شمالی چھتیس گڑھ کے کوربا اور سرگوجا ضلعوں کے درمیان پھیلے ہوئے ہسدیو ارند جنگلات وسطی ہندوستان کے ایک دوسرے سے متصل بہترین جنگلات میں سے ایک ہیں، جن میں سال بھر پانی کے ذرائع، نایاب پودے اور ہاتھیوں اور تیندوؤں سمیت جنگلی جانوروں کی مختلف قسمیں موجود ہیں۔
لیکن بہترین ماحولیاتی نظام والے ان جنگلات پر بھی خطرہ منڈرا رہا ہے، کیوں کہ یہاں کوئلے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ وزارتِ کوئلہ نے ہسدیو ارند کول فیلڈ کے بارے میں بتایا ہے کہ اس میں اربوں میٹرک ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ علاقہ ۱۸۷۸ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے، جس میں سے ۱۵۰۲ مربع کلومیٹر میں جنگلات ہیں۔
اس خطرے کی شروعات تب ہوئی، جب مرکزی حکومت نے پچھلے ہفتے کوئلے کی کانکنی کو تیز کرنے اور کارپوریشنز کے ذریعے افراد اور کمیونٹیز سے دیہی زمینیں اپنے قبضے میں لینے کے عمل میں تیزی دکھائی۔
جب اس کا متنازع کول مائننگ بل پارلیمنٹ میں راجیہ سبھا کے ذریعہ پاس نہیں ہوا، تو حکومت نے ۹۰ سے زیادہ کول بلاکس (یا کانوں) میں زمینوں اور جنگلات کو نیلام کرنے، اور کوئلے کی کمرشیل مائننگ کی اجازت فراہم کرنے کے لیے ۲۴ دسمبر، ۲۰۱۴ کو اس سے متعلق آرڈی ننس دوبارہ جاری کر دیا۔
۲۹ دسمبر، ۲۰۱۴ کو دوسرا آرڈی ننس جاری کرکے، پاور پروجیکٹوں سمیت ایسے متعدد پروجیکٹوں کے لیے جنہیں زمین کو اپنے قبضے میں لینے کی ضرورت ہے، تحویل اراضی، باز آبادکاری اور آبادکاری قانون ۲۰۱۳ کے تحت مناسب معاوضہ اور شفافیت کے حق سے متعلق عوامی سماعت، رضامندی اور سماجی اثر کا پتہ لگانے کی سہولت سے محروم کر دیا۔
نیوز رپورٹس اور سرکاری دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ان ماحولیاتی اور آدیواسیوں کے حقوق کے تحفظ کو بھی کمزور کر دینا چاہتی ہے، جن سے جنگلاتی علاقوں میں کانکنی کے ضوابط بنائے جاتے ہیں۔ یہ وسائل سے مالا مال زمینوں کو کارپوریشنوں کے حوالے کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ہسدیو ارند میں گاؤوں کے باشندے، بنیادی طور پر گونڈ کمیونٹی کے آدیواسی، ان اقدام پر گفتگو کرتے رہے ہیں، جن کا ان پر بہت بڑا اثر پڑنے والا ہے۔
دسمبر کے وسط میں، مقامی باشندوں نے ۱۶ گاؤوں میں گرام سبھائیں کیں اور قراردادیں پاس کرکے حکومت سے کہا کہ وہ ان جنگلوں اور ان کی زمینوں کو کانکنی کے لیے کارپوریشنز کو نیلام نہ کرے۔
انھوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ پی ای ایس اے اور فاریسٹ رائٹس ایکٹ کو نافذ کرے۔ یہ دونوں قوانین مقامی آدیواسیوں اور جنگلوں میں رہنے والی قوموں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ انھیں قدرتی وسائل سے متعلق فیصلہ لینے کے عمل میں شامل کیا جائے، جس میں جنگلات کی تباہی کے لیے ان سے منظوری لینا بھی شامل ہے۔
سال ۲۰۱۱ سے، اڈانی مائننگ پرائیویٹ لمیٹڈ ہسدیو علاقے میں سب سے بڑی کوئلہ کان کو آپریٹ کر رہی ہے، جو پارسا ایسٹ کانٹے باسن بلاک میں ہے، جس کے لیے جنگلات اور گاؤں والوں کے کھیتوں کو برباد کر دیا گیا۔ اس علاقے میں اب تک کوئلے کی ۳۰ کانوں کی تجویز ہے۔
آدیواسی کسان، گووند رام آج کل کافی پریشان ہیں اور بازآبادکاری کا انتظار کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کی زمین بھی کانٹے باسن کول بلاک میں جا چکی ہے۔
یو پی اے حکومت کے ذریعہ سال ۲۰۱۰ کے تجزیہ کے دوران ہسدیو کے زیادہ تر جنگلات کو ’نو گو‘ ژون قرار دے دیا گیا تھا، یعنی انھیں کانکنی سے دور رکھا جائے، لیکن اس تجزیہ کو تبھی سے کنارے رکھ دیا گیا ہے۔ اس علاقہ میں ہاتھیوں کے مجوزہ ریزرو کا نوٹس بھی اس لیے جاری نہیں کیا گیا، کیوں کہ صنعتی اکائیوں نے ۲۰۰۸ میں اس کے لیے لابیئنگ کی اور کہا کہ ہسدیو میں کانکنی کے شاندار امکانات موجود ہیں۔
ہسدید ارند بچاؤ سنگھرش سمیتی، گاؤں کی سطح پر چلائی جا رہی ایک تحریک ہے، جو تحفظ سے متعلق حکمت عملی بنانے کے لیے ہر ماہ میٹنگ کرتی ہے۔ یہاں، گاؤوں والے حال ہی میں جاری کیے گئے کول بلاک آرڈی ننس اور جنگلات اور ان کی زندگیوں پر پڑنے والے اس کے منفی نتائج پر غور و فکر کرتے ہیں۔
چاول کی فصل گھر آ رہی ہے۔ مقامی لوگوں کا معاش قدرتی طور پر زمین اور جنگلات جیسے قدرتی وسائل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
سلہی گاؤں کے باشندہ رام لال سنگھ اپنی گونڈ کمیونٹی کا روایتی ڈرم بجاتے ہیں، اس ڈھول کو بکرے کی کھال، اور بیجا اور جنگلوں سے حاصل کی جانے والی کھمار لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔
جنگلوں کے بیچ دھان کے کھیت ہیں۔ چاول یہاں کی بنیادی فصل اور مقامی باشندوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ عام جانوروں اور گھریلو مویشیوں کا چارہ بھی ہے۔
مویشی گھر آ رہے ہیں۔
جنگل کی پیداوار مقامی باشندوں کے لیے سال بھر کھانے اور آمدنی کا ذریعہ ہے۔ ماہا سنگھ گاؤں کے ہفتہ وار ہاٹ (بازار) میں بیچنے کے لیے مہوا کی ایک بوری لاتے ہیں۔
جنیو مجھوار آمجم تیل کے بیجوں کو خشک کر رہے ہیں۔
گاؤں کی رہنے والی پھول بائی رات کے کھانے کے لیے کھونکڈی، یا مش روم جمع کر رہی ہیں۔
ہسدیو جنگلات مقامی برادریوں کے لیے جلانے والی لکڑی اور گھاس سمیت روزمرہ کی دیگر ضروریات کا ذریعہ ہے۔
ان جنگلوں میں ۳۰ مختلف قسم کے گھاس کی قسمیں ہیں اور گاؤوں کے لوگ ان سے بہت سی چیزیں بناتے ہیں، جیسے جھاڑو، رسیاں اور چٹائیاں۔
ایک کسان بانس سے بنا ہوا دھان کا ہولڈر لے کر جا رہا ہے۔
گاؤوں میں مقدس مقامات یا ’ دے یورس‘ کی نشاندہی درختوں کے مجموعہ سے کی جاتی ہے۔ یہاں، ایک گاؤں والا اور پجاری اسی قسم کے ایک مقدس باغ میں پوجا کر رہا ہے۔
یہ بھی دیکھیں: صرف ایک کوئلہ بلاک نہیں ۔ گرام سبھا کی قراردادیں
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)