وہ ایک ہفتے سے سوئی نہیں ہے۔ کسی وقت اس کے سب سے زیادہ کام آنے والا یمنا کا وہ علاقہ، شاید اس کی زندگی کے سب سے خطرناک منظر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ وہ اور اس کی ٹیم آج کے نئے آریہ ورت کے سفر پر تھے، اور افسانوں اور کہانیوں کی بنیاد پر ملک کو ڈھونڈنے کی کوشش میں تھے۔ جہاں بھی وہ کھودتے، ہر بار ایسی سڑکیں نکلتیں جنہیں کام چلاؤ شمشان اور قبرستان بنا دیا گیا تھا۔ گہرے رنگ کی مٹی کے اندر سے نکلتے انسانی ہڈیوں کے ڈھیر، کھوپڑیاں، اور موتی جیسی سفید ہڈیوں کے ٹوٹے بکھرے ٹکڑوں نے اس کے کام میں خوف بھر دیا جو کبھی اس کے لیے رغبت کی وجہ تھا۔

ایسے لمحات بھی آئے تھے کبھی جب انہیں کچھ الگ نظر آیا۔ جہاں سریو ندی بہتی تھی وہاں سے کچھ کلومیٹر کے فاصلہ پر، اسے ایک پرانے مندر کا ایک ڈھانچہ ملا۔ پتھر کے ٹکڑوں کے ساتھ جڑی تانبے کی پلیٹیں پڑی ہوئی تھیں، جن کے ڈھانچہ کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی، فن تعمیر کا طرز بالکل الگ تھا اور کسی پرانے دور کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔ اسے کچھ اینٹیں ملیں، جن پر کسی نامعلوم رسم الخط میں ایک لفظ لکھا ہوا تھا۔ اسے پتھر کے تختہ پر کندہ رسم الخط یاد آ گیا جو حال ہی میں یمنا کے مغربی ساحل کے پاس کھدائی میں ملے مقبرے جیسے ڈھانچہ کے ساتھ ملا تھا۔ انہیں مورتیاں بھی ملی تھیں – لمبی لمبی، کچھ تو ۱۸۲ میٹر لمبی، کچھ اس سے بھی زیادہ لمبی۔ لیکن جس نے ساری باتیں کو ہلکا ثابت کردیا، وہ تھیں انسانی ہڈیاں۔

اور اب ان سب کے درمیان، انہیں ایک ایسا خوفناک سہ رخی ڈھانچہ ملا جو دیکھنے میں کسی بادشاہ کے دربار جیسا تھا۔ ایک ایسے بادشاہ کا بدصورت محل، جس نے یمنا کے کنارے لاشوں پر حکومت کی ہوگی۔ خوفزدہ ہوکر اس نے اس کا نام شمشان نگر رکھ دیا۔ زمین سے نکلا ہر ٹوٹا ستون اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ قبر سے باہر نکلا ہے۔ تاریخی اور فارنسک سائنس دانوں کی جس ٹیم کے ساتھ وہ تھی انہیں سمجھنے میں مشکل آ رہی تھی، کیوں کہ جو سامنے نظر آ رہا تھا وہ تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام کی شکل میں تھا۔

سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

As outrage pours in at the Centre's relentless work on the lavish Central Vista project amidst the pandemic, a poet recalls an old tale

وہ سر کہ جس پر تاج ہے

یہ بادشاہ کی شان میں پیش ایک قصیدہ ہے
ایک بڑے رتھ پر سوار روندتا رہا اپنی پوری سرزمین
اور لاشوں کے انبار لگتے رہے، کم پڑنے لگی قبرستان کی زمین
زندگی کو مار گیا لقوہ یا ریت کی طرح پھسل گئی زندگی۔
لوگ سانس لینے کو ترستے رہے، روتے رہے اور کرتے رہے التجا
لیکن لگتا تو یہی ہے کہ بادشاہ اپنی جنت میں مست رہا
اس کے لیے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔
نئے محل کی خاطر اس نے اُلٹ دیا تھا اپنا سارا خزانہ –
چمکدار، عالیشان، اور انوکھے، چھوٹے گنبدوں والا۔
جب کہ مرنے والوں کے پاس رہنے کی بھی جگہ نہیں تھی
بے دخل ہوکر وہ سڑکوں پر تھے۔

کوئی رسم نہیں، نہ کفن، الوداع کے الفاظ بھی غائب
ہمارا دل خون کے آنسو ضرور رویا، خوف سے کانپے ہاتھ
فون اٹھاتے، جب جب بجی گھنٹی
کیا معلوم ذکر ہو ایک اور موت کا،
کوئی اپنا، کوئی دوست یا کوئی پروفیسر، بوڑھا اور وقت کی نبض پڑھنے والا۔
مگر صرف بادشاہ ہی ایسا تھا،
جو اپنے محل کی اونچی مینار پر کھڑا مسکرا رہا تھا
اور ایک چھوٹے سے وائرس کو جیت لینے کی اپنی شجاعت کی کہانیاں سناتا!
ہم امید کرتے ہیں ایک دن کہ یاد کیا جائے گا اسے
اُزی منڈیئس کی ایک اور چھوٹی کہانی میں۔

آئڈیو: سدھنوا دیش پانڈے جن ناٹیہ منچ کے ایک اداکار، ہدایت کار اور لیفٹ ورڈ بُکس کے ایڈیٹر ہی

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Sayani Rakshit

سیانی رکشت، نئی دہلی کی مشہور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرس ڈگری کی پڑھائی کر رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sayani Rakshit
Paintings : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique