آدیواسی لوگوں کی اپنی کمیاں ہیں، لیکن یہ دیکھنا اہم ہے کہ وہ کسی کمیونٹی کی ثقافت کو کیسے اپناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جدید تعلیم نے ایک نئی روایت شروع کی ہے، اور ہمارے بہت سے تنازعات اسی نو تعلیم یافتہ طبقے کی دین ہیں۔ آج میرے گاؤں کا ٹیچر گاؤں میں گھر نہیں بناتا۔ وہ راج پیپلا میں زمین خریدتا ہے۔ نوجوان نسل خیالی ترقی کے نظریات کی جانب مائل ہوتی جا رہی ہے۔ اپنی جڑوں سے دور کسی بیرونی جگہ پر منتقل ہونے کے بعد، وہ روایتی طریقے سے زندگی بسر نہیں کرتے۔ وہ لال چاول کو ہضم کرنے کی طاقت کھو چکے ہیں۔ وہ شہر کی نوکری سے ملنے والی عزت و شہرت کا لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ غلامی کا یہ احساس کبھی ہماری ثقافت کا حصہ نہیں رہا۔ اب تعلیم یافتہ اور نوکری یافتہ ہونے کے باوجود، انہیں شہروں میں رہنے کے لیے اپنی جگہ نہیں مل پاتی۔ لوگ انہیں وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ لہٰذا، ان تنازعات سے بچنے کے لیے وہ اپنی شناخت کو چھپانے لگتے ہیں۔ آج آدیواسی شناخت، پوری طرح تنازعات سے گھری ہوئی ہے۔

جتیندر وساوا کی آواز میں، دیہولی بھیلی میں یہ نظم سنیں

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں انگریزی میں یہ نظم سنیں

غیر مہذب مہوا

جب سے میرے ملک کے
چند نام نہاد شرفاء نے
مہوا کو غیر مہذب قرار دیا ہے
میری قوم کے لوگ خود کو بھی
غیر مہذب ہی تصور کرنے لگے ہیں

تب سے میری ماں مہوا کے پھولوں کو
چھونے سے کتراتی ہیں
میرے والد اس نام سے ہی نفرت کر بیٹھے ہیں
اور میرا بھائی ہمارے گھر کے آنگن میں
مہوا کی جگہ تلسی کا ایک چھوٹا سا پودا لگا کر
اپنے آپ کو مہذب محسوس کرتا ہے۔
جب سے میرے ملک کے
چند نام نہاد شرفاء نے
مہوا کو غیر مہذب قرار دیا ہے
میری قوم کے لوگ خود کو بھی
غیر مہذب ہی تصور کرنے لگے ہیں

میری قوم کے لوگ، جو
روحانی اقدار کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے
اب دریاؤں کو مقدس تسلیم کرنے سے
پہاڑوں کو پوجنے، اسلاف کے نقش قدم پر چلنے سے
زمین کو ماں کے نام سے پکانے سے
آب آب و شرمسار ہو جاتے ہیں
اپنی اصل شناخت کو پس پردہ رکھ
اپنے غیر مہذب نفس کو آزاد کرنے کی فراق میں
میری قوم کے کچھ لوگ عیسائیت قبول کر رہے ہیں
تو کچھ ہندو بھی بن رہے ہیں
کچھ جین، تو کچھ مسلمان بھی۔
جب سے میرے ملک کے
چند نام نہاد شرفاء نے
مہوا کو غیر مہذب قرار دیا ہے
میری قوم کے لوگ خود کو بھی
غیر مہذب ہی تصور کرنے لگے ہیں

میری قوم کے لوگ، جو بازاروں سے نفرت کرتے تھے
اب ان کو اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں
ان کے ہاتھ سے کوئی ایسی چیز چھوٹتی نہیں
جس پر ’مہذب سماج‘ کا ٹھپہ لگا ہوا ہو
اس مہذب سماج کی سب سے بڑی ایجاد ہے –
انفرادیت
ہر شخص اس الف کا مطلب سمجھ رہا ہے
وہ الف نہیں، جس سے آباء و اجداد لکھا جاتا ہو
بلکہ وہ الف جس سے گڑھا جاتا ہے
’آپ‘ اور صرف ’آپ‘۔
جب سے میرے ملک کے
چند نام نہاد شرفاء نے
مہوا کو غیر مہذب قرار دیا ہے
میری قوم کے لوگ خود کو بھی
غیر مہذب ہی تصور کرنے لگے ہیں

میری قوم کے لوگ، جو کہانیوں کو گیتوں میں پروتے تھے
اور اپنی زبان میں داستانیں رقم کیا کرتے تھے
اب اپنی بولی ہی بھول رہے ہیں
اور اپنی نئی نسل کو انگریزی بول چال سکھا رہے ہیں
اب ان کے نونہال بھی اس زمیں کے
پیڑ پودوں، دریاؤں اور پہاڑوں کی کم سوچتے ہیں
وہ خواب دیکھتے ہیں تو امریکہ اور لندن کا۔
جب سے میرے ملک کے
چند نام نہاد شرفاء نے
مہوا کو غیر مہذب قرار دیا ہے
میری قوم کے لوگ خود کو بھی
غیر مہذب ہی تصور کرنے لگے ہیں

ترجمہ: نثر والے حصہ کا ترجمہ محمد قمر تبریز نے، اور نظم والے حصہ کا ترجمہ برہان قریشی نے کیا ہے۔

Poem and Text : Jitendra Vasava

گجرات کے نرمدا ضلع کے مہوپاڑہ کے رہنے والے جتیندر وساوا ایک شاعر ہیں، جو دیہوَلی بھیلی میں لکھتے ہیں۔ وہ آدیواسی ساہتیہ اکادمی (۲۰۱۴) کے بانی صدر، اور آدیواسی آوازوں کو جگہ دینے والے شاعری پر مرکوز ایک رسالہ ’لکھارا‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ انہوں نے آدیواسی زبانی ادب پر چار کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ وہ نرمدا ضلع کے بھیلوں کی زبانی مقامی کہانیوں کے ثقافتی اور تاریخی پہلوؤں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ پاری پر شائع نظمیں ان کے آنے والے پہلے شعری مجموعہ کا حصہ ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Jitendra Vasava
Painting : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Burhan Qureshi

برہان قریشی ایک قلم کار، محقق، سوشل سائنٹسٹ اور ترجمہ نگار ہیں، جن کی رہائش کشمیر میں ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Burhan Qureshi