’’آئیے، اور آکر خود ہی دیکھ لیجئے۔ ہم سبھی لوگ احکامات کی تعمیل کر رہے ہیں۔ ماسک پہن کر، ایک دوسرے سے الگ ہٹ کر یہاں بیٹھے ہیں۔ میں اس راشن کے لیے شکر گزار ہوں، لیکن میرے خاندان کا گزارہ اس راشن پر صرف چند دنوں کے لیے ہو سکے گا۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیا کریں گے۔‘‘
یہ ہیں ۵۵ سالہ درگا دیوی، جو راجستھان کے چورو ضلع کے سوجان گڑھ قصبے سے، فون پر ہم سے بات کر رہی ہیں۔ اس دوران وہ دِشا شیخاوٹی سے مفت راشن حاصل کرنے کے لیے قطار میں بیٹھی انتظار کر رہی ہیں۔ دشا شیخاوٹی ایک این جی او ہے جہاں وہ بطور شیبوری کاریگر کام کرتی ہیں۔ شیبوری کپڑے کی ٹائی اینڈ ڈائی (گرہ لگانے اور رنگ بھرنے) کی تکنیک ہے، جو مکمل طور پر ہاتھ سے کی جاتی ہے۔ اپنی خوفناک پیشن گوئی پر خود ہی ہنستی ہوئی وہ کہتی ہیں، ’’پتہ نہیں ہمیں کورونا جکڑے گا یا نہیں، لیکن ہم اس سے پہلے ہی بھوکے مرجائیں گے۔‘‘
چند سال قبل شراب نوشی کی وجہ سے ہوئی شوہر کی موت کے بعد درگا دیوی اپنے کنبے کی واحد رکن ہیں جو کام پر جاتی ہیں۔ وہ اپنے نو بچوں کی پرورش خود کر رہی ہیں۔ انہیں روزانہ تقریباً ۲۰۰ روپے مزدوری ملتی ہے، اور خود انہیں کے مطابق مہینے میں تقریباً ۱۵ دن کام ملتا ہے۔
درگا دیوی اپنا فون ۳۵سالہ پرمیشوری کی طرف بڑھا دیتی ہیں۔ پرمیشوری بھی یومیہ اجرت پر کام کرنے والی کاریگر ہیں، اور راشن کی قطار میں درگا دیوی کے پیچھے بیٹھی ہوئی ہیں۔ پرمیشوری (وہ صرف اپنا پہلا نام استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہیں) کہتی ہیں کہ ان کے شوہر تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعمیراتی کام بند ہونے کے باعث اب بیکار بیٹھے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس نہ کوئی کام ہے اور نہ گزارے کے لیے پیسے ہیں۔‘‘ درگا دیوی کی طرح، انہیں بھی امید ہے کہ پانچ کلو آٹا، ایک کلو دال اور دھنیا، ہلدی اور مرچ میں سے ہر ایک کے ۲۰۰ گرام کے پیکٹ اگلے چند دنوں کے لیے ان کا، ان کے شوہر اور ان کے چار بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہوں گے۔
۶۵ سالہ چاندی دیوی اب شیبوری کا کام نہیں کرتی ہیں، لیکن وہ بھی دوسروں کی طرح راشن حاصل کرنے کے لیے قطار میں بیٹھی ہیں۔ ’’آخری کھانا میں نے ۲۴ گھنٹے پہلے کھایا تھا۔ میں نے چاول کھائے تھے، صرف چاول۔ کل ایک وین میرے علاقے میں کچھ سامان لے کر آئی تھی، لیکن میں آہستہ چلتی ہوں اور جب تک میں موقع پر پہنچتی سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
دِشا شیخاوٹی کی فہرست میں درگا اور پرمیشوری کی طرح ۴۰۰ شیبوری ٹائی اینڈ ڈائی کاریگروں کے نام شامل ہیں۔ این جی او کی بانی امرتا چودھری کہتی ہیں، ’’حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ نوے فیصد کاریگر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ مشکل وقت کے لیے ان کے پاس کوئی بچت نہیں ہے۔ ہم سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔‘‘
چودھری کہتی ہیں کہ تقریباً ۱۰ دن پہلے ہاتھ سے بنی مصنوعات کے بڑے خریداروں کی طرف سے ان کے پاس کالیں آنی شروع ہوئیں، جو کہہ رہے تھے کہ وہ موجودہ آرڈر نہیں اٹھا سکیں گے۔ انہوں نے ان سے مصنوعات کی پیداوار بند کرنے کو بھی کہا۔ ’’میں ۲۵ لاکھ روپے کی ساڑیاں اور اسٹول لیے کر بیٹھی ہوں۔ ان کی پیکنگ، لیبلنگ اور بارکوڈنگ سب ہو چکی ہے۔ یہ کب یہاں سے اٹھائے جائیں گے؟ میرے کاریگروں کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے کب آئیں گے؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘
زراعت کے بعد ہینڈ لوم اور دستکاری کی صنعتیں شاید ملک میں سب سے زیادہ روزگار مہیا کراتی ہیں۔ صرف ہینڈ لوم سے ۳۵ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی وابستہ ہیں، جو کپڑے کی سینکڑوں اقسام بُن کر تیار کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ کونسل آف ہینڈی کرافٹس ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے مطابق کم از کم ۷۰ لاکھ افراد دستکاری کی ہزاروں روایتی صنعتوں سے منسلک ہیں۔ اور ۲۰۱۵ میں صرف اس شعبے سے برآمدات کی مالیت ۸۳۱۸ کروڑ روپے تھی۔
لیکن کرافٹس کونسل آف انڈیا ، چنئی، کی چیئرپرسن گیتا رام ان اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہیں۔ کاریگروں کا کوئی ڈیٹا بیس نہیں ہے۔ لہٰذا، جی ڈی پی میں ان کی اصل حصہ داری کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔ تاہم، ہم جانتے ہیں کہ پیداوار میں زیادہ تر حصہ داری غیر منظم شعبے کے آزاد پیشہ کاریگروں کی ہے اور انہیں مدد کی سخت ضرورت ہے۔‘‘
آندھرا پردیش کے پرکاشم ضلع کے چرالا قصبے میں بنائی کا کام کرنے والی اور عمر کی ۵۰ منزلیں عبور کر چکیں جی سلوچنا اور ان کے شوہر جی سری نواس راؤ کو اس سے نااتفاقی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
سری نواس راؤ کہتے ہیں، ’’ہمیں خام مال نہیں مل رہا ہے، اس لیے ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ اس لاک ڈاؤن نے ہمیں بے شمار مالی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ جلد ہی ہمیں کھانے کے لیے پیسے ادھار لینے ہوں گے۔‘‘ سلوچنا فون پر بتاتی ہیں، ’’ہمیں اتنی اجرت نہیں ملتی کہ ہم اس سے کچھ بچت کر سکیں۔‘‘
چرالا شہر میں بہت سے بنکر گھرانے ہیں جو کپاس اور ریشم کے مرکب سے مخصوص ڈیزائنوں کی ساڑیاں بنتے ہیں۔ یہ ساڑیاں اس شہر کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں۔ سلوچنا اور سری نواس راؤ ہر مہینے ۱۰ سے ۱۵ ساڑیاں تیار کرلیتے ہیں۔ وہ جس اُستاد بنکر کے لیے کام کرتے ہیں وہ انھیں خام مال فراہم کرتا ہے اور ہر پانچ ساڑی پر انھیں تقریباً ۶۰۰۰ روپے ادا کرتا ہے۔ اس طرح وہ دوںوں مل کر ہر مہینے تقریباً ۱۵۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔
۳۵ سالہ بی سنیتا اور ان کے شوہر، ۳۷ سالہ باندلا پردیپ کمار چرالا کی ایسی دوسری بنکر جوڑی ہے جسے اپنی اور اپنے دو بچوں کی دیکھ بھال میں مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ دونوں مل کر ہر مہینے ۱۵ ساڑیاں بُنتے ہیں اور تقریباً ۱۲۰۰۰ روپے ماہانہ کما لیتے ہیں۔ سنیتا کہتی ہیں، ’’زری [سونے کے دھاگے] کی سپلائی ۱۰ مارچ کو ہی بند ہو گئی تھی اور اس کے فوراً بعد ریشم کے دھاگے کی سپلائی بھی بند ہو گئی۔ خام مال کے بغیر، ہم کام نہیں کر سکتے۔‘‘
لاک ڈاؤن کے بعد سے ان کے لیے راشن کی دکان تک جانا مشکل ہو گیا ہے۔ ان کے پاس جو چاول تھا، وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ بازار میں اب اس کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’یہ واحد کام ہے جسے ہم جانتے ہیں اور جس سے ہم اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں۔‘
چرالا کے دونوں بنکر خاندان بطور او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) درج ہیں۔ درحقیقت، چوتھی کل ہند ہینڈ لوم مردم شماری (۲۰۱۹-۲۰۲۰) کے مطابق، تمام بنکر خاندانوں میں سے ۶۷ فیصد یا تو درج فہرست ذات (۱۴ فیصد)، درج فہرست قبائل (۱۹ فیصد) یا دیگر پسماندہ طبقات (۶ء۳۳ فیصد) کے طور پر درج ہیں۔
سنیتا اور سری نواس کی انفرادی آمدنی ہندوستان کی فی کس ماہانہ آمدنی، ۱۱۲۵۴ روپے سے کافی کم ہے۔ اگرچہ ان کی مشترکہ آمدنی کی وجہ سے ان کا شمار بنکر گھرانوں کے سب سے اوپر والے سات فیصد گھرانوں میں ہوگا، لیکن چوتھی کل ہند ہینڈ لوم مردم شماری کے مطابق ۶۶ فیصد سے زیادہ بنکر گھرانوں کی ماہانہ آمدنی ۵۰۰۰ روپے سے کم ہے۔
۱۹۹۰ کی دہائی میں ہندوستان کی ’زوال پذیر‘ صنعت کہہ کر نظرانداز کر دیے جانے والے ہینڈ لوم اور دستکاری شعبے کو ۲۰۱۸ میں اس وقت گہرا صدمہ پہنچا، جب ان کی مصنوعات پر ۵ سے ۱۸ فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا۔ بعد میں ہینڈ لوم سے تیار کپڑے پر جی ایس ٹی کی شرح کو کم کر کے ۵ فیصد کر دیا گیا۔ تاہم، کپڑے کی صنعت میں کلیدی اہمیت رکھنے والے رنگوں اور کیمیکلز پر جی ایس ٹی کی شرح بدستور ۱۸-۱۲ فیصد جاری رہی۔ وہیں دستکاری پر جی ایس ٹی کی شرح ۸ سے ۱۸ فیصد کے درمیان بنی ہوئی ہے۔
چرالا میں واقع نیشنل فیڈریشن آف ہینڈ لومس اینڈ ہینڈی کرافٹس کے بانی صدر، مچرلا موہن راؤ (۵۹) کہتے ہیں، ’’کورونا اور لاک ڈاؤن سے پہلے بھی بُنکروں کو ان کے کام کی صحیح مزدوری نہیں مل رہی تھی، جس کی وجہ سے ان کے لیے اپنے خاندان کی ذمہ داری اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ [لاک ڈاؤن] ان کو ختم کردے گا۔‘‘ ان کا یہ فیڈریشن ایک ٹریڈ یونین ہے، جس کے ۲۰ ہزار ارکان ہیں۔
موہن راؤ کہتے ہیں، ’’میں حکومت [کپڑے کی وزارت] سے پوچھتا رہا ہوں کہ وہ غریب بنکروں کو کیوں نظر انداز کر رہی ہے؟ ملبوسات بنانے والے شعبوں کی طرح ایمپلائی اسٹیٹ انشورنس اور ایمپلائی پراویڈنٹ فنڈ اور زچگی کے فوائد ہینڈ لوم اور دستکاری کے شعبے میں کام کرنے والوں کو کیوں نہیں دیے جاتے؟ پریشان حال بنکروں کو رہائش کی سہولت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟‘‘ ان سوالات کو پارلیمنٹ کے فلور پر اٹھانے کے لیے ۲۰۱۴ سے لے کر اب تک وہ کئی اراکین پارلیمنٹ کو ای میل بھیج چکے ہیں۔
تمل ناڈو کے کانچی پورم ٹاؤن (اور ضلع) میں، استاد بنکر اور قومی انعام یافتہ، ۶۰ سالہ بی کرشنا مورتی اور ۵۰ سالہ بی جینتی کے پاس ۱۰ کرگھے ہیں۔ ان پر یہ دونوں میاں بیوی، کانچی پورم کی مشہور ریشم کی ساڑیاں تیار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک کرگھے پر کام کرتے ہیں، اور باقی کرگھے اُن بنکروں کے گھروں میں نصب کیے گئے ہیں جو ان کے لیے بطور ملازم کام کرتے ہیں۔
کرشنا مورتی کہتے ہیں، ’’[جب سے لاک ڈاؤن لگا ہے] میرے بنکر مجھے اکثر فون کرکے کھانے کے لیے ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے قرض مانگتے رہتے ہیں۔‘‘ وہ پہلے ہی انہیں پیشگی رقم دے چکے ہیں، لیکن فکرمند ہیں کہ ان کے انتہائی ہنر مند بُنکر شاید ہمت ہار جائیں اور کوئی دوسرا کام تلاش کرنا شروع کر دیں یا اس شہر کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جائیں۔ کرشنا مورتی کے خدشات حقیقی ہیں: صرف ۱۹۹۵ اور ۲۰۱۰ کے درمیان بنکر گھرانوں کی تعداد میں ۵ء۲ لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
دستکاری اور ہینڈ لوم کی نمائشیں ہندوستانی میٹروز اور یہاں تک کہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں باقاعدگی سے لگائی جاتی رہی ہیں۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ ان کی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ فروخت انہی نمائشوں میں ہوتی ہے۔ لیکن اس مارچ اور اپریل کے دوران، جب سیزن اپنے عروج پر ہوتا ہے، بہت سی نمائشیں منسوخ کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے پاس انوینٹری کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔
’’دہلی اور کولکاتا کی تین نمائشیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ میرے پاس اسٹاک موجود ہے لیکن کوئی خریدار نہیں ہے۔ ہم کیسے اپنا پیٹ بھریں گے؟‘‘ گجرات کے کچھ ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے بھجوڈی سے تعلق رکھنے والے ۴۵ سالہ وانکر شامجی وشرام پوچھتے ہیں۔ ’’مجھے غیر ملکی خریداروں کی طرف سے بُنائی بند کرنے کے لیے کالیں موصول ہو رہی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کچھ عرصے کے لیے ہماری مصنوعات نہیں اٹھائیں گے۔‘‘
اتر پردیش کے وارانسی میں لکڑی کے کھلونے بنانے والے ۳۵ سالہ اجیت کمار وشو کرما کہتے ہیں، ’’اس وقت [۳ بجے شام] جب آپ نے مجھے فون کیا ہے، میں اپنے بھائیوں اور والد کے ساتھ اپنی ورکشاپ میں محنت کر رہا ہوتا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ کھانا کہاں سے لاؤں اور آٹا، دال اور آلو کے بلیک مارکیٹ ریٹ ادا کرنے سے کیسے بچوں۔‘‘
اجیت اور ان کے خاندان کے افراد لکڑی کے کھلونے، پرندوں اور جانوروں کے چھوٹے چھوٹے نمونے اور ہندو دیوی دیوتاؤں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارا پورا خاندان اس کام سے حاصل ہونے والی آمدنی پر گزارہ کرتا ہے۔ میرے بہت سارے پیسے دوسروں پر واجب الادا ہیں، لیکن کوئی دینے کو تیار نہیں ہے۔ میرے پاس ۵ سے ۶ لاکھ روپے مالیت کی مصنوعات نمائش کے لیے تیار ہیں۔ یہ نمائشیں اب منسوخ ہو چکی ہیں۔ میں نے کھلونوں کو پینٹ کرنے والے اپنے کمہاروں کو پیشگی رقم ادا کر دی ہے۔ وہ بھی تکلیف میں ہیں۔‘‘
اجیت کو پرندوں اور ہندو دیوی دیوتاؤں کے اپنے ایک انچ چھوٹے مجسموں پر سب سے زیادہ ناز ہے۔ ان کے گھر کے تمام افراد، بشمول والد، دو بھائی، ماں، بہن اور بیوی، لکڑی کے کھلونوں اور زیورات کو تراشنے اور سنوارنے میں حصہ لیتے ہیں۔ خواتین گھر کے کاموں کے درمیان گھر پر ہی کام کرتی ہیں اور مرد تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور ورکشاپ میں۔ آم، پیپل، کدم اور دیگر نرم لکڑیوں کو کھلونے بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، جنہیں بعد میں پینٹنگ کے لیے کمہار برادری کو بھیجا جاتا ہے۔
بھوپال، مدھیہ پردیش، سے تعلق رکھنے والے چوتھی نسل کے گونڈ کاریگر، ۳۵ سالہ سریش کمار دھروے کہتے ہیں، ’’میں گھر پر خالی ہاتھ بیٹھا ہوں۔ اب راشن اور پانی ملنا دشوار ہے۔ جب پینٹ، برش، کاغذات اور کینوس کی سپلائی ہی نہیں ہے، تو میں کوئی کام کیسے کروں؟ میں نیا کام کب کروں گا اور کب اسے بیچوں گا اور پیسے کب ملیں گے؟ مجھے نہیں معلوم۔ میں اپنے گھر والوں کا پیٹ کیسے بھروں گا؟ مجھے نہیں معلوم۔‘‘
دھروے کا کہنا ہے کہ ان کے تقریباً ۵۰ ہزار روپے دوسروں پر بقایا ہیں، جنہوں نے انہیں کام کا آرڈر دیا تھا، لیکن پتہ نہیں انہیں یہ پیسے کب ملیں گے۔ ’’میرے دماغ پر کووڈ سوار ہے۔ میں کسی اور چیز کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا۔‘‘
اس اسٹوری کے لیے زیادہ تر انٹرویوز فون پر لیے گئے تھے۔
مترجم: شفیق عالم