مرکزی اسٹیج کے سامنے بڑا مجمع خاموش ہو گیا۔ واحد ناقابل سماعت آواز جو بچی تھی، وہ یہاں موجود لاکھوں لوگوں کے دلوں اور سینکڑوں کلومیٹر دور ہر ایک شخص کی آبائی ریاست میں دھڑک رہی تھی۔ قائدین احترام میں اپنے سر جھکائے کھڑے ہو گئے، جب کہ ان کا حوصلہ کافی بلند تھا۔ جذبات سے بھرے اس ماحول میں، سب کی نگاہیں منتظر تھیں جب آٹھ نوجوان اپنے سروں پر مٹی کے گھڑے لیے سنگھو بارڈر پر سمیُکت وکاس مورچہ کے اسٹیج پر چڑھے۔
یادوں اور مقدس مٹی سے بھرا ہر ایک گھڑا میلوں کا سفر طے کرکے، ۲۳ مارچ ۲۰۲۱ کو بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو کا ۹۰واں یومِ شہادت منانے کے لیے، دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کے پاس پہنچا تھا۔
’’پنجاب کے یہ نوجوان آٹھ تاریخی مقامات سے مٹی لے کر آئے ہیں۔ وہ مقامات جو ہمارے لیے خاص ہیں، ہمارے دل میں ہیں – اور ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں،‘‘ کسان لیڈر، جتندر سنگھ چھینا نے اسٹیج سے اعلان کیا۔
وہ مٹی جس کی کسانوں کی زندگی میں ہمیشہ مادی اور ثقافتی اہمیت رہی ہے، نے اس شہید دیوس پر نئے سیاسی، تاریخی اور استعاراتی معنی حاصل کیے۔ جس مٹی کو وہ اپنے لیے مقدس سمجھتے ہیں اسے مختلف شہداء کے گاؤوں سے لانا، احتجاج کر رہے کسانوں میں نئی توانائی اور حوصلہ پیدا کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ اور یہ خیال کسانوں کی یونین اور کارکنوں کی ضلع سطحی میٹنگ میں عام لوگوں میں پیدا ہوا۔
’’ابھی، میں جذباتی ہوں۔ ہم سبھی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم یہ شہداء کس خون اور ہڈیوں سے بنے تھے،‘‘ مٹی لانے والے کسانوں میں سے ایک، پنجاب کے سنگرور کے ۳۵ سالہ بھوپیندر سنگھ لونگووال نے کہا۔ ’’ہم نے مٹی اس لیے جمع کی کیوں کہ اس سے ہمیں ظالم کے خلاف لڑنے کا عزم و حوصلہ ملتا ہے۔‘‘
۲۳ مارچ کا یوم شہداء، دہلی کی سرحدوں پر اب تک کا سب سے بڑا عدم تشدد پر مبنی کسانوں کے تاریخی احتجاج کا ۱۱۷واں دن بھی تھا۔
کسان زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کی شکل میں نئی قانونی ’اصلاحات‘ کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی لڑائی زراعت پر کارپوریٹ کے مکمل قبضہ کے خلاف ہے جو نہ تو کسانوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ وہ اس لڑائی کو انصاف و جمہوریت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنی زمین اور حقوق کی لڑائی کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ جدوجہد آزادی بھی ہے، لیکن اس بار ظالم کوئی غیر ملکی نہیں ہے۔
’’انقلابیوں نے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی تھی،‘‘ پنجاب کے فرید کوٹ ضلع میں کوٹ کپورہ بلاک کے اولاکھ گاؤں کے ۲۳ سالہ موہن سنگھ اولاکھ نے کہا۔ ’’وہ ایک ظالم اور سفاک حکومت تھی۔ بات یہ نہیں ہے کہ انگریز چلے گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ظالمانہ حکمرانی آج بھی برقرار ہے۔‘‘ چنانچہ ان کے لیے اور اس دن وہاں موجود دیگر لوگوں کے لیے، مجاہدین آزادی کی قربانیوں سے لبریز مٹی لیکر آنا آئینی حقوق کا دعویٰ کرنے کا ایک علامتی سیاسی عمل بن گیا۔
وہ ۲۳ مارچ کی صبح سنگھو پہنچے – جہاں اس دن پورے ملک سے ۲ ہزار سے زیادہ کسان پہنچے تھے۔ بھگت سنگھ، سکھدیو تھاپر اور شیو رام ہری راج گرو کی تصویریں اسٹیج پر نمایاں تھیں، جہاں مٹی سے بھرے گھڑے رکھے گئے تھے۔
انگریزوں نے ۲۳ مارچ ۱۹۳۱ کو جب انہیں لاہور کے سینٹرل جیل میں پھانسی دی تھی، تب ان مجاہدین آزادی کی عمر ۲۰ سال کے آس پاس تھی۔ ان کی نعشیں اندھیری رات میں خفیہ طریقے سے حسینی والا گاؤں میں لائی گئیں اور پھر انہیں آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس گاؤں میں، پنجاب کے فیروزپور ضلع میں ستلج ندی کے کنارے، حسینی والا قومی شہداء میموریل ۱۹۶۸ میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی جگہ ان کے ایک اور انقلابی ساتھی، بٹوکیشور دت، اور اس کے بعد بھگت سنگھ کی والدہ ودیاوتی کی بھی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ سنگھو کے اسٹیج پر موجود پہلے گھڑے میں اسی جگہ کی مٹی تھی۔
بھگت سنگھ کو جب پھانسی دی گئی، تو اُن کی جیب میں ایک اور عظیم مجاہد آزادی، کرتار سنگھ سرابھا کی تصویر تھی، جن کو انگریزوں نے محض ۱۹ سال کی عمر میں، ۱۹۱۵ میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ دوسرے گھڑے کی مٹی پنجاب کے لدھیانہ ضلع میں واقع ان کے گاؤں، سرابھا سے لائی گئی تھی۔ جیسا کہ بھگت سنگھ کی والدہ وِدیاوتی نے اُس نوجوان ہندوستانی انقلابی کے بارے میں کہا تھا، جو ایک صحافی اور غدر پارٹی کے سرکردہ ممبر تھے، کہ وہ ان کے بیٹے کا ’’ہیرو، دوست اور ساتھی تھا۔‘‘
لیکن بھگت سنگھ کی کہانی ۱۲ سال کی عمر میں شروع ہوئی، جب انہوں نے پنجاب کے امرتسر میں واقع جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا۔ وہاں ۱۳ اپریل ۱۹۱۹ کو، برطانوی فوج کے بریگیڈیئر جنرل ریجینالڈ ڈائر کے حکم پر۱۰۰۰ نہتے لوگوں کا قتل عام کر دیا گیا تھا۔ بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ سے خون آلودہ مٹی کے ٹکڑے جمع کیے اور اسے اپنے گاؤں لے آئے۔ مٹی کو انہوں نے اپنے دادا کے باغ کے ایک حصہ میں رکھ کر اس پر پھول کے پودے لگا دیے۔ سنگھو میں لائے گئے تیسرے گھڑے میں اُسی باغ کی مٹی تھی۔
چوتھے گھڑے کی مٹی پنجاب کے سنگرور ضلع کے سونام سے آئی تھی۔ یہ اودھم سنگھ کا گاؤں ہے، جنہوں نے ۱۳ مارچ، ۱۹۴۰ کو لندن میں مائیکل فرانسس اوڈوائیر کو گولی مارکر ہلاک کرنے کے الزام میں برطانوی عدالت میں مقدمہ کے دوران اپنا نام بدل کر محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا۔ اوڈوائیر نے، پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے، جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی کارروائیوں کی حمایت کی تھی۔ اودھم سنگھ کو موت کی سزا سنائی گئی اور ۳۱ جولائی ۱۹۴۰ کو لندن کے پینٹن وِلے جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ سال ۱۹۷۴ میں، ان کی باقیات کو واپس ہندوستان لایا گیا اور سونام میں آخری رسومات ادا کی گئیں۔
’’جس طرح سے بھگت سنگھ، کرتار سنگھ سرابھا، چاچا اجیت سنگھ، اودھم سنگھ اور ہمارے گروؤں نے ظالموں کے خلاف لڑائی لڑی، ہم بھی اپنے قائدین کے راستے پر چلنے کے لیے پر عزم ہیں،‘‘ بھوپندر لونگووال نے کہا۔ سنگھو میں موجود بہت سے کسانوں نے اُن کے جذبات کو دوہرایا۔
’’ہم ہمیشہ سے کمزور لوگوں پر طاقتوروں کی مرضی تھوپے جانے کو مسترد کرتے رہے ہیں،‘‘ بھگت سنگھ کے ۶۴ سالہ بھتیجے ابھے سنگھ نے، زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے تقریباً ۳۰۰ کسانوں کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
پانچواں گھڑا فتح گڑھ صاحب سے آیا تھا، جو اسی نام سے اب پنجاب کا ایک قصبہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں سرہند کے مغل گورنر، وزیر خان کے حکم پر ۲۶ دسمبر ۱۷۰۴ کو گرو گوبند سنگھ کے دو چھوٹے بیٹوں، پانچ سالہ بابا فتح سنگھ اور سات سالہ بابا زورآور سنگھ کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا تھا۔
چھٹے گھڑے کی مٹی گرودوارہ کتل گڑھ صاحب سے لائی گئی تھی، جو پنجاب کے روپ نگر ضلع کے چمکور قصبہ میں وہ جگہ ہے جہاں گرو گوبند سنگھ کے دو بڑے بیٹے – ۱۷ سالہ اجیت سنگھ اور ۱۴ سالہ جوجھار سنگھ – مغلوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ روپ نگر ضلع کے نورپور بیدی بلاک کے رنبیر سنگھ، یہ گھڑا لیکر آئے تھے۔ چاروں بھائیوں کی شجاعت و شہادت کی کہانیاں زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے بہت سے کسانوں کے ذہنوں میں پوری طرح پیوست ہیں۔
ساتواں گھڑا آنندپور صاحب سے لایا گیا تھا، جو پنجاب کے روپ نگر ضلع میں خالصہ کی جائے پیدائش ہے۔ خالصہ کا مطلب ہے ’خالص‘، اور یہ ۱۶۹۹ میں گرو گوبند سنگھ کے ذریعہ قائم کردہ سکھ مذہب کے اندر جنگجوؤں کے اس مخصوص طبقہ کو کہا جاتا ہے، جن کی ذمہ داری ظلم و ستم سے بے گناہوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ’’خالصہ کے قیام سے ہمیں لڑنے کا جذبہ ملا۔ اور زرعی قوانین کے خلاف احتجاج بھی پنجاب سے ہی شروع ہوا۔ ہمارے ملک کے لوگ شہیدوں کا احترام کرتے ہیں۔ ہندوستانیوں کا تعلق اُن روایات سے ہے جہاں ہم اپنے عزیزوں کو، جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے، خراج عقیدت پیش کرتے ہیں،‘‘ رنبیر سنگھ نے کہا۔
مختلف مقامات سے مٹی لانے والے تینوں نوجوان، بھوپندر، موہن اور رنبیر سنگھ نے کہا کہ [دہلی کی] سرحدوں پر احتجاج کرنے والے کسان خود ان جگہوں پر نہیں جا سکتے، لیکن وہاں کی مٹی ’’لڑنے کے ان کے عزم کو جلا بخشے گی، اور ان کے جذبہ اور حوصلہ کو بڑھائے گی۔‘‘
آٹھ کی قطار میں رکھا آخری گھڑا، پنجاب کے شہید بھگت سنگھ نگر ضلع میں بانگا شہر کے ٹھیک باہر بھگت سنگھ کے آبائی گاؤں، کھٹکر کلاں سے سنگھو لایا گیا تھا۔ ’’بھگت سنگھ کے نظریات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ انسانوں کے ذریعہ انسانوں اور قوموں کے ذریعہ قوموں کے استحصال کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ دہلی کی سرحدوں پر یہ لڑائی اُن کے نظریات کے حصول کی سمت ایک قدم ہے،‘‘ بھگت سنگھ کے بھتیجہ، ابھے سنگھ نے کہا۔
’’بھگت سنگھ کو اُن کے نظریات کی وجہ سے شہید اعظم کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنی تاریخ خود لکھنی ہے۔ اور ہم لوگ، بطور خواتین، بطور کسان، بطور مظلوم، اپنی تاریخ لکھ رہے ہیں،‘‘ ۳۸ سالہ کسان اور کارکن سویتا نے کہا، جن کے پاس ہریانہ کے حصار ضلع کی ہانسی تحصیل کے سورکھی گاؤں میں پانچ ایکڑ زمین ہے۔
’’موجودہ حکومت بڑے کارپوریشنوں کو ہماری زمین تک آسان رسائی فراہم کرنے کے لیے یہ قوانین لا رہی ہے۔ جو لوگ مرکز کے اس حکم نامہ کی مخالفت کر رہے ہیں، عاملہ انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتی ہے۔ ہم نہ صرف تین زرعی قوانین کے خلاف لڑ رہے ہیں، بلکہ یہ لڑائی کارپوریشنوں کے بھی خلاف ہے۔ ہم ماضی میں انگریزوں کے خلاف لڑ چکے ہیں۔ اب ہم ان کے حلیفوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز