’’سات بارہ کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے،‘‘ کسانوں کے احتجاج کے طور پر جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں بیٹھیں، ۵۵ سالہ ششی کلا گائکواڑ نے کہا۔

ان کے بغل میں، ایک خیمہ میں نارنگی اور لال رنگ کی ٹاٹ پر، ۶۵ سالہ ارونا بائی سوناونے بیٹھی تھیں۔ وہ دونوں ۲۵-۲۶ جنوری کو سمیُکت شیتکری کامگار مورچہ کے ذریعہ منعقد احتجاجی مظاہرہ میں شرکت کرنے کے لیے مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع کے چِمناپور گاؤں سے ممبئی آئی تھیں۔

دونوں ۲۰۰۶ کے حق جنگلات قانون کے تحت اپنی زمین کا مالکانہ حق مانگنے اور تین نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے یہاں آئی تھیں۔ بھیل آدیواسی برادری کی ارونا بائی اور ششی کلا دونوں کے لیے، کنڑ تعلقہ کے ان کے گاؤں میں زرعی مزدوری ہی ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ کام دستیاب ہونے پر انہیں ۱۵۰-۲۰۰ روپے یومیہ مزدوری ملتی ہے۔ ’’آپ کے برعکس، مجھے نہیں معلوم کہ میں ایک مہینہ میں کتنا کماؤں گی،‘‘ ارونا بائی نے مجھ سے کہا۔

ہر تین ایکڑ میں، دونوں مکئی اور جوار بھی اُگاتی ہیں۔ وہ مکئی کی فصل کو فروخت کر دیتی ہیں – تقریباً ایک ہزار روپے فی کوئنٹل کے حساب سے ۱۰-۱۲ کوئنٹل – اور جوار کو فیملی کے کھانے کے لیے اپنے پاس ہی رکھتی ہیں۔ باڑ کے باوجود، جنگلی سور، نیل گائے اور بندر اکثر ان کی فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ’’جس کے پاس بھی کھیت ہے، وہ راتوں کو [فصلوں کی رکھوالی کرنے کے لیے] جاگتا ہے،‘‘ ارونا بائی کہتی ہیں۔

ششی کلا اور ارونا بائی جس زمین پر کھیتی کرتی ہیں، وہ محکمہ جنگلات کی ہے۔ ’’سات بارہ [زمین کی ملکیت کا ریکارڈ] کے بغیر ہم [کھیتی کے لیے] کوئی سہولت حاصل نہیں کر سکتے ہیں،‘‘ ششی کلا نے کہاں۔ ’’محکمہ جنگلات کے لوگ بھی ہمیں پریشان کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہم سے کہتے ہیں: یہاں کھیتی مت کرو، وہاں اپنا گھر مت بناؤ، اگر ٹریکٹر لائے تو ہم تمہارے اوپر جرمانہ لگا دیں گے۔‘‘

ششی کلا اور ارونا بائی آزاد میدان میں زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کو منسوخ کرنے کے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کے مطالبہ کی حمایت کرنے کے لیے بھی آئی تھیں۔ ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔

'There will be more pressure if more of us come [to protest]', says Arunabai Sonawane (right), with Shashikala Gaikwad at the Azad Maidan farm sit-in
PHOTO • Riya Behl

’اگر [احتجاج کرنے کے لیے] زیادہ لوگ آئیں گے، تو مزید دباؤ پڑے گا‘، ارونا بائی سوناوَنے (دائیں) کہتی ہیں، جو ششی کلا گائکواڑ کے ساتھ آزاد میدان کے دھرنے میں بیٹھی ہیں

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

ششی کلا اور ارونا بائی کی دیگر تشویشیں بھی ہیں۔ دونوں خواتین نے تقریباً ایک دہائی قبل اپنے شوہر کو تپ دق کے سبب کھو دیا تھا، لیکن ان میں سے کسی کو ابھی تک بیوہ پنشن نہیں ملی ہے۔ ششی کلا اب اپنے دو بیٹوں، ان کی بیویوں اور تین پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتی ہیں؛ فیملی کے پانچ بالغ افراد کھیتوں پر اور زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔

’’ہم [بیواؤں] میں سے ۶-۷، [پنشن] فارم کے ساتھ تحصیل دار کے دفتر [کنڑ] گئے تھے،‘‘ ارونا بائی نے تقریباً دو سال پہلے کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا۔ ’’انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے دو بڑے بیٹے ہیں اس لیے مجھے پنشن نہیں ملے گی۔‘‘

ارونا بائی اپنے دو بیٹوں، ان کی بیویوں اور آٹھ پوتے پوتیوں کے ساتھ ۱۳ رکنی فیملی میں رہتی ہیں۔ ان کی فیملی کے بھی پانچ بالغ افراد کسان اور زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں، اور کبھی کبھی چِمناپور کے ایک چھوٹے سے تالاب سے مچھلی پکڑتے اور اسے کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔

’’کل میرے بڑے بھائی کے بیٹے کی شادی ہے، لیکن میں یہاں آئی ہوں – یہ سننے اور جاننے کے لیے کہ کیا ہو رہا ہے،‘‘ ارونا بائی نے اُس دن ممبئی کے آزاد میدان میں پختہ عزم کے ساتھ کہا۔ ’’اگر [احتجاج کرنے کے لیے] زیادہ لوگ آئیں گے، تو مزید دباؤ پڑے گا۔ اسی لیے ہم سب یہاں ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Riya Behl

ریا بہل ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور صنف اور تعلیم سے متعلق امور پر لکھتی ہیں۔ وہ پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کے لیے بطور سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کر چکی ہیں اور پاری کی اسٹوریز کو اسکولی نصاب کا حصہ بنانے کے لیے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique