uploads/Articles/P. Sainath/Farming its what they do /farming_is_what_they_do_kalavathi.jpg

زرعی بحران کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد خواتین کسانوں نے اپنے شوہر کھو دیے۔ لیکن سات لڑکیوں کی ماں، کلا وَتی بندرکار جیسی متاثرہ عورتیں اب بھی اپنے کھیتوں پر کاشت کاری کر رہی ہیں


02-dsc01615-PS-Women Farmers After The Suicide-Thumbnail.jpg

کلاوَتی بندرکار نے خود ذاتی طور پر اپنے پانچ پوتے پوتیوں کی پیدائش گھر پر کروائی ہے۔ ان کی تمام شادی شدہ لڑکیاں انہی کی طرح غریب ہیں اور بچہ کی پیدائش کے لیے اسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انھوں نے یہ کام خود ہی کر ہی لیا۔ ہم جس وقت ان کے گھر پر پہنچے، وہاں اس وقت ۱۰ افراد ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان تمام کی دیکھ بھال کے علاوہ، وہ اس ۹ ایکڑ زمین پر کھیتی بھی کرتی ہیں جس سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ملتا اور ۳۰ روپے روزانہ کی مزدوری پر دوسرے کے کھیتوں پر بھی کام کرتی ہیں۔ جب کھیتی کا موسم نہیں ہوتا، جیسا کہ اب ہے، تو وہ جلانے کی لکڑیاں بیچ کر ایک دن میں صرف ۲۰ روپے کما پاتی ہیں۔ ان کی آمدنی کا آخری ذریعہ وہ بھینس ہے، جسے وہ پال رہی ہیں۔

کلاوَتی کی اسٹوری یہاں پڑھیں


03- PS-jalayalkshmamma_2_ev.max-165x165-PS-Women Farmers After The Suicide-Thumbnail.jpg

جیا لکشماما جب ۱۲ گھنٹے تک مزدوری کرنے کے بعد اپنا کام مکمل کرتی تھیں ۔ ان دنوں انھیں کام مل جاتا تھا ۔ تب کہیں جا کر ان کو اس چاول کے ایک چوتھائی سے بھی کم ملتا تھا جو ایک مجرم قیدی کو جیل میں ملتا ہے۔ درحقیقت، انھیں پورے دن کے لیے اوسطاً جتنا چاول ملتا ہے، وہ اس سے بھی کافی کم ہوتا ہے جو ایک مجرم قیدی کو ایک وقت میں کھانے کے لیے ملتا ہے۔ جیالکشماما کوئی مجرم قیدی نہیں ہیں۔ وہ ایک معمولی کسان ہیں، جن کے شوہر، ۴۵ سالہ ایچ ایم کرشنا نے چار سال قبل مانڈیا ضلع کے ہلوگن ہلّی گاؤں میں خود کشی کر لی تھی۔ کرناٹک میں سال ۲۰۰۳ میں کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں یہ ضلع سب سے آگے تھا۔

جیا لکشماما کی اسٹوری یہاں پڑھیں


04-kamlabai_gudhe_seated.max-165x165_H3N9A2s-PS-Women Farmers After The Suicide-Thumbnail.jpg

اپنی عمر کے ۶۰ ویں سال میں بھی کسان کے طور پر، کملا بائی گوڈھے جب بھی موقع ملتا ہے مزدوری کر لیتی ہیں اور وہ بھی نقد کے لیے نہیں، بلکہ اناج کے لیے۔ انھیں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مل سکتا۔ اس لیے وہ مزدوری کرتی ہیں، بعض دفعہ ۱۲ گھنٹوں تک، صرف ۲۵ روپے کے جوار کے لیے۔ ان کے پاس اپنی ساڑھے چار ایکڑ کی زمین ہے، جس پر جب بھی وقت ملتا ہے، وہ کھیتی کے کام کرتی ہیں۔ جب کبھی ان کی فصل اچھی ہوتی ہے، تو ویسے میں زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی فصل کو جنگلی جانور کھا جاتے ہیں، کیوں کہ ان کا کھیت جنگل کے بالکل قریب ہے۔ کاٹن اور سویا بین کی فصل جتنی اچھی ہوتی ہے، جنگلی سور اور نیل گائے اس کی طرف اتنا ہی زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ کھیت کے چاروں طرف باڑ لگانے کا مطلب ہے، اس پر ایک لاکھ روپے خرچ کرنا۔ اتنے پیسوں کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتیں۔

کملا بائی کی اسٹوری یہاں پڑھیں


آپ انھیں صبح کے ۴ بجے بھی مگّامو (کرگھے) پر کام کرتا ہوا پائیں گے۔ ان کے اپنے دو بچے بھی اس وقت ان کے بغل میں لوم یا کرگھے پر کام کرتے ہوئے ملیں گے۔ ’’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بجلی کب آتی ہے،‘‘ وہ معذرت خواہانہ انداز میں مسکراتی ہیں۔ ’’ان ساڑیوں کو وقت پر پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر روز کئی کئی گھنٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں پر کتنا اندھیرا ہے۔‘‘

کرشنَمّا کی اسٹوری یہاں پڑھیں


06-amberwar_1142_ev.max-165x165_lnH8eY3-PS-PS-Women Farmers After The Suicide-Thumbnail.jpg

’’بینک کی ریکوری ٹیموں نے میرے گھر پر آنا بند کر دیا ہے،‘‘ سرسوتی امبروار نے ہمیں یَوَت مال میں بتایا۔ وہ اس جگہ سے زیادہ دور نہیں رہتیں، جہاں اے پی جے عبدالکلام ۱۵ جون کو دورہ کرنے والے ہیں۔ ان کے شوہر رام داس کی خودکشی وِدربھ میں ایسا پہلا واقعہ تھا جسے میڈیا نے اُٹھایا تھا۔ یہ واقعہ ۱۹۹۸ میں پیش آیا تھا۔ تب سے ہی انھیں مختلف قسم کے دباؤ جھیلنے پڑے، جو قرض دینے والے اپنا پیسہ واپس لینے کے لیے ان کے اوپر ڈالتے رہے۔ لہٰذا، یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ بینک کی رقم واپس لینے کے لیے جو لوگ ان کے گھر آیا کرتے تھے، وہ اب تھک چکے ہیں۔

سرسوتی امبروار کی اسٹوری یہاں یہاں پڑھیں

پی سائی ناتھ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک دیہی ہندوستان کے رپورٹر رہے اور Everybody Loves a Good Drought اور The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom کے مصنف ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز پی۔ سائی ناتھ
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique