بھاما بائی مستود کام کے وقت، چپلوں اور تلووں کی مرمت کر رہی ہیں
بھاما بائی اپنی دُکان میں بیٹھی ہوئی ایک چپّل کی مرمت کر رہی ہیں، جب کہ موچی کے ذریعہ استعمال کیا جانے والا لوہے کا سِندان ان کے سامنے زمین پر رکھا ہوا ہے۔ مدد کے طورپر لکڑی کے ایک مستطیل ٹکڑے کو استعمال کرتے ہوئے، وہ اپنے پیر کے بڑے انگوٹھے سے کھلی چپل کے سرے کو پکڑے ہوئی ہیں۔ اس کے بعد وہ سوئی کو اندر گھساتی ہیں اور دھاگے کو پروتے ہوئے، اسے باہر کھینچتی ہیں۔ چھ بار اسی طرح کرنے کے بعد، ٹوٹا ہوا پھندا ٹھیک ہو جاتا ہے، جس سے ان کی پانچ روپے کی کمائی ہوتی ہے۔
چپل کے ٹوٹے ہوئے پھندے کو سِلتے ہوئے
بھاما بائی مستود سے ملئے، جو چمڑے کا کام کرتی ہیں، جسے عام طور سے موچی کا کام کہا جاتا ہے۔ وہ مفلسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ دہائیوں پہلے وہ اور ان کے شوہر مراٹھواڑہ خطہ کے عثمان آباد ضلع میں بے زمین مزدور ہوا کرتے تھے۔ سال ۱۹۷۲ کے اندوہناک قحط نے جب مہاراشٹر کو تباہ کیا، کھیتی کے کام کو ختم کر دیا، اور ان کی روزی روٹی کو تنگ کردیا، تو دونوں میاں بیوی پُنے چلے آئے۔
انھیں جو بھی کام مل جاتا، وہ اسے کرنے لگتے، چاہے وہ سڑک کی تعمیر کا کام ہو یا پھر عمارتیں بنانے کا کام۔ اُس زمانے میں پُنے کے اندر ایک مزدور کو دن بھر کام کرنے کے بدلے دو سے پانچ روپے تک کی مزدوری ملتی تھی۔ بھاما بائی، جو اَب ۷۰ سال کی ہو چکی ہیں، بتاتی ہیں، ’’میں جو کچھ کماتی تھی، وہ اپنے شوہر کو دے دیتی تھی۔ وہ اس پیسے سے شراب پی کر میری پٹائی کرتے تھے۔‘‘ بعد میں ان کے شوہر نے انھیں چھوڑ دیا، اور اب پُنے کے قریب اپنی دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ’’میرے لیے وہ مر چکا ہے۔ اسے مجھ کو چھوڑے ہوئے ۳۵ سال ہو چکے ہیں۔‘‘ بھاما بائی کے بھی دو بچے ہوتے، اگر وہ پیدائش کے وقت ہی ختم نہ ہو گئے ہوتے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے ساتھ کوئی نہیں ہے، میرا کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘
شوہر کے چھوڑ کر چلے جانے کے بعد، بھاما بائی نے جوتے چپل کی مرمت کرنے کے لیے جھونپڑی نما ایک دُکان کھولی، انھوں نے یہ کام اپنے والد سے سیکھا تھا۔ یہ دُکان پُنے کی کروے روڈ کے آخری سرے پر ایک چھوٹی سی گلی میں، ایک ہاؤسنگ کالونی کے قریب ہے۔ ’’میونسپل ورکرس نے اسے ڈھا دیا تھا۔ لہٰذا میں نے اسے دوبارہ بنایا ہے۔ انھوں نے اسے دوبارہ توڑ دیا۔‘‘ بھاما بائی نے نا امید ہو کر اُس کالونی میں رہنے والوں سے مدد مانگی۔ ’’میں نے اُن سے کہا کہ میرے پاس کہیں اور جانے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ نہ ہی میرے پاس کرنے کے لیے کوئی اور کام ہے۔‘‘ وہ آگے آئے اور انھوں نے میونسپل اتھارٹیز سے بات کی، اور اس طرح انھیں یہاں اپنے کام کو جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔
سڑک کے کنارے اپنی چھوٹی سی، ٹوٹی پھوٹی دُکان میں گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے
وہ کہتی ہیں کہ زندگی بہت سخت ہے۔ ’’اگر کوئی گاہک آتا ہے، تو مجھے پانچ یا چھ روپے ملتے ہیں۔ اگر کوئی نہیں آتا، تو میں شام تک یونہی بیٹھی رہتی ہوں۔ اس کے بعد میں گھر چلی جاتی ہوں۔ یہی آج کل میری زندگی ہے۔ کبھی کبھی تو میں ایک دن میں تیس روپے اور کبھی پچاس روپے بھی کما لیتی ہوں، لیکن اکثر میرا ہاتھ خالی ہی رہتا ہے۔‘‘
کیا وہ نیا جوتا بنا سکتی ہیں؟ ’’نہ، نہیں۔ میں نہیں جانتی کہ جوتا کیسے بنایا جاتا ہے۔ میں صرف ٹوٹے ہوئے جوتے چپل ٹھیک کرتی ہوں۔ میں جوتوں کو پالش کر سکتی ہوں، اور ان کی ایڑیوں اور تلووں کو درست کر سکتی ہوں۔‘‘
دو اور چمار، دونوں ہی مرد ہیں، ان کی دُکانیں بھاما بائی کی دُکان سے چند گز کی دوری پر واقع ہیں۔ وہ اونچی قیمت لیتے ہیں، اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ روزانہ ۲۰۰۔۴۰۰ روپے کما لیتے ہیں، بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ۔
بھاما بائی اوزاروں کا اپنا بھورا بکسہ کھولتی ہیں۔ ڈھکن کے اندرونی حصے کے اوپر انھوں نے دیوی دیوتاؤں کی تصویریں لگا رکھی ہیں۔ اوپری ٹرے میں چار خانے ہیں، جن میں دھاگے اور کیلیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے نیچے چمڑے کاٹنے اور اس کی سلائی وغیرہ سے متعلق اوزار ہیں۔ وہ انھیں باہر نکالتی ہیں۔
موچی کے اوزار
پہلی لائن، بائیں سے دائیں: آئرن (لوہے کا سِندان)، چمڑا اور لوبر، فرانڈی (لکڑی کا مستطیل ٹکڑا، جو سالوں سے استعمال کی وجہ سے گھس چکا ہے)۔
نچلی لائن، بائیں سے دائیں: چمبھاری ڈورا (چماروں کا دھاگہ)، پکّڑ (چمٹی)، آری (سوئی)، اور راپی (چمڑے اور دھاگے کو کاٹنے والا چاقو)
’’آپ نے میرے اوزاروں کی تصویریں کھینچ لیں۔ لیکن کیا آپ نے میری دیویوں کی تصویریں لیں؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی وہ دیویاں ہیں، جنھیں وہ اپنا کہہ سکتی ہیں۔
بھاما بائی کا اوزاروں کا بکسہ اور دیویاں
شام کے وقت جب وہ اپنا کام ختم کرتی ہیں، تو سارے اوزار بکسے میں واپس رکھ دیے جاتے ہیں، جس میں اسٹیل کا وہ گلاس بھی شامل ہے، جس سے وہ پانی پیتی ہیں۔ سِندان، لکڑی کا ٹکڑا، دیگر چھوٹے سامان جیسے چپس کا پیکٹ، اور کچھ پیسوں والا کپڑے کا ایک چھوٹا سا بٹوا، سبھی چیزیں مضبوطی سے سلی ہوئی پٹ سن کی بوری میں ڈال دی جاتی ہیں۔ بکسے اور بوری کو سڑک کے اُس پار فاسٹ فوڈ ریستوراں کے باہر تالے سے بند دھات کی ایک کوٹھری میں رکھ دیاجاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’بھگوان اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں میری مدد کرتے ہیں، وہ لوگ مجھے اپنی چیزیں وہاں رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘
بھاما بائی شاستری نگر میں رہتی ہیں، جو کہ اُن کی اس چھوٹی سی دُکان سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور ہے۔ ’’میں ہر روز، صبح اور شام کو پیدل چلتی ہوں، آنے جانے میں ایک طرف سے ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ راستے میں میں کئی بار ٹھہرتی ہوں، درد کرتے گھٹنوں اور پیٹھ کو آرام دینے کے لیے میں سڑک کے کنارے کہیں پر بھی بیٹھ جاتی ہوں۔ ایک دن میں نے آٹورکشہ کیا، جس پر میرے تقریباً ۴۰ روپے خرچ ہو گئے۔ ایک دن کی کمائی چلی گئی۔‘‘ کبھی کبھار فاسٹ فوڈ ریسٹوراں میں کام کرنے والا ڈلیوری بوائے ان کو آدھے راستے تک اپنی موٹر سائیکل پر لِفٹ دے دیتا ہے۔
اُن کا گھر دُکان سے تھوڑا ہی بڑا ہے، آٹھ بائی آٹھ فیٹ کا کمرہ۔ شام کو ۷ بج کر ۱۵ منٹ پر اُس کمرے میں گھپ اندھیرا ہے۔ اندر تیل کا ایک چھوٹا سا دیپک جل رہا ہے، جس سے ہلکی سی روشنی آ رہی ہے۔ ’’ٹھیک ویسا ہی لیمپ جو کاناگارا گاؤں میں ہمارے گھر میں تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ یہاں بجلی نہیں ہے۔ ان کا کنیکشن کاٹ دیا گیا تھا، کیوں کہ بجلی کا بل بھرنے کے لیے ان کے پاس پیسہ نہیں تھا۔
فرنیچر کے نام پر صرف لوہے کا ایک بیڈ ہے، جس پر کوئی دری بھی نہیں ہے؛ اس سے دوہرا کام لیا جاتا ہے، اسے کھڑا کرکے دھلے ہوئے برتن اس پر سُکھائے جاتے ہیں۔ ایک دیوار پر پھٹکنا لٹکا ہوا ہے۔ پکانے کی جگہ پر کچھ برتن اور ٹن کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں۔ ’’میرے پاس ایک اسٹوو ہے، جسے میں اس وقت تک استعمال کر سکتی ہوں، جب تک اس میں ایک لیٹر مٹی کا تیل چلتا ہے۔ اس کے بعد میں اگلے مہینے تک انتظار کرتی ہوں، تاکہ اپنے راشن کارڈ سے تیل خرید سکوں۔‘‘
بھاما بائی کی بانہہ پر آگے کی طرف ایک بڑا سا ٹیٹو بنا ہوا ہے، جس پر دیوی دیوتاؤں کے فوٹو بنے ہوئے ہیں اور اُن کے شوہر، والد، بھائی، ماں، بہن، اور ان کا عرفی نام لکھا ہوا ہے۔ یہ ہمیشہ رہنے والا نیلے رنگ کا ٹھپا ہے۔
بھاما بائی کی بانہہ پر آگے کی طرف اُن کی فیملی کے غیر حاضر ممبران کی یادوں کے ٹھپے ہیں
برسوں سے مزدوری کرنے کی وجہ سے وہ کافی تھک چکی ہیں، پھر بھی وہ خود بین اور آزاد ہیں۔ ان کے دو بھائی اسی شہر میں رہتے ہیں، ایک بہن گاؤں میں ہے، جب کہ دوسری ممبئی میں رہتی ہے۔ ان سب کی اپنی اپنی فیملی ہے۔ گاؤں کے اس کے رشتہ دار جب پُنے آتے ہیں، تو تھوڑی دیر کے لیے اس کی دُکان پر بھی ٹھہرتے ہیں۔
’’لیکن میں کبھی اُن لوگوں سے ملنے نہیں گئی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں اپنا درد اُن میں سے کسی سے نہیں بانٹتی۔ میں آپ کو یہ سب اس لیے بتا رہی ہوں، کیو ں کہ آپ نے مجھ سے یہ سب پوچھا۔ اِس دنیا میں، ہر کسی کو اپنا نباہ خود ہی کرنا ہے۔‘‘
جس وقت ہم ان کی دُکان میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک عورت اندر جھانکتی ہے اور ایک چھوٹا پلاسٹک بیگ تھما کر چلی جاتی ہے۔ بھاما بائی مسکراتی ہیں: ’’میری کچھ سہیلیاں ہیں، یہ وہ عورتیں ہیں جو دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ بعض دفعہ انھیں کام کرنے کی جگہ پر بچا ہوا جو کھانا ملتا ہے، وہ مجھے دے جاتی ہیں۔‘‘
بھاما بائی چمڑے کے ایک کالے جوتے کا تلوا ٹھیک کر رہی ہیں
ایک گاہک مرمت کے لیے اپنا چمڑے کا ایک کالا جوتا اور دو جوڑے برانڈیڈ فوٹ گیئرس چھوڑ جاتا ہے۔ ایک ایک کرکے وہ سب کو سِل کر درست کرتی ہیں، اور چمڑے کے کالے جوتے کو پالش کرتی ہیں۔ ایک جوڑی کے صرف ۱۶ روپے لے کر، وہ ان پرانے جوتوں میں نئی جان ڈال دیتی ہیں، جب کہ ان جوتوں کی کبھی مہنگی قیمت ہوا کرتی تھی۔ ان کی مرمت کرکے انھوں نے اپنے گاہک کو اسی برانڈ کے نئے جوتوں پر ہزاروں روپے خرچ کرنے سے بچا لیا۔ لیکن اگر انھیں یہ معلوم ہوتا، تب بھی وہ اسے ظاہر نہیں کرتیں۔ وہ صرف ٹوٹے ہوئے تلووں کی مرمت کر رہی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)