انہوں نے میری طرف دیکھا اور پوچھا، ’’تو، آپ کولکاتا سے ہیں؟‘‘ میرا جواب سن کر جیسے ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ انہوں نے بتانا شروع کیا، ’’میں بھی کولکاتا اور ہوڑہ جا چکا ہوں۔ کئی بار۔ ہمیشہ کام کی تلاش میں۔ کچھ بار میری قسمت ٹھیک رہی، کبھی کبھی بدقسمتی نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آخرکار، میں کسی طرح یہاں آ گیا۔‘‘
لداخ میں یہ جگہ سمندر کی سطح سے تقریباً ۱۰ ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع ہے۔ اور جب دور افتادہ ہمالیہ کے اس ٹھنڈے ریگستانی علاقے میں ٹینٹ لگا کر رہنے کے دوران، دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ باہر کے درجہ حرارت میں تیزی سے گراوٹ آنے لگتی ہے، تو جھارکھنڈ واقع اپنے گھر سے تقریباً ۲۵۰۰ کلومیٹر دور رہ رہے راجو مرمو کو جیسے کافی چہل پہل والے جانے پہچانے شہر کی یادوں سے ہی تھوڑی گرماہٹ محسوس ہوتی ہے۔ پھر بجلی کی سہولت کے بغیر رہنے کے سبب راجو اور ان کے ساتھی مہاجر مزدوروں کے ٹینٹ میں اندھیرا دھیرے دھیرے چاروں طرف اپنے پیر جما لیتا ہے۔
۳۱ سالہ راجو جھارکھنڈ کے دُمکا ضلع میں واقع بابوپور گاؤں سے متعینہ وقفہ پر لداخ آتے رہتے ہیں۔ دوسرے بہت سے مزدور بھی یہی کرتے ہیں۔ وہ یہاں آتے ہیں اور ملک کی سب سے اونچی جگہوں میں سے ایک جگہ پر، سڑک بنانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ ہمارا چوتھا سال ہے۔ ہم پچھلے سال بھی آئے تھے۔ آخر اور کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے گاؤں میں تو کوئی کام ملنا نہیں ہے۔‘‘ راجو اور ان کی ریاست کے تقریباً نو لوگ سڑک کی تعمیر کے مقام سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر چھوٹے موٹے خیموں میں رہتے ہیں۔ وہ کھاردونگ گاؤں کے پاس واقع کھاردُنگ لا درّہ (سمندر کی سطح سے ۱۷۵۸۲ فٹ کی اونچائی پر واقع) اور نُبرا وادی (سمندر کی سطح سے اونچائی ۱۰ ہزار فٹ) کے درمیان سڑک بنانے کا کام کر رہے ہیں۔
سرحد پار سے تجارتی لین دین، مذہبی اور ثقافتی آمد و رفت کے لحاظ سے تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل لداخ کے دور دراز اور مین لینڈ سے کٹے ہوئے علاقے بڑی تیزی سے جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، بہار، مدھیہ پردیش، اور ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے مہاجر مزدوروں کے کام کاج کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ لداخ کی موجودہ نئی انتظامی حالت کے بعد علاقے میں پرائیویٹ بلڈروں کے دخل اور دبدبہ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقہ نے بارڈر روڈ آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر تجارتی اور دفاعی اہمیت رکھنے والے علاقوں میں بنیادی ڈھانچوں میں تبدیلی لانے والے پروجیکٹ میں تیزی بھی لائی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ لداخ میں مہاجر مزدوروں کی آمد میں اضافہ ہونے والا ہے۔
وہ گاہے بگاہے سڑک کے کنارے بنے ۱۱ بائی ساڑھے آٹھ مربع فٹ کے ٹینٹ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ فوری طور پر کام چلانے کے لیے لگائے گئے یہ کیمپ سڑک کی تعمیر کے کام کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ بیگ اور تمام طرح کے ساز و سامان سے بھرا بھیڑ بھاڑ والا ہر ٹینٹ تقریباً ۱۰ لوگوں کا بسیرا ہوتا ہے، جہاں لوگ ٹھنڈی زمین پر معمولی سی قالین بچھا کر سوتے ہیں۔ وہ کڑکڑاتی ٹھنڈ میں بغیر بجلی کی سہولت کے رہتے ہیں اور عام طور پر صفر سے بھی کم درجہ حرارت پر ذاتی حفاظتی آلات کے معقول انتظام کے بغیر کام کرتے ہیں۔ بے رحم موسم، بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کے پروجیکٹ میں امید سے زیادہ خرچ اور معیاری میکینکل آلات کی کمی کے سبب، سڑک توڑنے اور بنانے کے دوران ان مزدوروں کو بھاری وزن خود ہی اٹھانا اور ڈھونا پڑتا ہے۔ یہ ساری باتیں سمندر کی سطح سے کافی اونچائی پر واقع اس علاقے میں سامنے آتی ہیں، جہاں آکسیجن کا لیول بھی نسبتاً کم رہتا ہے اور اس کمر توڑ محنت کے عوض ملنے والا پیسہ فیملی کا خرچ چلانے کے لیے بالکل ناکافی ہوتا ہے۔
دُمکا سے آئے اور ۴۰ سال سے چار پانچ سال سے زیادہ عمر کے امین مُرمو کہتے ہیں، ’’گھر واپس لوٹنے سے پہلے ۵ سے ۶ مہینے کے وقفہ میں بمشکل ۲۲۔۲۵ ہزار روپے کی بچت ہو پاتی ہے۔‘‘ ان کے جیسے مزدور ایک دن میں ۴۵۰۔۷۰۰ روپے کے درمیان کمائی کر پاتے ہیں۔ یہ بھی اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ انہیں کس طرح کا کام دیا گیا ہے۔ کھاردُنگ لا کے پاس نارتھ پُلّو میں اپنے کیمپ میں ہم سے بات چیت کے دوران، ۱۴ اور ۱۰ سال کی عمر کے دو بچوں کے باپ، امین کو اس بات کا افسوس ہے کہ وبائی مرض کی وجہ سے ان کی پڑھائی ٹھپ پڑ گئی ہے۔ جب اسکول کی پڑھائی آن لائن ہو رہی تھی، تب ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے اسمارٹ فون کے لیے پیسے نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے علاقے میں زیادہ تر فیملی کے پاس اسے خریدنے کی حیثیت نہیں ہے۔ میرے بڑے بیٹے نے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔ اگر میں تھوڑی اور بچت کر لیتا ہوں، تو چھوٹے بیٹے کے لیے ایک اسمارٹ فون خریدوں گا۔ لیکن، پھر ہر مہینے انٹرنیٹ کا خرچ کیسے اٹھا پاؤں گا؟‘‘ آخری لائن کے سوال میں ان کی اداسی اور لاچاری صاف جھلکتی ہے۔
امین کے ٹھیک بعد والے ٹینٹ میں اندر جاتا ہوں، تو وہاں مزدوروں کا ایک گروپ تاش کھیلتے ہوئے ملتا ہے۔ جھارکھنڈ کے ہی رہنے والے ۳۲ سالہ حامد انصاری مجھ سے درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’سر، آئیے آپ بھی کھیلئے۔ آج تو اتوار ہے- یعنی چھٹی کا دن۔‘‘ یہ بے حد پیارے، ملنسار، اور باتونی لوگوں کا گروپ ہے۔ ان لوگوں میں سے ایک آدمی تھوڑی اونچی آواز میں کہتا ہے، ’’کولکاتا کا ہونے کے سبب آپ کو تو پتہ ہی ہوگا کہ کووڈ وبائی مرض کا جھارکھنڈ پر کتنا برا اثر پڑا ہے۔ بڑی تعداد میں موتیں ہوئیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کی نوکری چلی گئی۔ پچھلے سال تو جیسے تیسے کرکے بمشکل گزارہ ہوا۔ اس لیے اس سال (۲۰۲۱) بغیر وقت برباد کیے ہم یہاں آ گئے۔‘‘
پہلے مرحلہ میں لاک ڈاؤن ہٹائے جانے کے بعد، جون ۲۰۲۰ میں یہاں آئے جھارکھنڈ کے لوگوں کے اس گروپ کے ۵۰ سے زیادہ عمر کے ہو چکے رکن غنی میاں کہتے ہیں، ’’نوے کی دہائی کی شروعات سے ہی میں یہاں بطور کنسٹرکشن ورکر آتا رہا ہوں۔ لیکن پچھلا سال سب سے خطرناک تھا۔ آنے کے بعد ہمیں کوارنٹائن سنٹر بھیج دیا گیا۔ وہاں ۱۵ دنوں کا وقت گزارنے کے بعد ہی ہم کام پر واپس جا پائے۔ لیکن وہ دو ہفتے ذہنی طور پر دہلا دینے والے تھے۔‘‘
لیہہ قصبہ کی طرف لوٹتے وقت جھارکھنڈ کے نوجوانوں کا ایک گروپ ملا۔ ان لوگوں نے بتایا، ’’ہم یہاں کھانا بنانے کے لیے آئے ہیں، مزدوروں کی تھوڑی مدد کرنے کے لیے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ہماری دہاڑی مزدوری اصل میں ہے کتنی۔ مگر وہاں گاؤں میں بیکار پڑے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ یہاں رہ کر کچھ کام ہی کیا جائے۔‘‘ اپنے ذہن میں گھر پر وبائی مرض کے دنوں میں پیدا ہوئی اصل چنوتیوں کا سامنا کر رہی فیملی کی جدوجہد کی کہانی لیے، ان میں سے ہر شخص کے لیے راحت کی بات صرف اتنی ہے – ان میں سے سبھی کو کووڈ۔۱۹ ویکیسن کی پہلی ڈوز لگ گئی ہے (دیکھیں: لداخ میں گیارہ ہزار فٹ کی اونچائی پر ٹیکہ کاری )۔
مترجم: محمد قمر تبریز