ملک میں پہلا کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن ۲۵ مارچ ۲۰۲۰ کو لگایا گیا تھا، جو لاکھوں عام ہندوستانیوں کے لیے آفت بن کر آیا۔

’’ہم پہلے ہی تنگی میں تھے، اب کچھ بھی نہیں بچا۔‘‘ جموں میں تعمیراتی مقام پر مزدوری کرنے والے موہن لال اور ان کی بیوی نرمدا بائی کے پاس، لاک ڈاؤن شروع ہونے کے وقت صرف ۲۰۰۰ روپے بچے تھے۔ تب انہیں راشن اور دیگر ضروری سامان خریدنے کے لیے اپنے ٹھیکہ دار سے قرض لینا پڑا تھا۔

دیہی اور زرعی ہندوستان کی حالت سے متعلق ۲۰۲۰ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مجموعی طور پر، اپریل اور مئی ۲۰۲۰ کے دوران بے روزگاری کی شرح بڑھ کر اچانک ۲۳ فیصد ہو گئی تھی – جو کہ فروری ۲۰۲۰ میں درج کی گئی شرح (۳ء۷ فیصد) سے تین گنا زیادہ ہے۔ وبائی مرض (۱۹-۲۰۱۸) سے پہلے، یہ شرح تقریباً ۸ء۸ فیصد تھی۔

PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane

لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں کارکنوں کی نوکری ایک جھٹکے میں چلی گئی؛ مہاجر مزدوروں کو گھر لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔

مہاراشٹر کے بیڈ کی رہنے والی ارچنا مانڈوے نے بتایا، ’’لاک ڈاؤن کے ایک مہینہ بعد ہم گھر لوٹ آئے تھے۔‘‘ ختم ہو رہے بچت کے پیسے اور کوئی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے، اس پانچ رکنی فیملی کے پاس اپنے گاؤں لوٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ سفر کرنے پر پابندی لگی ہوئی تھی، اس لیے یہ لوگ صرف رات میں چلتے تھے – اورنگ آباد سے ۲۰۰ کلومیٹر کا سفر انہوں نے ایک ہی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کیا تھا۔

پاری نے ہندوستان کے کارکنوں پر کووڈ۔۱۹ کے اثرات سے متعلق ۲۰۰ سے زیادہ اسٹوری کی ہے۔ پاری لائبریری کے کووڈ۔۱۹ اور لیبر والے حصہ میں ان اسٹوریز کو مزید پختہ بنانے والی تحقیق اور رپورٹس موجود ہیں، جن میں ہندوستان کے کارکنوں کی حالت اور انہیں درپیش مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں حکومت، آزاد تنظیموں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی اشاعتیں شامل ہیں۔

PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane
PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane

عالمی ادارہ محنت (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، آئی ایل او) کی عالمی اجرت رپورٹ ۲۱-۲۰۲۰ کے حساب سے وبائی مرض کے دوران پوری دنیا میں کام دھندہ ختم ہو گیا، بے روزگاری بہت بڑھ گئی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے کام کے گھنٹوں میں جو کمی آئی، وہ ۳۴۶ ملین کل وقتی نوکری کے نقصان کے برابر تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا بھر میں مزدوروں کی آمدنی ۷ء۱۰ فیصد کم ہو چکی ہے۔

دریں اثنا، دنیا بھر کے ارب پتیوں کی زندگی مزے میں گزرتی رہی۔ آکسفیم کی ۲۰۲۱ کی رپورٹ دی اِن ایکویلٹی وائرس (یعنی غیر برابری کا وائرس) کی مانیں، تو مارچ سے دسمبر ۲۰۲۰ کے درمیان ارب پتیوں کی دولت میں مجموعی طور پر ۹ء۳ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ وہیں، آئی ایل او کی رپورٹ غیر روایتی کارکنوں کی خستہ حالی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ سال ۲۰۲۰ میں ان کارکنوں کی آمدنی میں پہلے کے پانچویں حصہ (۶ء۲۲ فیصد) کے برابر کمی دیکھنے کو ملی۔

دہلی کی ایک کمہار ، شیلا دیوی کے گھر والوں کی کمائی بھی وبائی مرض کے ابتدائی مہینوں میں ۱۰ سے ۲۰ ہزار روپے (تہواروں کے دوران) سے گھٹ کر محض ۴-۳ ہزار روپے رہ گئی تھی۔ وہیں، گجرات کے کچھّ سے تعلق رکھنے والے کمہار اسماعیل حسین، اپریل سے جون ۲۰۲۰ کے درمیان اپنا ایک بھی سامان فروخت نہیں کر پائے تھے۔

تمل ناڈو کے مدورئی سے تعلق رکھنے والی کرگٹم فنکار ایم نلّو تائی کا کہنا تھا، ’’ابھی تو میں اپنے دو بچوں کے ساتھ راشن کے چاول دال پر گزارہ کر رہی ہوں۔ لیکن معلوم نہیں، ایسا کب تک چلے گا۔‘‘ وبائی مرض کی وجہ سے ان کا بھی کام اور آمدنی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane
PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane

دہلی کی خواتین گھریلو کارکنوں پر کووڈ ۱۹ لاک ڈاؤن کے اثرات سے انکشاف ہوا کہ مئی ۲۰۲۰ میں جن گھریلو کارکنوں کا سروے کیا گیا تھا، ان میں سے ۸۳ فیصد کو لاک ڈاؤن کے دوران مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے تقریباً ۱۴ فیصد خواتین اپنے گھر کے اخراجات کو پورا کرنے میں ناکام رہیں اور انہیں رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے اُدھار لینے پڑے۔

پونے کی گھریلو کارکنوں کا بھی یہی حال تھا۔ ابولی کامبلے کا کہنا تھا، ’’ہم جو بھی کماتے ہیں وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے، اور ہم دوسروں کے گھروں میں کام کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ لیکن اب کوئی کام ہی نہیں بچا ہے، تو ہمیں پیسے کہاں سے ملیں گے؟‘‘

آکسفیم کی رپورٹ اقتدار، منافع اور وبائی مرض کے مطابق، کووڈ۔۱۹ سے پہلے ہندوستان کی افرادی قوت میں خواتین کی حصہ داری ۲۰ فیصد تھی، جب کہ وبائی مرض کی وجہ سے ۲۳ فیصد عورتوں کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ حالانکہ، وہ وبائی مرض کے دوران بھی ’ضروری‘ افرادی قوت کا بیش قیمتی حصہ تھیں۔

شاہ بائی گھرات مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کی ایک منظوری یافتہ سماجی صحت کارکن یا آشا ہیں، جنہیں گھر گھر جا کر اپنی معمول کی ڈیوٹی پورا کرنے کے علاوہ کووڈ۔۱۹ کے معاملوں کا بھی پتہ لگانا پڑا۔ جب ان کے گھر کے لوگوں کو کووڈ ہوا، تو علاج کے لیے انہیں اپنا کھیت اور زیور تک بیچنا پڑا تھا۔ لگاتار کڑی محنت والے اس کام کے عوض انہیں صرف ۲۲ ڈسپوزیبل ماسک اور پانچ این ۹۵ ملے۔ ’’کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے کام میں شامل جوکھم کے بدلے ہمیں جو دیا جاتا ہے وہ کافی ہے؟‘‘

PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane

وبائی مرض شروع ہونے کے ایک سال بعد بھی مزدوروں کی حالت خستہ ہی بنی رہی۔ گمنام شہریوں کی آواز ۲: کووڈ۔۱۹ کے ایک سال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وبائی مرض کے بعد ۷۳ فیصد کارکنوں کو اپنی نوکری بچانے میں مشکلیں پیش آ رہی تھیں۔ اور ۳۶ فیصد کارکنوں کی تنخواہ کم کر دی گئی تھی۔

پارلیمنٹ نے سماجی تحفظ کا ضابطہ، ۲۰۲۰ پاس کیا تھا، جس کا مقصد یہ ہے کہ ’’منظم یا غیر منظم یا کسی اور شعبے میں کام کرنے والے تمام ملازمین اور کارکنوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ سے متعلق قوانین میں ترمیم کی جائے اور انہیں مضبوط بنایا جائے۔‘‘ لیکن، ہندوستان بھر کے کارکنوں کو آج بھی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں۔

پاری لائبریری، زمینی صورتحال کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور سرکاری پالیسیوں کے نفاذ کی خامیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک مناسب جگہ ہے۔

کور ڈیزائن: سودیشا شرما

مترجم: محمد قمر تبریز

Swadesha Sharma

سودیشا شرما، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) میں ریسرچر اور کانٹینٹ ایڈیٹر ہیں۔ وہ رضاکاروں کے ساتھ مل کر پاری کی لائبریری کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Swadesha Sharma
Editor : PARI Library Team

دیپانجلی سنگھ، سودیشا شرما اور سدھیتا سوناونے پر مشتمل پاری لائبریری کی ٹیم عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی پر مرکوز پاری کے آرکائیو سے متعلقہ دستاویزوں اور رپورٹوں کو شائع کرتی ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز PARI Library Team
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique