بھائی بھگونت کی بیوی یوگِتا کہتی ہیں، جو اپنے شوہر اور ان کے والدین کے ساتھ گاؤں میں رہتی ہیں۔ ’’وہ بوڑھے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’وہ گاؤں نہیں چھوڑنا چاہتے کیوں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی یہیں پر گزاری ہے۔ میرے شوہر زیادہ تر گاؤں کے باہر مزدور کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں گاؤں میں کام تو ملتا ہے، لیکن اتنا نہیں جتنا پہلے ملا کرتا تھا۔ ہمارے ساتھ ابھی بھی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ اس لیےہم بھی اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔‘‘
ضلع کے شعبہ سماجی بہبود کے مطابق، موگرگا کا واقعہ اپریل ۲۰۱۶ سے لاتور میں ہونے والے ذات پر مبنی جرائم کے تقریباً ۹۰ معاملوں میں سے ایک ہے، حالانکہ ان میں سے سبھی معاملے ظلم مخالف قانون کے تحت درج نہیں کیے گئے ہیں، جس میں ۳۵ سالہ لتا ساتپوتے کا بھی معاملہ شامل ہے، جو ہر دن ایسے مظالم کا سامنا کرتی ہیں۔ وہ ایک موسمی زرعی مزدور ہیں، جن کے شوہر اپنے گاؤں وَرونٹی سے چھ کلومیٹر دور، لاتور شہر میں ایک یومیہ مزدور ہیں۔ لتا ساتپوتے کو پانی لانے کے لیے تین کلومیٹر مزید آگے پیدل چل کر جانا پڑتا ہے [گاؤں کے باہر واقع ایک کنویں سے]، حالانکہ ایک عام کنواں ان کے گھر کے ٹھیک باہر موجود ہے۔ ’’ہمیں یہاں اپنے کپڑے دھونے یا پانی بھرنے کی اجازت نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں، اپنی بیٹی کو ہدایت کرتے ہوئے کہ وہ دھیان رکھے کہ پڑوسی نہ سن لیں کہ وہ کسی صحافی سے بات کر رہی ہیں۔ ’’مندر میں داخل ہونے کی تو بات ہی مت کیجئے، ہمیں اس کے سامنے سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)