’’ہم واپس کبھی نہیں جائیں گے،‘‘ بھیما سوڈی کہتے ہیں۔ ’’ہم نے اپنا گھر پرامن زندگی کی تلاش میں چھوڑا تھا، کیوں کہ اپنے آبائی گاؤں میں ہم جنگل والے [نکسلیوں] اور جوڈوم والے [سلوا جوڈوم ملیشیا] دونوں سے ہی پریشان تھے۔‘‘
سویم لِنگما بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں بھانڈر پاڈر کبھی نہیں لوٹیں گے، جو کہ چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ ضلع میں ہے۔ ’’ہم وہاں سے بھاگ آئے تھے...‘‘ وہ اور بھیما کا تعلق چھتیس گڑھ کے ان ۲۷ کنبوں سے ہے، جو اَب آندھرا پردیش کے گوداوری ضلع کے بُرگم پاڈو منڈل کے چِپوروپاڈو میں رہتے ہیں۔
آندھرا پردیش کے مشرقی اور مغربی گوداوری ضلعوں، اور تلنگانہ کے کھمم اور وارنگل ضلعوں میں اندرونی طور پر بے گھر ہوئے افراد (آئی ڈی پی) کی متعدد آبادیوں میں سے یہ بھی ایک آبادی ہے۔
ان میں سے ہر ایک کے پاس سنانے کے لیے تشدد کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔ سُکما ضلع کے کونٹا منڈل کے تاڑمیتلا گاؤں کے ۳۰ سالہ روی سوڈی کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنا گھر ۲۰۰۵ میں اس وقت چھوڑ دیا جب ہمارے گاؤں پر حملہ ہوا... گاؤں کے تمام لوگ جنگل میں بھاگ گئے لیکن میرے چچا، جو اُس وقت صرف ۳۰ سال کے تھے، اندر ہی پھنس گئے۔ انھیں پکڑ کر قتل کر دیا گیا، اور انھوں نے پورے گاؤں میں آگ لگا دی۔ ڈر کی وجہ سے ہم نے گاؤں چھوڑ دیا اور یہاں آ گئے۔‘‘ سوڈی اب کھمم ضلع کے چِنٹلا پاڈو گاؤں میں رہتے ہیں۔
سُکما، دنتے واڑہ اور بیجاپور جیسے چھتیس گڑھ کے سرحدی ضلعوں سے آدیواسی برادریاں، خاص کر گونڈ (یا بستر کے مُریا اور آندھرا کے کویا) طویل عرصے سے موسمیاتی کھیتی کا کام کرنے ریاستی سرحدوں کے اُس پار جاتی رہی ہیں۔ تاہم، اس خطہ میں ریاست مخالف نکسل تحریک، اور چھتیس گڑھ میں ۲۰۰۵ میں ریاستی تعاون سے تشکیل کردہ نکسل مخالف سلوا جوڈوم مسلح گروپ کے تشدد کے درمیان پھنسے آدیواسی، بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس لڑائی میں، بہت سے لوگوں نے اپنی آبائی زمین اور جنگلات بھی کھو دیے۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے نئے گھروں میں محفوظ ہیں، اور انھیں مقامی کسانوں کے کھیتوں پر یومیہ مزدوری کا کام بھی مل جاتا ہے۔ چِپوروپاڈو میں ہی رہنے والی آرتی کلمو (۱۹)، مُریا آدیواسی، منگو سے شادی کرنے کے بعد، ۲۰۱۵ کے شروع میں چھتیس گڑھ کے سُکما ضلع کے بوڈکو گاؤں سے یہاں آئی تھیں۔ منگو نے دسویں کلاس تک پڑھائی کی ہے اور اب گاؤں کے اسکول میں ٹیچر ہیں، جہاں وہ ۳۰۰۰ روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ ’’منگو ایک اچھے اور تعلیم یافتہ انسان ہیں۔ گاؤں والے انھیں یہاں لے کر آئے،‘‘ آرتی کہتی ہیں، کیوں کہ یہاں بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ ’’یہاں آکر میں خوش ہوں۔‘‘
ایک غیر سرکاری تنظیم جو اس علاقہ میں صحت سے متعلق مسائل پر کام کر رہی ہے، کا اندازہ ہے کہ چپورو پاڈو ایسی تقریباً ۲۰۰ آبادیوں میں سے ایک ہے جہاں کم از کم ۵۰ ہزار مہاجر رہتے ہیں۔ یہ بستیاں جنگلوں کے کافی اندر آباد ہیں، تاکہ مقامی لوگوں سے جھگڑے سے بچا جا سکے۔ آدیواسی جنگل کے ماحول سے واقف ہیں، یہاں انھیں فصل اُگانے کے لیے زمین اور اپنی جھونپڑیاں بنانے کے لیے جگہ مل جاتی ہے۔ مقامی لوگ بھی ان کے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے انھیں سستے اور محنتی مزدور مل جاتے ہیں۔ اور دونوں طرف کے لوگ ایک ہی زبان بولتے ہیں، اس لیے بات چیت کرنا آسان ہے۔
بھیما سوڈی اور ان کی بیوی، سوڈی مانگی بھی مزدو ہیں۔ یہ دونوں مرچ توڑ تے ہیں جس سے انھیں یومیہ مزدوری ۱۲۰ روپے ملتی ہے، حالانکہ انھیں مزدوری کے طور پر مرچ لینا ہی پسند ہے – ہر ۱۲ کلو مرچ توڑنے کے بدلے انھیں ایک کلو مرچ بطور مزدوی ملتی ہے۔ یہ دونوں بعض دفعہ منریگا پروجیکٹوں پر بھی کام کرتے ہیں۔ ان کے دو بچے بھی ہیں، بیٹی کا نام لکشمی ہے جو چھ سال کی ہے اور بیٹا جس کا نام پوجا ہے، تین سال کا ہے۔ یہ کچھ فصلیں بھی اگاتے ہیں، جیسے چاول اور مکئی۔ ’’میں نے یہاں خود اپنی زمین تیار کی ہے،‘‘ بھیما کہتے ہیں۔ وہ مطمئن نظر آ رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے جو زمین تیار کی ہے وہ قبضہ کی گئی جنگل کی زمین ہے، جس کا ان کے پاس پٹّہ (ملکیت کا کاغذ) نہیں ہے۔
دیگر لوگ صرف فروری سے اپریل کے درمیان، مرچ توڑنے کے موسم میں ہجرت کرنا چاہتے ہیں، پھر گھر لوٹ جاتے ہیں۔ ’’ہم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں، اس کھوج میں کہ کرنے کے لیے چاہے جو کام مل جائے۔ ہم نے چھتیس گڑھ کے اپنے گاؤں میں فصل کٹائی کا کام پورا کر لیا ہے اور امید ہے کہ یہاں ہمیں جمائی [سفیدا] درختوں کو کاٹنے کا کام مل جائے گا [ان درختوں کے مالکوں کی طرف سے]،‘‘ ۱۲ لوگوں کے گروپ میں شامل ایک مزدور بتاتا ہے (جو اپنا نام بتانے سے ہچکچا رہا ہے)۔ یہ اور اس کے دیگر ساتھی مرچ توڑنے کا بھی کام کرتے ہیں – ان لوگوں کو مزدوری کے طور پر جو مرچ ملتی ہے، وہ اس دور دراز کے آدیواسی علاقہ میں غذا کا ایک اہم حصہ ہے۔
مانگ راج سوڈی ان وقتی مہاجر مزدوروں میں سے کچھ کے میزبان ہیں۔ ’’میں یہاں تقریباً ۱۰ سال پہلے آیا تھا جب میری عمر ۱۲ سال سے زیادہ نہیں تھی، تب میں ایک آشرم اسکول میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ میں نے اسکول اس لیے چھوڑ دیا، کیوں کہ میری فیملی میری مدد کرنے کے لائق نہیں تھی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں دیگر مزدوروں کے ساتھ یہاں آیا اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ میں نے جنگل کی کچھ زمین کو صاف کرکے اس پر فصل اگانی شروع کر دی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ زمین کتنی ہے یا گاؤں میں ہمارے پاس کتنی زمین تھی۔‘‘
گاؤں کے ہی ایک دوسرے باشندہ، مڈکام نندا کہتے ہیں، ’’سلوا جوڈوم کے لوگوں نے جب دورنا پال اور پولم پلی گاؤوں کے لوگوں کو پیٹنا شروع کیا، تو ہم وہاں سے بھاگ آئے۔ ہم پاس کی ہی ایک بستی، تُمر پال میں رہتے تھے۔ دو بھائیوں سمیت ہم چار لوگ یہاں آ گئے۔‘‘ کیا آپ واپس لوٹنا چاہتے ہیں، میں نے سوال کیا۔ ’’نہیں، کبھی نہیں، کیوں کہ یہ جگہ اچھی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
تاہم، یہاں دوبارہ آباد ہوئے آدیواسیوں کو زمین کا مالکانہ حق ابھی تک نہیں ملا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کے ذریعہ ڈھیر سارا زمینی کام کرنے کے بعد، آندھرا پردیش اور تلنگانہ حکومتوں نے انھیں راشن کارڈ، آدھار کارڈ، اور بعض لوگوں کو ووٹر کارڈ مہیا کرائے ہیں۔ یہاں کی نئی آبادیوں میں پانی اور بجلی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ طبی سہولیات اور تعلیمی ادارے بھی نہیں ہیں یا ناکافی ہیں۔ ’’ہمیں چپوروپاڈو سے کونڈا پلی تک سات کلومیٹر چل کر جانا پڑتا ہے، جہاں سب سے قریبی [پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم] سنٹر واقع ہے،‘‘ مڈکام نندا بتاتے ہیں۔
چپورو پاڈو سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، مغربی گوداوری ضلع کی وِنجارام گرام پنچایت کے ایک گاؤں، جِنیل گُڈا میں، تقریباً ۴۵ سالہ گنگی اپنے گھر کے باہر مٹی کے چولہے پر کھانا پکا رہی ہیں۔ شام کا وقت ہے اور شمسی توانائی سے جلنے والا لیمپ یہاں چاروں طرف روشنی پھیلا رہا ہے۔ یہ گھر مڈکام دیوا کا ہے، وہ بتاتی ہیں، جو کہ ناگل گونڈا میں ہے، یہ گاؤں دنتے واڑہ ضلع میں دورناپال پولس اسٹیشن کے قریب ہے۔ ان کی پہلی بیوی اور بچے اب بھی وہیں کام کرتے ہیں۔ ’’ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے،‘‘ گنگی بتاتی ہیں، ’’لیکن ان کی پہلی بیوی سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ وہاں ہمارے پاس ۵۔۴ ایکڑ زمین ہے، جو کہ دونوں بیٹوں کے لیے ناکافی ہے۔ سال ۲۰۰۲ میں، ہم مرچ توڑنے کے لیے سب سے پہلے کونڈا پلی آئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ہمیں اس جگہ کے بارے میں بتایا۔ ہمیں یہ جگہ پسند آئی، کیوں کہ یہاں پر کھیت اور جنگل ہے، اس لیے ہم یہیں آباد ہو گئے۔‘‘
جِنیل گُڈا میں نو تعمیر کچے مکانوں کی بستی میں، ہماری ملاقات مڈکام دولے سے ہوئی۔ انھوں نے اپنا چھوٹا سا گھر صرف ایک مہینہ پہلے ہی بنایا ہے۔ ’’پہلے ہم ایک پرانے گاؤں میں بس گئے تھے، جس کا نام بڈلاماڈی ہے، وہ زمین مقامی لوگوں کی تھی۔ لیکن وہاں ہماری زمین اور گھر کے درمیان کی دوری بہت زیادہ تھی، اس لیے ہم یہاں چلے آئے۔ ہمارے مکان چونکہ جنگل کی زمین پر بنے ہوئے ہیں، اس لیے محکمہ جنگلات کے اہلکار یہاں آتے رہتے ہیں، وہ ہم سے اپنے مکانوں کو توڑکر یہاں سے چلے جانے کو کہتے ہیں، لیکن ہمارے پاس کہیں اور جانے کی جگہ نہیں ہے۔‘‘
مڈکام دولے نے ہمارا تعارف کالورو بھیمایا سے کروایا، جو (ہمارے دورہ کے وقت) ککونورو منڈل کی وِنجا رام گرام پنچایت میں نئے نئے سرپنچ منتخب ہوئے تھے۔ ’’میں چھتیس گڑھ میں کلمو بھیما ہوں،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’لیکن آندھرا پردیش میں، میں کالورو بھیمایا بن چکا ہوں۔ آندھرا پردیش کی حکومت نے میرا یہی نام ریکارڈ کیا ہے!‘‘
ریاست مخالف نکسل تحریک اور چھتیس گڑھ میں ریاستی تعاون سے تشکیل کردہ نکسل مخالف سلوا جوڈوم مسلح گروپ کے تشدد کے درمیان پھنسے بہت سے آدیواسیوں نے اپنی آبائی زمین اور جنگلات کھو دیے
کلمو، جو بنیادی طور سے چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں، یہاں اس وقت آئے تھے جب سلوا جوڈوم نے ان کے گاؤں کے لوگوں کو دورنا پال کے ریلیف کیمپ میں جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ ایک ماہ تک اسی کیمپ میں رہے، پھر وہاں سے روانہ ہو گئے۔
کلمو واحد ایسے شخص نہیں ہیں، جنہیں نقل مکانی کے بعد نئی شناخت ملی ہے۔ ’’اُدھر ایلما دیوا اور اِدھر سیلما دیوایا،‘‘ چپروپاڈو سے تقریباً ۳۰۔۲۵ کلومیٹر دور، کھمم ضلع کی اُپاکا گرام پنچایت کے چِنتلا پاڈو گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تلگو میں، دیوا بدل کر دیوایا ہو جاتا ہے۔ لیکن مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے اور میں دونوں کے ساتھ خوش ہوں۔‘‘ ایلما اپنے گھر واپس نہیں لوٹنا چاہتے۔ ’’یہ زمین پر امن ہے اور ہم یہاں خوش ہیں... ہم نے جب چھتیس گڑھ چھوڑا تو دونوں طرف [ملی ٹینٹ اور ملیشیا] سے ہم نے اجازت لی، تاکہ وہ یہ نہ سوچیں کہ ہم نے ان میں سے کسی ایک کیمپ کو جوائن کر لیا ہے۔‘‘
مقامی لوگوں کے اندازہ کے مطابق، تقریباً ۲۲ کنبے چِنتلا پاڈو میں آباد ہیں، ان سبھی کا تعلق نکسل متاثرہ سُکما، دنتے واڑہ اور بیجا پور ضلعوں سے ہے۔ گاؤں تک کوئی پکّی سڑک نہیں ہے اور گاؤں والوں کو راشن لانے کے لیے چار کلومیٹر دور، نارائن پورم جانا پڑتا ہے۔
چِنتلا پاڈو کے مہاجروں کو بھی کافی جدوجہد کے بعد اب جا کر راشن کارڈ، ووٹر آئی ڈی کارڈ اور آدھار کارڈ ملا ہے، لیکن وہ اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جیسے کہ پینے کا پانی، سڑکیں، بجلی، حفظانِ صحت اور تعلیمی سہولیات۔ مقامی پولس اور محکمہ جنگلات نے ان لوگوں کے خلاف مقدمے درج کر رکھے ہیں، اور بلائے جانے پر آدیواسیوں کو پولس اسٹیشن میں ضرور جانا پڑتا ہے۔
ان میں سے بہت سے لوگ دھیرے دھیرے، اور سال ۱۲۔۲۰۱۱ میں سلوا جوڈوم کو ختم کرنے کے بعد، چھتیس گڑھ واپس لوٹ چکے ہیں، جب انھیں یہ محسوس ہوا کہ گھر واپس جانا اب محفوظ ہے۔ حالانکہ دوسرے آدیواسی مہاجرین کے لیے، امن کا وعدہ، فصل اُگانے کے لیے کھیت کا ایک ٹکڑا، اور نئی جگہ پر معاش کا کوئی ذریعہ ہی کافی لگ رہا ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)