ایک شیر دہاڑتا ہے۔ ایک کتا بھونکتا ہے۔ پھر چیختے چلاتے انسانوں کی آواز سے پورا علاقہ گونج اٹھتا ہے۔
اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہے، کیونکہ ہم چندر پور کے تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو (ٹی اے ٹی آر) سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جانوروں اور انسانوں کے چیخنے اور چلانے کی ریکارڈ شدہ آوازیں مانگی گاؤں کے لاؤڈ اسپیکر سے آ رہی ہیں۔ میگا فون کو بانس پر باندھ دیا گیا ہے اور اس کے تاروں کو کپاس اور تور کے کھیت میں رکھے بیٹری سے چلنے والے کیڑے مار دوا کے اسپرے پمپ سے جوڑ دیا گیا ہے۔
’’اگر میں رات کو یہ الارم نہ بجاؤں تو جنگلی سؤر یا نیل گائیں [جو رات میں چلنے والے جانور ہیں] میری فصلوں کا صفایا کر دیں گے،‘‘ ۴۸ سالہ کسان سریش رینگھے کہتے ہیں۔ سریش جنگلی جانوروں کو خوفزدہ کرنے کی اپنی تازہ کوشش کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ’’وہ خاص طور پر تور اور چنے [کالے چنے] پسند کرتے ہیں،‘‘ جس کا نتیجہ ان کی فصل کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔
شمسی توانائی اور تاروں کے باڑ لگانے کے باوجود جب وہ انہیں باہر رکھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں، تو گیجٹ کے دو پن والے پلگ کو بیٹری سے چلنے والے اسپرے پمپ کے ساکٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہی جانوروں اور انسانوں کی بلند آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔
رینگھے اپنے ۱۷ ایکڑ کے کھیت کے لیے فکرمند ہیں۔ اس زمین پر وہ مختلف قسم کی فصلیں اگاتے ہیں، جن میں کپاس، چنا، تور، مرچ، سبز چنا، سویابین اور مونگ پھلی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ اختراعی فارم الارم دیہی ودربھ کے سینکڑوں گاؤوں میں جنگلی جانوروں کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے نصب کیے جا رہے ہیں۔
لیکن ان سے صرف جانور ہی نہیں چونکتے ہیں۔ ’’ایسے بھی کئی واقعات پیش آئے ہیں جب ان کی آوازیں سن کر خالی سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانے والے لوگ یا مسافر گھبرا جاتے ہیں،‘‘ رینگھے اپنے اردگرد موجود کسانوں کی ہنسی کے دوران کہتے ہیں۔
مانگی گاؤں جھاڑیوں اور ساگوان کے جنگلات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ یوتمال کی رالیگاؤں تحصیل میں ناگپور-پانڈھر کوڑا ہائی وے سے ملحق ہے۔ اس کے مشرقی کنارے پر ٹی اے ٹی آر واقع ہے، جو مہاراشٹر کے ۳۱۵ شیروں میں سے ۸۲ کا مسکن ہے، اور اس کے مغرب میں یوتمال ضلع کی ٹپیشور وائلڈ لائف سینکچری ہے۔ یہ ریزرو نہ صرف شیروں کا مسکن ہے بلکہ تیندوا، ریچھ، جنگلی کتے، گور، چیتل اور سانبر کی بھی پناہ گاہ ہے اور یہ سبھی فصلوں کے لیے ممکنہ خطرہ ہیں۔
تقریباً ۸۵۰ افراد پر مشتمل یہ گاؤں ٹائیگرریزرو اور وائلف لائف سینکچری کے درمیان ایک راہداری کا کام کرتا ہے۔ مانگی کو لاحق خطرہ جھاڑیوں کے جنگلات سے گھرے گاؤوں جیسا ہی ہے، جہاں زرعی زمینیں درمیان میں آجاتی ہیں۔ جب جنگل گھنے ہوتے تھے، تو جنگلی جانوروں کے لیے جنگل کے اندر پانی اور خوراک موجود ہوتی تھی۔ اب رینگھے جیسے کسانوں کے تیار کھیت ان کے لیے شکار گاہ بن گئے ہیں۔
’’وہ یا تو جنگلی جانوروں کو یہاں سے ہٹائیں یا انہیں مارنے کی ہمیں اجازت دیں،‘‘ محکمہ جنگلات کو اس مسئلے کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے یہاں کے کسان کہتے ہیں۔ ’’یہ ان کے [محکمہ جنگلات کے] جانور ہیں،‘‘ عموماً، ہر کوئی یہی بات کہتا ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون، ۱۹۷۲ کے مطابق، محفوظ شدہ جنگلی جانوروں کو مارنے یا پھنسانے پر ’’کم از کم ایک سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے اور جس کی توسیع سات سال تک کی جا سکتی ہے اور ساتھ میں جرمانے کا بھی اہتمام ہے جو کم از کم پانچ ہزار روپے ہو گی۔‘‘ اگرچہ اس قانون میں جنگلی جانوروں کی وجہ سے فصلوں کے نقصان کی اطلاع دینے کی دفعات موجود ہیں، لیکن اس کا طریقہ کار تھکا دینے والا ہے اور مالی معاوضہ بہت ہی ناقص ہے۔ مزید جاننے کے لیے پڑھیں: ’یہ ایک نئی قسم کی خشک سالی ہے‘
عام طور پر جنگلی سؤر، ہرن اور نیل گائیں ایک درجن، دو درجن یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ کے بڑے جُھنڈوں میں آتے ہیں۔ رینگھے کہتے ہیں، ’’ایک بار جب وہ آپ کی غیر موجودگی میں کسی کھیت میں قدم رکھتے ہیں، تو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
انسانی موجودگی انہیں روکتی ہے، لیکن مانگی کے کسان رات کو پہرہ نہیں دے سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی صحت کے لیے بہت زیادہ مضر اور خطرناک بھی ہے۔ اس کے برعکس یہ چھوٹے آلات دیہی علاقوں میں بہت کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔
’’میں صحت کی وجوہات کی بناپر ہر رات کھیت میں نہیں رہ سکتا،‘‘ رینگھے کہتے ہیں، ’’ہمارے لیے یہی ایک متبادل بچتا ہے۔‘‘ اور اسے چلانا آسان ہے، اور یہ آپ کی جیب پر بھاری نہیں پڑتا ہے۔ الارم انسانی موجودگی کا بھرم پیدا کرتے ہیں، لیکن رینگھے کا کہنا ہے کہ ’’یہ پوری طرح سے کامیاب نہیں ہیں۔ جنگلی جانور کھیتوں پر دھاوا بولتے ہیں اور فصلوں کو ہضم کر جاتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ حربہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔
*****
یوتمال ہی نہیں بلکہ مشرقی مہاراشٹر کے ودربھ علاقے کی کپاس پٹی کے بڑے خطے میں کاشتکاری زیادہ تر بارش پر منحصر ہے۔ تاہم، یہ کہا جا رہا ہے کہ مانگی گاؤں کے قریب ببھول گاؤں میں تکمیل کے قریب پہنچ چکے آبپاشی کے بڑے پروجیکٹ بیمبلا ڈیم سے حالات بدل جائیں گے۔ اس ڈیم کا پانی نہروں کے ذریعے گاؤں تک آئے گا، اور دوہری فصل سے آمدنی میں اضافے کی امیدوں کو مہمیز دے گا۔
رینگھے کہتے ہیں، ’’کثیر فصلی زراعت کا مطلب ہے کہ ان جنگلی جانوروں کے لیے خوراک کی وسیع دستیابی۔ جانور بہت ذہین ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کھیتوں میں بار بار واپس آ سکتے ہیں۔‘‘
یوتمال کا یہ علاقہ بنیادی طور پر کپاس اور سویا بین کاشت کرنے والا علاقہ ہے، جو کسانوں کی بڑی تعداد میں خودکشی کے لیے جانا جاتا ہے اور یہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے بڑھتے ہوئے زرعی بحران کی زد میں ہے۔ باضابطہ قرض تک رسائی کا فقدان، قرض میں اضافہ، بارش پر منحصر کاشتکاری، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، کم آمدنی، بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت سبھی سنگین مسئلے ہیں۔ وہیں خطرناک جنگلی جانوروں کی دراندازی کو کسانوں نے ’’ناپسندیدہ کیڑوں‘‘ سے تشبیہ دی ہے۔
جنوری ۲۰۲۱ میں جب یہ رپورٹر مانگی گاؤں کا دورہ کر رہا ہے، تو روئی کی پہلی چنائی (پھلیوں سے سفید روئی نکالنے کا عمل) ختم ہو چکی ہے۔ تور کی لمبی پھلیاں پودوں سے لٹک رہی ہیں۔ رینگھے کے کھیت کے ایک حصے میں لگی مرچیں ایک ماہ میں تیار ہو جائیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ کٹائی کا وقت آتے آتے وہ اپنی فصل کی اچھی خاصی مقدارجنگلی جانوروں کے حملوں میں کھو دیتے ہیں۔ جنوری ۲۰۲۱ سے فروری ۲۰۲۳ کے درمیان، دو سال کی مدت میں پاری نے جب کئی مواقع پر رینگھے سے ملاقات کی، تو اس دوران جنگلی جانوروں کے حملوں کی وجہ سے انہیں فصلوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
حالات سے تنگ آکر آخرکار انہوں نے لاؤڈ اسپیکر والے چھوٹے الیکٹرانک باکس پر پیسے خرچ کیے۔ شمسی توانائی سے چلنے والا مقامی طور پر تیار کردہ آلہ چین میں تیار کردہ سستی مشینوں کے ساتھ بازار میں نئے نئے دسیتاب ہوئے ہیں۔ یہ کافی مقبول اور مقامی دکانوں میں آسانی سے دستیاب ہیں۔ ان کی قیمت ۲۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے تک ہوتی ہے، جو معیار، مواد، اور بیٹری کی صلاحیت پر منحصر کرتی ہے۔ یہ گیجٹ ایک عام ڈور بیل (دروازے کی گھنٹی) کے سائز کا ہے اور اس کی بیٹری ۶ سے ۷ گھنٹے تک چلتی ہے اور اسے شمسی توانائی سے چلنے والے اسپرے پمپ سے بھی ریچارج کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر کسان اسے دن کے وقت ریچارج کرتے ہیں اور رات بھر اپنے کھیتوں کے درمیان ایک کھمبے پر لگا کر بجاتے ہیں۔
یوتمال کسانوں کی بڑی تعداد میں خودکشی اور بڑھتے ہوئے زرعی بحران کے لیے جانا جاتا ہے۔ کسانوں نے جنگلی جانوروں کی دراندازی کو ’ناپسندیدہ کیڑوں‘ سے تشبیہ دی ہے
پچھلے کچھ سالوں میں اس رپورٹر نے ودربھ کے ایک بڑے حصے میں کھیتوں میں رات کے وقت شور مچاتے ہوئے بجنے والے حیران کن قسم کے الارم ڈیوائس دیکھے ہیں۔
مانگی میں چار ایکڑ قابل کاشت زمین کے مالک، رمیش سرودے کہتے ہیں، ’’ہم نے کچھ سال پہلے ان الارم کا استعمال شروع کیا تھا۔‘‘ انہوں نے اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے اپنے کھیت میں کئی بجوکوں کے علاوہ یہ آلہ بھی نصب کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم نے دن بھر پٹاخے پھوڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ بہت مہنگے اور ناقابل عمل ہیں۔ یہ الارم زیادہ تر الیکٹرانک کی مقامی دکانوں میں دستیاب ہیں۔‘‘
شام کو گھر کا رخ کرنے سے پہلے سبھی کسان اس گیجٹ کو آن کر دیتے ہیں۔ چند کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں میں ان کے گھر سے کھیتوں میں جانوروں کی الیکٹرانک آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ چالاک جانوروں کو روک نہیں سکتا، اس لیے رینگھے نے ہوا سے چلنے والا ایک پنکھا ایجاد کیا ہے جو افقی طور پر رکھی اسٹیل کی پلیٹ پر ضرب لگاتا ہے۔ اسے دوسرے کنارے پر لکڑی کے کھمبے سے باندھ کر یہ یقینی بنایا ہے کہ انہوں نے اس کی تمام بنیادوں کو ڈھانپ دیا ہے۔
’’ منچیہ تسلّی ساٹھی کرتو جی ہے [ہم یہ کام اپنی تسلی کے لیے کرتے ہیں]،‘‘ رینگھے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہتے ہیں، گویا یہ مذاق ان پر ہے۔ ’’ کا کرتا [کوئی کیا کرسکتا ہے]۔‘‘
یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب کھیت کے الارم کی آواز گونجتی ہے، تو انسانوں یا محافظ کتوں کی ’’کوئی بو نہیں ہوتی ہے‘‘، لہذا یہ ہمیشہ جنگلی جانوروں کو خوفزدہ نہیں کرتے۔
*****
رینگھے کہتے ہیں، ’’اگر ہم کٹائی کے دوران چوکس نہ رہیں تو فصلوں کا نقصان ۵۰ سے ۱۰۰ فیصد تک ہو سکتا ہے۔‘‘
مراٹھی کی ایک مقامی بولی، ورہاڈی میں بات کرتے ہوئے رینگھے مزید کہتے ہیں، ’’ اجی تھیے سپہ سپّا صاف کرتے [جانور پوری فصل کھا جائیں گے]۔‘‘
یہ فروری ۲۰۲۳ کے وسط کا واقعہ ہے، جب ہم ان کے گھر کے نزدیک ہی ان کے کھیت سے گزر رہے ہیں تو رینگھے نے کسی جانور کے گوبر کی طرف اشارہ کیا۔ یہ جنگلی سؤروں کے ذریعہ ربیع (موسم سرما) کی گندم کی فصل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی تباہی کی نشانی ہے۔
یہاں تک کہ مرچوں کے پودے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جب ہم مکمل طور پر اگے ہوئے پودوں کی قطاروں سے گزرتے ہیں جن میں سرخ اور ہری مرچیں لٹکی ہوتی ہیں، تو رینگھے کہتے ہیں، ’’مور مرچیں کھاتے ہیں۔ ان کی [مور کی] خوبصورتی پر مت جائیے، وہ اتنے ہی تباہ کن ہیں۔‘‘ وہ ایک یا دو ایکڑ پر مونگ پھلی بھی اگاتے ہیں، جس کی فصل اپریل کے وسط تک تیار ہو جاتی ہے۔ جنگلی سؤر مونگ پھلیاں پسند کرتے ہیں۔
فصلوں کے بھاری نقصان کے علاوہ، الارم اور بیٹریاں اضافی خرچ ہیں۔ اسی طرح نایلان کی ساڑیاں ہیں جن سے کھیتوں کے ارد گرد باڑ لگائے جا رہے ہیں۔ رینگھے ہمیں پودوں کے نیچے چھوٹے کپڑوں کے بنڈلوں میں بندھے نیفتھلین کے گولے دکھاتے ہیں۔ کسی نے انہیں بتایا ہے کہ تیز تند بدبو جنگلی جانوروں کو بھگاتی ہے۔ وہ کچھ بھی آزمانے کو تیار ہیں بھلے ہی ان میں سے کچھ عجیب و غریب حربے ناکام ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
’’اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے،‘‘ سرودے کہتے ہیں، جو اپنی زمین کا کچھ حصہ بے کاشت رکھتے ہیں، جو ان کے بڑے کھیت سے جڑا ہوا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ’’اگر ہم راتوں کو چوکس رہنے کے لیے جاگتے رہیں، تو ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اگر ہم سوتے ہیں تو اپنی فصل کھو دیتے ہیں - ہم کیا کریں!‘‘
اس مسئلے کی سنگینی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ودربھ کے بہت سے حصوں میں جہاں جنگلات زرعی کھیتوں سے لگے ہوئے ہیں، وہاں کچھ چھوٹے یا معمولی کسان اپنی زمینیں بے کاشت چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اچانک نقصان کے امکان، توانائی، وقت اور فصل تیار کرنے کے لیے درکار رقم اور اپنی صحت کی قیمت پر چوبیس گھنٹے پہرے داری کے تیار نہیں ہیں۔
آپ جنگلی جانوروں کے خلاف نہیں جیت سکتے، کسان مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں جو اب اپنی پیداوار کا کچھ حصہ اس خطرے کے لیے چھوڑنے پر متفق ہیں۔
ہر صبح، رینگھے اپنے کھیت کی طرف جاتے ہیں اور بہتری کی دعا کرتے ہوئے، بدترین کے لیے تیار رہتے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم