وہ سونا کو دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں۔ ’’اگر آپ میرے ہاتھ میں کوئی زیور دیں، تو میں اسے چھوتے ہی اس کے کیرٹ کی تعداد بتا سکتا ہوں،‘‘ رفیق پاپا بھائی شیخ کہتے ہیں۔ ’’میں ایک جوہری ہوں (ان کے معاملے میں زیور کے کاریگر)۔ وہ ہم سے پُنے ۔ ستارا شاہراہ پر واقع پڈوی گاؤں میں بات کر رہے ہیں، جہاں پر انھوں نے شاید ایک بار پھر سونا دیکھ لیا ہے۔ اس بار یہ ایک ریستوراں ہے، جو جلد ہی کھلنے والا ہے۔
ہم نے اس ریستوراں کو تب دیکھا، جب ہم پُنے ضلع کی ایک جانب واقع ڈونڈ تحصیل سے گزر رہے تھے۔ تیز رنگوں والا جھونپڑی نما ڈھانچہ: اوپر سبز اور سرخ رنگوں سے خوبصورتی سے لکھا ہوا ’ہوٹل سیلفی‘۔ ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور اپنی گاڑی کو چلاکر وہاں تک واپس لے آئے۔ ہمیں اسے دیکھنا ہی تھا۔
’’دراصل، میں نے یہ ہوٹل اپنے بیٹے کے لیے بنایا ہے،‘‘ رفیق بتاتے ہیں۔ ’’میں خود ایک جوہری ہوں۔ لیکن، میں نے سوچا کہ اس کے لیے اس کام کو بھی کیوں نہ شروع کیا جائے؟ اس شاہراہ پر ٹریفک ہوتا ہے اور لوگ چائے پینے اور کھانا کھانے کے لیے رکتے ہیں۔‘‘ اس قسم کے دوسرے ڈھانچوں کے برعکس، انھوں نے اس ہوٹل کو شاہراہ کے بالکل کنارے نہیں بنایا ہے، بلکہ اس کے سامنے کئی گز کی جگہ بھی چھوڑی ہے، تاکہ لوگ وہاں اپنی گاڑیاں کھڑی کر سکیں، جیسا کہ ہم نے کیا۔
رفیق شیخ، ہوٹل کے مالک اور زیور کے کاریگر۔ اور ہاں، یہ سیلفی نہیں ہے
ہم نے جب رفیق کو یہ بتایا کہ ان کے ہوٹل کے نام، ’سیلفی‘ کو دیکھ کر ہم واپس لوٹے ہیں، تو وہ خوش ہو گئے، حالانکہ ہم لوگ ستارا میں میٹنگوں میں شرکت کے لیے تیزی سے بھاگے جا رہے تھے۔ وہ زوردار قہقہہ لگاتے ہیں، ہر بار بیٹے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، دیکھو میں نے تم سے کہا تھا نا۔ انھوں نے یہ نام خود چُنا ہے۔
نہیں، ہم نے رفیق کی تصویر اپنے چھوٹے سے ریستوراں کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے نہیں کھینچی۔ وہ ظاہری اور فرسودہ ہوتی۔ اور ان کی انوکھی ’پہل‘ سے صرف لوگوں کی توجہ ہٹا رہی ہوتی۔ کسی نہ کسی کو، کہیں نہ کہیں، ہوٹل کا نام ’سیلفی‘ تو رکھنا ہی تھا۔ انھوں نے دوسروں سے پہلے ہی یہ کام کر لیا۔ خیر، ہم نے پہلی بار ایسا کہیں دیکھا۔ (دیہی ہندوستان میں ہم نے زیادہ تر جگہوں پر سبھی ریستوراں، کھانے کی جگہوں، ڈھابوں اور چائے کی دکانوں کو ’ہوٹل‘ کہتے ہوئے ہی سنا ہے)۔
بہرحال، یہ بات تو یقینی ہے کہ ہوٹل کھلنے کے بعد یہاں بے شمار مسافر اور سیاح رکیں گے اور اپنی فرسودہ خواہشوں کی تکمیل کریں گے۔ شاید اسنیکس سے کہیں زیادہ سیلفی لینے کے لیے۔ چائے کو بھلایا بھی جا سکتا ہے، لیکن آپ ہوٹل سیلفی کو اپنے ساتھ ہمیشہ رکھیں گے۔ نہایت ہی عظیم پرانے ایگلس (چیل) کے گانے کی یہ بالکل الگ لائن: آپ جب چاہیں یہاں سے باہر نکل سکتے ہیں، لیکن آپ اسے کبھی چھوڑ نہیں سکتے۔
مت بھولیے، رفیق شیخ کا ہوٹل سیلفی کافی بھیڑ جمع کرنے والا ہے۔ رفیق کو بھی اس کا پورا اندازہ ہے۔ وہ سونا کو دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)
ڈاکٹر محمد قمر تبریز ایک انعام یافتہ، دہلی میں مقیم اردو صحافی ہیں، جو راشٹریہ سہارا، چوتھی دنیا اور اودھ نامہ جیسے اخبارات سے جڑے رہے ہیں۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے تبریز اب تک دو کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھنے کے علاوہ متعدد کتابوں کے انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمے کر چکے ہیں۔ آپ ان سے یہاں رابطہ کر سکتے ہیں: @Tabrez_Alig
پی سائی ناتھ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے دیہی ہندوستان کے رپورٹر رہے ہیں اور ’ایوری باڈی لوز گُڈ ڈراٹ‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ ان سے یہاں پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: @PSainath_org