دِنکر آئیولے کے لیے یہ سال پوری طرح خاموش رہا، جب کئی مہینوں سے ان کی بانسری سے کوئی ساز نہیں نکلا۔ ’’یہ ساز سیدھے منہ کے رابطہ میں آتا ہے۔ اس کورونا دور میں اس قسم کا رابطہ خطرے سے بھرا ہے،‘‘ اینٹ اور مٹی سے بنے اپنے گھر کے اندر اپنے ورکشاپ میں بیٹھے، وہ کہتے ہیں۔
ان کے بغل میں ایک پرانا لکڑی کا ڈبہ ہے، جو اوزاروں سے بھرا ہے۔ اگر وہ ان کا استعمال کرتے جیسا کہ انہوں نے ایک سال پہلے تک کیا تھا، تو انہیں ایک کونے میں سلیقہ سے رکھے، کچے پیلے بانس کے ڈنڈوں سے بانسری بنانے میں ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت لگتا۔
اس کی بجائے، ۷۴ سالہ دِنکر ہماری گفتگو کے دوران بانس کو بس دیکھتے رہتے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے ان کا کام تقریباً پوری طرح سے رک گیا ہے – اپنی اس دستکاری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وہ تقریباً ۱۵۰۰۰۰ گھنٹے تک کام کر چکے ہیں، اور پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، ایک سال میں ۲۵۰ دنوں سے لیکر ۲۷۰ دنوں تک، روزانہ ۱۰ گھنٹے محنت کرتے تھے۔
انہوں نے ۱۹ سال کی عمر سے بانسری بنانا شروع کیا تھا، تب سے آئیولے نے اتنا لمبا بریک کبھی نہیں لیا تھا۔ اور نہ ہی انہوں نے پچھلے سال سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کیا، جیسا کہ وہ عموماً مہاراشٹر اور کرناٹک کی مختلف جتراؤں (میلے) میں بانسری بیچنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ جترا جیسے بڑے پروگراموں کی اجازت ابھی تک نہیں دی گئی ہے۔
لاک ڈاؤن کے پہلے بھی، دنکر آئیولے فیملی – ان کا تعلق ہولر برادری سے ہے، جو درج فہرست ذات میں شامل ہیں – اپنے گاؤں، کوڈولی میں بانسری بنانے والی واحد فیملی تھی۔ مہاراشٹر کے کولہا پور ضلع کے پنہالا تعلقہ میں واقع اس گاؤں کی آبادی تقریباً ۲۹ ہزار ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔
ماضی میں، ان کی برادری کے مرد، جو روایتی طور پر شہنائی اور ڈفڈا (ڈفلی) بجاتے تھے، اکثر مذہبی یا سماجی تقریبات میں انہیں بجایا کرتے تھے، اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بینڈ بھی بنایا تھا اور ۱۹۶۲ میں اس گروپ میں شامل ہونے والے ۱۴-۱۵ موسیقاروں میں سے ایک دنکر بھی تھے۔ تب وہ ۱۶ سال کے تھے، اور ۸ویں کلاس میں اسکول چھوڑنے کے بعد اپنے والد، آنجہانی بابو راؤ کے ساتھ جانے لگے تھے۔ بعد میں وہ دو بینڈوں میں بجانے لگے، ایک خود ان کے اپنے گاؤں کا تھا اور دوسرا پڑوسی گاؤں کا، دونوں کا نام ’ہنومان‘ بینڈ تھا۔
’’اپنے والد کی طرح، میں نے ۳۸ سال تک بینڈ میں شہنائی اور تُرہی بجائی،‘‘ آئیولے پورے فخر سے کہتے ہیں۔ وہ اس وراثت کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں: ’’ واجنتری چا مُلگا جر رڈلا تر تو سوراچ رڈنا [جب بینڈ بجانے والے کا بچہ روتا ہے، تو اس کا رونا بھی سُر میں ہوتا ہے]۔‘‘ انہوں نے یکساں آسانی اور مہارت کے ساتھ بانسری اور شہنائی بھی بجائی۔
حالانکہ، بینڈ بجانے سے ہونے والی آمدنی بہت کم تھی اور کبھی بھی ایک جیسی نہیں تھی۔ ’’اُن دنوں ۱۴-۱۵ لوگوں کے گروپ کو تین دن کے پروگرام کے لیے مشترکہ طور پر ۶۰ روپے ملتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ اس سے انہیں تین دنوں کے بینڈ کے کام سے صرف ۴ روپے ملتے تھے۔ اس لیے دنکر کو یومیہ مزدور کے طور پر دوسرا کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ لیکن جب اس سے بھی پوری کمائی نہیں ہوئی، تو انہوں نے کچھ دیگر ہنر حاصل کرنے کی کوشش کی۔
’’کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں، اس بارے میں بتاتے ہوئے کہ انہوں نے بانسری بنانا کیسے شروع کیا۔ ’’میں اپنی فیملی کا خرچ کیسے چلاتا؟ مزدوری کافی نہیں تھی۔‘‘ ۱۹۶۰ کی دہائی میں، زرعی مزدور کے طور پر ۱۰ گھنٹے کام کرنے کے بعد انہیں صرف ۱۰ آنہ (۱ آنہ ایک روپیہ کا ۱/۱۶واں حصہ ہوتا ہے) ملتا تھا۔ دنکر نے تقریباً دو دہائی تک مزدور کے طور پر کام کیا، جب تک کہ انہیں کچھ ایسا نہیں مل گیا ’’جو مجھے دن میں دو بار کھانا کھانے میں مدد کر سکتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ان کا اشارہ ۲۰ کلومیٹر دور واقع سورڈے گاؤں کی طرف تھا، جہاں ان کے سسر آنجہانی داجی رام دیسائی نے انہیں بانس سے بانسری بنانے کا طریقہ سکھانا شروع کیا۔ وہ کبھی کبھی سفر بھی کرتے رہے اور بینڈ بجانابھی جاری رکھا۔ (سال ۲۰۰۰ میں، ان کا سفر تب رک گیا جب ان کی بیوی تارا بائی کی کورونری بائی پاس سرجری ہوئی اور ان کی دیکھ بھال کے لیے انہیں گھر پر رہنے کی ضرورت پیش آئی۔ ۲۰۱۹ میں تارا بائی کا انتقال ہو گیا)۔
ان کے بیٹے، ۵۲ سالہ سریندر کو بھی اپنے والد سے شاندار بانسری بنانے کا ہنر وراثت میں ملا ہے۔ (دنکر اور تارا بائی کی دو بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے اور ایک کا انتقال ہو گیا ہے)۔ سریندر نے ۱۳ سال کی عمر سے بانسری بیچنا شروع کر دیا تھا، اور جب وہ ۱۶ سال کے تھے، تو اپنے والد کی طرح انہوں نے بھی کل وقتی طور پر کام کرنے کے لیے ۱۰ویں کلاس میں پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ ’’شروع میں، مجھے [سڑکوں پر بانسری بیچنے میں] جھجک اور شرم محسوس ہوتی تھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن، دنکر کہتے ہیں، ’’لیکن جب آپ کو اپنی فیملی کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے، تو آپ جھجک نہیں سکتے۔‘‘
پچھلے سال لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے تک، سریندر باقاعدگی سے اپنے والد کے ساتھ پونہ اور ممبئی جیسے شہروں میں انہیں فروخت کرنے کے لیے مختلف مقامات کا سفر کرتے رہے۔ لیکن وہ اور دنکر مارچ سے اکتوبر ۲۰۲۰ کے درمیان ایک بھی بانسری نہیں فروخت کر پائے۔ واحد آرڈر انہیں نومبر میں ملا، جب ان کے گاؤں سے تقریباً ۵۵ کلومیٹر دور، سانگلی شہر کے ایک تاجر نے ان سے الگ الگ سائز کی پانچ درجن بانسری (وہ سب سے لمبی بانسری تقریباً ڈھائی فٹ کی بناتے ہیں) بنانے کے لیے کہا۔ انہوں نے اسے – ۶۰ بانسری – ۱۵۰۰ روپے میں فروخت کیا۔ بنا کسی فروخت اور کمائی کے ان مہینوں کے دوران، یہ فیملی شہروں میں کام کرنے والے اپنے بچوں اور پوتوں کے ذریعہ بھیجے گئے پیسے پر منحصر تھی۔
نومبر کے بعد بھی کاروبار میں تیزی نہیں آئی۔ دنکر اور سریندر آخری جترا میں ایک سال پہلے، ۲۱ فروری ۲۰۲۰ کو سانگلی ضلع کے اوڈمبر گاؤں گئے تھے۔ ’’کسی بھی جترا میں، ہم تقریباً ۲ سے ڈھائی مجموعی (۱ مجموعی ۱۴۴ یونٹ کے برابر) بانسری آسانی سے فروخت کر سکتے ہیں،‘‘ سریندر بتاتے ہیں۔ آئیولے کسی بھی میلہ کی تیاری کے لیے، پہلے سے ہی ۵۰۰ سے زیادہ بانسری بنا لیا کرتے تھے۔
ہر سال، وہ مغربی مہاراشٹر اور شمالی کرناٹک کے گاؤوں میں لگنے والے ۷۰ سے زیادہ جتراؤں کو کور کرتے تھے۔ ’’ہم ایک اسٹینڈ پر کم از کم ۵۰ بانسری لٹکاتے ہیں اور اپنی بانسری بجاتے رہتے ہیں۔ اگر اس کی دھن لوگوں کو اچھی لگتی ہے، صرف تبھی وہ بانسری خریدیں گے،‘‘ دنکر کہتے ہیں۔
ان بانسریوں کو بنانے کے لیے وہ کولہاپور ضلع کے اجرا اور چندگڑ تعلقہ کے بازاروں سے بہترین کوالٹی والے بانس لاتے ہیں۔ ایک شینڈا ، تقریباً ۸ سے ۹ فٹ لمبا، کی قیمت اس وقت ۲۵ روپے ہے۔ ’’یہ ۱۹۶۵ میں، جب میں نے بانسری بنانا شروع کیا تھا، ۵۰ پیسے کا ملتا تھا۔ ایک شینڈا سے، ہم آسانی سے ۷-۸ بانسری بنا سکتے ہیں،‘‘ دنکر بتاتے ہیں۔
فپل بانسری (جسے زمین سے متوازی پکڑا جاتا ہے) کے لیے، مطلوبہ لمبائی کے مطابق – وہ ۱۵ سے زیادہ سائز کی بانسری بناتے ہیں – کچے بانس کی چھڑی کو کاٹنے کے بعد، وہ بانس کو کھوکھلا کرنے کے لیے تیزی سے دھات کی ایک چھڑ کا استعمال کرتے ہیں۔ تھوڑی سی بھی غلطی ہوئی، تو بانسری کی کوالٹی خراب ہو سکتی ہے، جس سے درمیانی درجہ کی دھُن پیدا ہوتی ہے۔
بانسری بنانے سے پہلے، دنکر صنوبر کی ایک کلوگرام وزن کی لکڑی کو مستطیل نما چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتے ہیں، جسے مراٹھی میں کھُٹّیہ (کارک یا فپل پلگ) کہا جاتا ہے۔ بانس کی صفائی کرنے کے بعد، صنوبر کے کارک کو ہتھوڑی کا استعمال کرتے ہوئے پھونکنے والی سوراخ میں ڈالا جاتا ہے، تاکہ اس کے اندر پھونکی گئی ہوا باہر نہ نکلے۔
دنکر کی بیوی، تارا بائی بھی بانسری بنایا کرتی تھیں۔ وہ کھُٹّیہ بنانے میں خاص طور سے ماہر تھیں۔ ’’یادگار کے طور پر، میں نے اس کے ذریعہ بنائی گئی اس کھُٹّیہ کو محفوظ رکھا ہے،‘‘ وہ آنکھوں میں آنسو لیے کہتے ہیں۔
بانسری میں دُھن نکالنے والی سوراخ بنانے کے لیے صنوبر کی چھڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جس میں پیمائش کے نشان ہوتے ہیں۔ دنکر کے پاس اس کام کو صحیح طریقے سے کرنے کے لیے ایسی ۱۵ چھڑیاں ہیں۔ وہ اور سریندر تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، کولہاپور شہر کی ورکشاپوں میں جاتے ہیں، جہاں ہارمونیم بنانے کے ماہرین ان پیمائش کو نشان زد کرتے ہیں۔
اس کے بعد نشان زد سوراخیں روایتی اوزاروں کا استعمال کرکے ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں۔ ’’ڈرِل (سوراخ کرنے والی) مشین پوری بانسری کو توڑ دیتی ہے، اس لیے ہم کسی مشین کا استعمال نہیں کرتے ہیں،‘‘ دنکر کہتے ہیں، جو منہ سے پھونکنے والی سوراخ یا بانسری کے جنوبی سرے کے پاس احتیاط سے ایک مسوڈ (منہ) بنا رہے ہیں۔ ’’ مسوڈ بانسری کی ناک کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ ہوا کو گھمانے میں مدد کرتا ہے۔‘‘
پھر وہ بانس میں مناسب سوراخ بنانے کے لیے لوہے کی کم از چھ چھڑیں (مراٹھی میں گز ) گرم کرتے ہیں۔ ’’عام طور پر، ہم ایک بار میں کم از کم ۵۰ بانسری لیتے ہیں اور اس عمل کو تین گھنٹے میں پورا کر لیتے ہیں،‘‘ دنکر کہتے ہیں۔ صبح سویرے، وہ چھڑ اور پانی (غسل کرنے کے لیے) کو ایک ہی چُلی (مٹی کے چولہے) میں گرم کرتے ہیں۔ ’’اس طرح ہم دونوں کاموں کو پورا کر سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
دھُن والی سوراخ بنانے کے بعد، وہ ریگ مال کا استعمال کرکے بانسری کو چمکاتے ہیں۔ اب کارک کے اضافی حصہ کو ترچھا کرنے کے لیے اسے کاٹا جاتا ہے۔ یہ بانسری اور منہ کے شمالی سرے کے درمیان پھونکی گئی ہوا کے لیے ایک چھوٹا سا راستہ بنانے میں مدد کرتا ہے۔
’’بانس کا ہر ٹکڑا کم از کم ۵۰ بار ہمارے ہاتھوں سے گزرتا ہے،‘‘ دنکر کڑی محنت والے عمل کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ’’بانسری آسان نظر آتی ہے، لیکن اسے بنانا آسان نہیں ہے۔‘‘
سریندر کی بیوی، ۴۰ سالہ سریتا بھی نشان زد سوراخوں کو کھودنے، چھڑ کو گرم کرنے، صنوبر کی لکڑی کو کاٹنے اور کھٹّیہ بنانے کا کام کرتی ہیں۔ ’’ہمارے لیے یہ ہنر ایشور کی دین ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہمیں اسے سیکھنا نہیں پڑتا۔‘‘
لاک ڈاؤن سے پہلے، جتراؤں میں دنکر اور سریندر عام طور پر بڑی بانسری (موسیقاروں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی) ۷۰ سے ۸۰ روپے میں، اور بچوں کے لیے چھوٹی بانسری ۲۰-۲۵ روپے میں فروخت کرتے تھے۔ الگ الگ سائز کی ایک درجن بانسری سے انہیں ایک سال پہلے تک ۳۰۰ سے ۳۵۰ روپے ملتے تھے۔
آئیولے ٹرانس ورس بانسری یا سرے سے پھونکی جانے والی بانسری بھی بناتے ہیں، جسے فرش کے متوازی بجایا جاتا ہے۔ ’’ہم اسے کرشن کی بانسری کہتے ہیں۔ لوگ اسے اپنے گھر کے باہر لٹکاتے ہیں کیوں کہ اسے مبارک سمجھا جاتا ہے،‘‘ دنکر کہتے ہیں۔ ’’ہر ایک کرشن بانسری کم از کم ۱۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے، اور شہروں میں اس کی بہت مانگ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اور وہ جو قیمت پاتے ہیں وہ مشکل سے ان کی کڑی محنت کی بھرپائی کرتی ہے، ’’اس سے پھر بھی اچھا خاصا پیسہ مل جاتا ہے،‘‘ دنکر لاک ڈاؤن سے پہلے کے وقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
پانچ دہائی سے شاندار بانسری بنانے کے بعد، اس کے نازک اور باریک کام نے دنکر کی آنکھوں کو متاثر کیا ہے۔ کچھ سال پہلے، انہیں موتیابین ہو گیاتھا۔ ’’اب میں اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں،‘‘ وہ ۲۰۱۱ اور ۲۰۱۴ میں ہونے والی دو سرجری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’لیکن اس کام سے پیٹھ میں بھی بہت درد ہوتا ہے۔‘‘
اگر کوئی ان سے یہ پوچھے کہ ’آپ نے اپنی پوری زندگی میں کیا کیا ہے؟‘، تو دنکر کہتے ہیں، ’’میں فخر سے انہیں بتا سکتا ہوں کہ صرف اس بانسری بنانے کی وجہ سے، میرے سبھی بچے اور پوتے پوتی تعلیم حاصل کر سکے اور زندگی میں ترقی کر سکے؛ میں انہیں صحیح راستے پر ڈال سکا۔ اس ہنر نے ہمیں سب کچھ دیا۔‘‘
سال ۲۰۰۰ سے، دنکر دوسروں کو بھی بانسری بجانا سکھا رہے ہیں، اور کوڈولی گاؤں میں ’ماسٹر‘ (استاد) کے طور پر مشہور ہیں۔ ان کے شاگردوں – ان کا اندازہ ہے کہ اب تک کم از کم ۵۰ ہو چکے ہیں – میں پاس کے شہروں اور گاؤوں کے ڈاکٹر، ٹیچر، کسان اور تاجر شامل ہیں۔ وہ سکھانے کے لیے کوئی فیس نہیں لیتے۔ ’’اگر لوگ میرا نام یاد رکھتے ہیں، تو اتنا ہی کافی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
حالانکہ لاک ڈاؤن اور اس کے بعد کی حالت نے ان کے کاروبار پر کافی اثر ڈالا ہے، لیکن دنکر کو یقین ہے کہ بانسری کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نوجوان نسل کی خواہشیں الگ ہیں، اور کچھ ہی لوگ بانسری بنانے کا ہنر سیکھنا چاہتے ہیں۔ ’’آپ [اس سے] مناسب پیسہ کما سکتے ہیں، لیکن اب کون اتنی محنت کرنا چاہتا ہے؟‘‘ جب لگن ہو تبھی کوئی وقت نکالتا ہے۔ یہ آپ کی قوت ارادی پر منحصر ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
دنکر میں، ۷۴ سال کی عمر میں بھی وہ قوت ارادی پختہ ہے اور وہ آج بھی بانسری بنا رہے ہیں، حالانکہ اب بانسری بجاتے ہوئے کبھی کبھی ان کی سانس پھولنے لگتی ہے۔ ’’میں جب تک زندہ ہوں، یہ [بانسری بنانا اور بجانا] بھی زندہ رہے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز