’’میری پانچ سال کی بیٹی کو بہت تیز بخار ہے،‘‘ شکیلہ نظام الدین کہتی ہیں، ’’لیکن پولس نے میرے شوہر کو [اسے اسپتال لے جانے سے] روک دیا۔ وہ ڈر گئے اور گھر واپس آ گئے۔ ہمیں کالونی سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے، یہاں تک کہ اسپتال بھی نہیں۔‘‘
شکیلہ (۳۰)، احمد آباد کی سٹیزن نگر راحت کالونی میں رہتی ہیں۔ وہ گھر پر پتنگ بناکر جیسے تیسے گزارہ کرتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر، جو ایک یومیہ مزدور ہیں، اس لاک ڈاؤن کے دور میں کمائی کے ساتھ ساتھ اپنی امیدوں کو بھی مندمل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ’’کلینک بند ہے،‘‘ انہوں نے مجھے ویڈیو کال پر بتایا۔ ’’وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ’گھر جاؤ، کچھ گھریلو نسخے آزماؤ‘۔ اگر ہم اسپتال جانا چاہتے ہیں، تو پولس والے ہم سے فائلیں اور کاغذات مانگتے ہیں۔ یہ سب ہم کہاں سے لائیں؟‘‘
یہ کالونی خیراتی اداروں کے ذریعے ۲۰۰۴ میں بنائی گئی گجرات کی ان ۸۱ کالونیوں میں سے ایک ہے، جنہیں ۲۰۰۲ کے سنگین فرقہ وارانہ تشدد میں بے گھر ہوئے ۵۰ ہزار سے زیادہ لوگوں کو بسانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہاں رہنے والوں کے لیے لاک ڈاؤن کا یہ دور کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔
لیکن یہ لوگ اپنی ٹی وی اسکرین پر امیتابھ بچن کو بھی دیکھ رہے ہیں، جو سب کو ساتھ آنے اور اس نئے کورونا وائرس کو پورے ہندوستان میں پھیلنے سے روکنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ جیسا کہ کالونی والوں میں سے ایک نے مجھے بتایا۔
’’اگر ہمیں صرف اپنے اپنے گھروں میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی ہی اجازت ہے، تو پھر ہاتھ دھونے کا کیا فائدہ ہے؟‘‘ ریشما سید پوچھتی ہیں، جنہیں پیار سے ریشما آپا بلاتے ہیں، جو سٹیزن نگر میں رہنے والی برادری کی قائد ہیں۔ یہ ۲۰۰۲ کے نروڈا پاٹیا کے فساد متاثرین کے لیے بسائی گئی، احمد آباد کی ۱۵ باز آباد کاری کالونیوں میں سے ایک ہے۔ کالونی کے دروازہ پر لگی پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ اس کالونی کو ۲۰۰۴ میں کیرالہ ریاست مسلم راحت کمیٹی کی مدد سے بنایا گیا۔ اس کی تعمیر تب ہوئی، جب یہاں پر سب سے پہلے ۴۰ کنبے آئے تھے، وہ فساد متاثرہ کنبے، جنہوں نے دو سال پہلے اپنی تمام ملکیت کو اپنی آنکھوں کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا تھا۔
اب یہاں تقریباً ۱۲۰ مسلم کنبے رہتے ہیں۔ اور سو سے بھی زیادہ لوگ بغل کے مبارک نگر اور گھاسیا مسجد کے علاقے میں رہتے ہیں – یہ سب اس بڑی بستی کا حصہ ہیں جو ۲۰۰۲ کے پہلے سے یہاں تھی۔ ان کالونیوں میں فساد متاثرہ پناہ گزینوں کی تعداد تب اور بھی بڑھ گئی جب سٹیزن نگر کا قیام عمل میں آیا تھا۔
سٹیزن نگر، پیرانہ کے بدنام ’کوڑے کے پہاڑوں‘ کے دامن میں ہے۔ زمین کا یہ حصہ ۱۹۸۲ سے احمد آباد میں کوڑے کا ڈھیر جمع کرنے کی عام جگہ ہے۔ ۸۴ ہیکٹیئر میں پھیلا، یہ اپنے بڑے بڑے کچرے کے ٹیلوں سے پہچانا جاتا ہے، جن میں سے کچھ کی اونچائی ۷۵ میٹر سے بھی زیادہ ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق، پیرانہ میں تقریباً ۸۵ لاکھ میٹرک ٹن کچرا ہے – اور یہ پورے شہر میں زہریلا دھواں پھیلانے کے لیے بدنام ہے۔
اس بات کو سات مہینے ہو چکے ہیں، جب نیشنل گرین ٹربیونل نے احمد آباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کو کچرا صاف کرنے کے لیے ایک سال کی مہلت دی تھی۔ مشکل سے ۱۵۰ دن اور بچے ہیں، اور کچرا ہٹانے کے کام کے لیے صرف ایک ٹریمل مشین ہی کام کرتی دکھائی دیتی ہے – اُن ۳۰ میں سے ایک جو اس کام کے لیے آنے والی تھیں۔
اس دوران، چھوٹے چھوٹے آتش فشاں نما انبار سے آئے دن آگ لگتی رہتی ہے، جس سے کافی دھواں نکلتا ہے۔ جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے، تب یہ کالونی میڈیا کی نظروں میں آ جاتی ہے۔ یہاں ’بسائے‘ گئے لوگوں کی حالت زار کے بارے میں بتایا جانے لگتا ہے کہ جن گھروں میں وہ اتنے سالوں سے رہ رہے ہیں، ان گھروں کے ان کے پاس کاغذ تک نہیں ہیں۔ اس نگر کے باشندے ۱۵ سالوں سے زیادہ عرصے سے اس زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔
’’یہاں ایسے کئی سارے مریض ہیں جو خشک کھانسی اور زکام کی شکایت لیکر آتے ہیں،‘‘ ڈاکٹر فرحین سید بتاتی ہیں، جو پاس ہی کی راحت سٹیزن کلینک میں بیٹھتی ہیں، جو اس برادری کے لیے خیراتی اداروں اور سماجی کارکنوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ ’’ہوائی آلودگی اور ہمیشہ منڈلاتی ہوئی زہریلی گیسوں کی وجہ سے اس علاقے میں سانس کی تکلیف اور پھیپھڑوں کا انفیکشن عام بات ہے۔ کالونی میں بہت سارے ٹی بی کے مریض بھی ہیں،‘‘ سید بتاتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے وقت اس کلینک کو بند کرنا پڑا۔
ریشما آپا جیسے لوگوں کے لیے، کووڈ- ۱۹ صفائی سے متعلق رہنما ہدایات، جو انہیں بار بار ہاتھ دھونے کی صلاح دیتی ہیں، سٹیزن نگر کے لوگوں کی بیچارگی کا مذاق اڑاتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، جہاں نہ کے برابر صاف پانی ہے۔
اس کالونی میں کورونا وائرس سے جڑا خطرہ صرف موت، انفیکشن یا بیماری کا ہی نہیں ہے – وہ تو یہاں پہلے سے ہی تھا – بلکہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بھوک مری اور طبی سہولیات کے نہ مل پانے کا بھی ہے۔
’’ہم میں سے زیادہ عورتیں قریب کی چھوٹی فیکٹریوں – پلاسٹک، ڈینم، تمباکو کی – میں کام کرتی ہیں،‘‘ ۴۵ سالہ ریحانہ مرزا کہتی ہیں۔ ’’اور فیکٹریوں کا ویسے بھی کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ جب کام ہوتا ہے تب بلا لیتے ہیں اور جب نہیں ہوتا تب نکال دیتے ہیں۔‘‘ ریحانہ، جو کہ ایک بیوہ ہیں، پاس ہی کی تمباکو فیکٹری میں کام کرتی تھیں اور دن میں ۸ سے ۱۰ گھنٹے کام کرنے کے بعد تقریباً ۲۰۰ روپے کما لیتی تھیں۔ وہ کام لاک ڈاؤن کے دو ہفتہ پہلے ہی بند ہو گیا تھا، اور جب تک لاک ڈاؤن نہیں ہٹتا تب تک کچھ اور کام ملنے کی امید بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس کھانا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
’’یہاں نہ تو سبزی ہے، نہ دودھ ہےہ اور نہ ہی چائے پتی،‘‘ ریشما آپا کہتی ہیں، ’’اور بہت سے لوگوں نے ایک ہفتہ سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ وہ لوگ [حکام] باہر سے سبزی بیچنے والوں کو بھی نہیں آنے دیتے۔ وہ پاس کی کیرانہ کی دکانوں کو کھلنے نہیں دیتے۔ یہاں پر بہت سارے لوگ ریہڑی لگاتے ہیں، آٹو چلاتے ہیں، بڑھئی ہیں، یومیہ مزدور ہیں۔ یہ لوگ باہر جاکر کما نہیں سکتے۔ پیسہ اپنے آپ سے تو آئے گا نہیں۔ ہم کیا کھائیں گے؟ ہم کیا کریں؟‘‘
کالونی کے کئی آٹورکشہ ڈرائیوروں میں سے ایک، فاروق شیخ کہتے ہیں، ’’مجھے یومیہ ۳۰۰ روپے کے کرایے پر آٹو چلانے کو ملتا ہے۔ لیکن میری کوئی مقررہ کمائی نہیں ہے۔ جس دن میری کمائی اچھی نہیں ہوتی، اس دن کا بھی مجھے کرایہ دینا پڑتا ہے۔ پیسے کے لیے کبھی کبھی میں فیکٹریوں میں بھی کچھ کام کر لیتا ہوں۔‘‘ ۱۵ گھنٹے آٹو چلانے کے بعد انہیں دن کے تقریباً ۶۰۰-۷۰۰ روپے مل جاتے تھے، لیکن ہاتھ میں صرف ۵۰ فیصد یا اس سے کم ہی آتے تھے۔
چھ لوگوں کی فیملی میں اکیلے کمانے والے فاروق کو لاک ڈاؤن اور اب ان کے علاقے میں لگے کرفیو کی وجہ سے کافی مصیبت جھیلنی پڑ رہی ہے۔ ’’ہم روز کماتے اور کھاتے ہیں۔ اب ہم باہر جاکر کما نہیں سکتے۔ پولس ہمیں مارتی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’کچھ لوگوں کے گھروں میں تو پانی بھی نہیں ہے۔ کیا سینٹائزر؟ کیا ماسک؟ ہم غریب لوگ ہیں۔ ہمارے پاس ایسی مہنگی چیزیں نہیں ہیں۔ آلودگی تو ویسے بھی یہاں ہر دن رہتی ہے۔ اور ویسے ہی مرض اور بیماریاں بھیں۔‘‘
اس علاقے میں جہاں بود و باش کی اتنی خطرناک حالت اور خطرہ ہے، متعدد بار درخواست دینے کے باوجود بھی ابتدائی طبی مرکز کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ سال ۲۰۱۷ میں جاکر یہاں راحت سٹیزن کلینک کھولی گئی، جو پوری طرح سے نجی چندے اور ابرار علی، جو احمد آباد یونیورسٹی کے ایک نوجوان پروفیسر ہیں اور اس برادری کی صحت و تعلیم سے متعلق مسائل پر کام کر رہے ہیں، جیسے لوگوں کی کوششوں سے چل رہی ہے۔ لیکن کلینک کو چلانا آسان کام نہیں ہے۔ علی کو صحیح ڈاکٹروں، عطیہ کرنے کے خواہش مند حضرات اور رحم دل مکان مالکوں کو تلاش کرنے میں بہت جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں کلینک کو تین جگہ اور چار ڈاکٹر بدلنے پڑے ہیں۔ اور اب تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کلینک بھی بند ہے۔
سٹیزن نگر اے ایم سی کی حد میں واقع ہے، لیکن یہاں میونسپل کارپوریشن کا پانی نہیں آتا ہے۔ پانی کے لیے یہاں کے لوگ ۲۰۰۹ میں بورویل کی کھُدائی سے پہلے، نجی ٹینکروں پر منحصر رہتے تھے۔ لیکن بورویل کا پانی کبھی بھی پینے لائق نہیں تھا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، احمد آباد کے ذریعے کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہاں کے پانی میں مختلف قسم کے نمک، دھات، کلورائڈ، سلفیٹ اور میگنیشیم کی کافی اعلیٰ مقدار موجود ہے۔ فی الحال یہاں پر چھ مہینے پہلے کھودا گیا ایک اور بورویل، کالونی کی ضرورتوں کو کچھ حد تک پورا کرتا ہے۔ لیکن پانی سے ہونے والی بیماریاں اور پیٹ کا انفیکشن یہاں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گندا پانی پینے اور اس کو استعمال کرنے کی وجہ سے یہاں کی عورتوں اور بچوں کو جلد کے کئی قسم کے مرض اور فنگل انفیکشن ہو جاتے ہیں۔
سٹیزن نگر کے لوگوں کے لیے تو سرکار نے ان سے بہت پہلے ہی سماجی دوری بنا لی تھی۔ کووڈ- ۱۹ کی وبا اور لاک ڈاؤن پہلے سے ہی متاثرہ برادریوں کے لیے آخری چوٹ جیسا ہے۔ ’’سرکاریں تو بس باتیں ہی کرتی ہیں اور ووٹ مانگتی ہیں،‘‘ مشتاق علی (بدلا ہوا نام) کہتے ہیں، جو یہاں رہنے والے ایک بڑھئی ہیں۔ ’’کسی بھی لیڈر نے ہمارے علاقے میں آنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم ابھی تک کیسے رہ رہے ہیں۔ ایسی سرکار کس کام کی؟ [یہاں کے] لوگوں کو بھی ان کا کھیل سمجھ میں آتا ہے۔‘‘
مشتاق کے ایک کمرے کے مکان میں، اور اس گنجان کالونی کے دوسرے گھروں میں بھی رکھے ٹیلی ویژن پر امیتابھ بچن کی جانی پہچانی آواز انہیں صلاح دیتی ہوئی سنائی پڑتی ہے: ’’...اپنی آنکھوں، ناک، منہ کو بلا وجہ نہ چھوئیں... اگر آپ کو ان میں سے کوئی بھی علامت دکھائی دے، تو فوراً قریب کے طبی مرکز یا ڈاکٹر کے پاس جائیں...‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)