اوما پاٹل کے دو کمرے کے گھر کے ایک کونے میں لوہے کی ایک چھوٹی الماری ہے۔ اس کے اندر بڑے رجسٹروں، نوٹ بک، ڈائریوں اور سروے فارموں کی فوٹوکاپی کی شکل میں ہاتھ سے لکھا ہوا ایک دہائی کا ریکارڈ ہے۔ یہ سبھی موٹی پالیتھین کی تھیلیوں میں ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے ہیں۔
لگاتار بڑھتے کاغذ کے یہی وہ انبار ہیں، جن میں دیہی مہاراشٹر کے زیادہ تر لوگوں کی صحت، منظور شدہ سماجی صحت کارکنان (آشا) کے ذریعے درج کی جاتی ہے – بچے کی پیدائش سے لے کر، ٹیکہ کاری، نوجوانوں کی غذائیت، مانع حمل، تپِ دق وغیرہ سے متعلق ڈیٹا تک۔ اوما مہاراشٹر کے سانگلی ضلع میں میراج تعلقہ کے اراگ گاؤں کے لوگوں کا یہ ریکارڈ ۲۰۰۹ سے رکھ رہی ہیں۔ اور اپنے گاؤں کو صحت سے متعلق مسائل کے بارے میں بار بار بتانے اور رہنمائی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
دیہی مہاراشٹر میں، ۴۵ سالہ اوما کی طرح ہی، ۵۵ ہزار آشا کارکن روزانہ لمبے وقت تک اپنے گاؤوں میں بنیادی صحت خدمات کو یقینی بناتی ہیں۔ اس افرادی قوت کو ۲۰۰۵ میں قومی دیہی صحت مشن (این آر ایچ ایم) کے حصہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ ان مجموعی صحت کارکنان، جو تمام خواتین ہوتی ہیں، کو ۲۳ دنوں کی ٹریننگ کے بعد تعینات کیا جاتا ہے۔ این آر ایچ ایم نے آدیواسی گاؤوں میں ہر ۱۰۰۰ افراد (جنہوں نے کم از کم ۸ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے) کے لیے ایک، اور غیر آدیواسی گاؤوں میں ۱۵۰۰ لوگوں (جنہوں نے کم از کم ۱۰ویں کلاس پاس کیا ہے) کی آبادی کے لیے ایک ’آشا‘ کارکن کو لازمی بنایا ہے۔
اراگ میں، جو تقریباً ۱۵۶۰۰ لوگوں کا ایک بڑا گاؤں ہے، اوما کے ساتھ ۱۵ دیگر آشا کارکن ہر صبح ۱۰ بجے کے آس پاس نکلتی ہیں۔ اراگ میراج تعلقہ کے بیڈگ، لنگنور، کھاٹو، شندے واڑی اور لکشمی واڑی گاؤوں کے لیے بنیادی پی ایچ سی (بنیادی صحت مرکز) بھی ہے – تعلقہ کی کل آبادی تقریباً ۴۷۰۰۰ ہے، جہاں ۴۱ آشا کارکن تعینات ہیں۔
ہر ایک آشا کارکن خود کو سونپے گئے ہر ایک گھر کا دورہ کرتی ہیں، اور عام طور پر اس کام کے لیے ایک دن کے متعینہ پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت لگاتی ہیں۔ ’’اگر گھر گاؤں کے اندر ہیں، تو دو گھنٹے میں ۱۰-۱۵ دورے کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ باہری علاقے میں یا کھیتوں پر رہتے ہیں۔ ایسے میں چار دورہ کرنے میں بھی پانچ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ اور ہمیں جھاڑیوں، کھیتوں اور کیچڑ بھرے راستوں سے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ مانسون کے دوران یہ اور بھی بدتر ہو جاتا ہے،‘‘ اوما کہتی ہیں۔
گھر کا دورہ کرنے میں شامل ہوتا ہے کنبوں کی صحت کی دیکھ بھال، مانع حمل کے بارے میں بات کرنا، کھانسی اور بخار جیسی چھوٹی بیماریوں میں راحت مہیا کرنا، حاملہ خواتین کو زچگی اور دودھ پلانے کے لیے تیار کرنا، نوزائیدہ بچوں (خاص طور سے کم وزن اور وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں) کی نگرانی کرنا، دست، اینیمیا اور کم غذائیت میں مبتلا بچوں پر نظر رکھنا، ان کی مکمل ٹیکہ کاری کو یقینی بنانا، تپ دق اور ملیریا جیسی بیماریوں کی روک تھام یا علاج کرنے کی کوشش کرنا۔
یہ کاموں کی ایک لامتناہی فہرست ہے۔ ’’ہم یہ یقینی بناتے ہیں کہ کوئی بھی گھر کسی بھی [ہیلتھ] سروے یا ہیلتھ کیئر سے محروم نہ رہ جائے۔ کوئی بھی موسمی مہاجر اور ان کی فیملی بھی نہیں،‘‘ اوما کہتی ہیں، جو اپنے شوہر اشوک کے ساتھ اپنے ایک ایکڑ کے کھیت میں مکئی کی کھیتی بھی کرتی ہیں۔
بدلے میں، ایک آشا کارکن کی ماہانہ کمائی – جسے سرکار کے ذریعے ’انسینٹو‘ یا ’اعزازیہ‘ کہا جاتا ہے – مہاراشٹر میں، کام کی بنیاد پر، اوسطاً ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے ہے۔ مثال کے طور پر، انھیں کنڈوم اور مانع حمل گولیوں کے ہر ایک پیکیٹ تقسیم کرنے کے ۱ روپے، ہر ایک ادارہ جاتی زچگی کو یقینی بنانے کے ۳۰۰ روپے، اور نوزائیدہ بچوں کی جانچ کے لیے گھر کا ۴۲ دورہ کرنے کے ۲۵۰ روپے ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ہمیشہ بڑھتے رہنے والے ان نوٹ بُک میں، ہیلتھ کارکنوں کو اپنے سبھی دوروں، نگرانیوں اور سروے کا ڈیٹا بھی بنائے رکھنا ہوتا ہے۔ ’’میں ہر ماہ ۲۰۰۰ روپے کماتی ہوں اور تقریباً ۸۰۰ روپے نوٹ بک، فوٹو کاپی، سفر اور موبائل ریچارج پر خرچ کرتی ہوں،‘‘ اوما کہتی ہیں۔ ’’ہمیں ہر ایک اصلی فارم کی دو فوٹوکاپی کرانی ہوتی ہے۔ ایک ہم معاون کو سونپتے ہیں اور دوسرا اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس میں ایک طرف کے [فوٹوکاپی کرانے پر] ۲ روپے لگتے ہیں...‘‘
یہ فارم بے شمار ہیں – ہوم بیسڈ نیوبورن فارم، حاملہ خواتین کے لیے جننی سرکشا یوجنا کا فارم، بیت الخلا اور پینے کے پانی کے ذرائع کے بارے میں کنبوں کا سروے، کوڑھ کے مرض کے اعداد و شمار – یہ آگے بڑھتا ہی رہتا ہے۔ اس کے بعد ولیج ہیلتھ اور نیوٹریشن ڈے کا سروے ہے، جس میں نوٹ کیا جاتا ہے کہ اس ماہانہ پروگرام میں کتنے شامل ہوئے، ہیموگلوبن کی سطح کی جانچ، بچوں کی ٹیکہ کاری، کم غذائیت کی جانچ کی گئی – اس میں اسی قسم کی تقریباً ۴۰ تفصیلات شامل ہیں۔
اوما اور دیگر آشا کارکنوں کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کو ہر مہینے کے آخر میں ریاستی حکومت کی این آر ایچ ایم سائٹ پر اپلوڈ کیا جاتا ہے۔ میں جب وہاں گئی تو دیکھا کہ اراگ پی ایچ سی کی ایک معاون، ۲۸ سالہ پرینکا پجاری، اس سائٹ کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہیلتھ سینٹر میں تین ایک منزلہ عمارتیں ہیں جن میں ایک کمپیوٹر، ڈاکٹر کا ایک کیبن اور وہاں آنے کے لیے بیٹھنے کی جگہ، خون کی جانچ کے لیے ایک لیباریٹری اور دواؤں کے لیے ایک اسٹور روم ہے۔ عام طور پر، ایک ’معاون‘ ۱۰ آشا کارکنوں کے کام کی نگرانی کرتی ہے اور پی ایچ سی میں صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۶ بجے تک کام کرتی ہے۔ پی ایچ سی میں (کم از کم کاغذ پر) ایک نرس، ایک ڈاکٹر اور میڈیکل ٹیکنیشین بھی ہیں۔
’’آشا کی سائٹ اپریل سے خراب تھی۔ یہ نومبر میں دوبارہ شروع ہوئی۔ میں پچھلے مہینوں کے ساتھ ساتھ موجودہ مہینے کے ڈیٹا کو اپلوڈ کر رہی ہوں۔ اکثر لوڈ شیڈنگ [بجلی کٹوتی] اور خراب انٹرنیٹ کنیکشن کے سبب کام رک جاتا ہے،‘‘ پرینکا بتاتی ہیں۔ وہ بی اے اور ایجوکیشن میں ڈپلومہ کرنے کے بعد تین سال سے ایک معاون کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ تقریباً سات کلومیٹر دور اپنے گاؤں، لِنگنور سے اسکوٹی یا اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بس سے پی ایچ سی آتی ہیں۔ ان کے کام میں شامل ہے آشا کارکنوں کے کام کی نگرانی کرنا، ماہانہ میٹنگیں منعقد کرنا اور پی ایچ سی میں آنے والے لوگوں سے ملنا۔
پرینکا ۸۳۷۵ روپے ماہانہ کماتی ہیں – لیکن یہ پیسہ تب ملتا ہے، جب وہ نوزائیدہ بچوں اور زچگی سے قبل چیک اپ کے لیے گھر کا کم از کم ۲۰ دورہ کریں، اور آشا سائٹ کو اپڈیٹ کرنے میں پانچ دن لگائیں۔ ’’اگر ہم ایک مہینے میں ۲۵ دن پورے نہ کریں، تو ہمارا پیسہ کاٹ لیا جاتا ہے۔ پیسہ پانے کے لیے آشا کارکنوں اور معاون، دونوں کو ہی یہ کام کمیونٹی موبیلائزرس [اعلیٰ سطح کے طبی افسران] کو پیش کرنا ہوتا ہے۔‘‘
پی ایچ سی کی ماہانہ میٹنگوں میں، پرینکا سبھی طبی ملازمین کی مجموعی تشویشوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ ’’لیکن کچھ نہیں ہوتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’حال ہی میں، ہمیں ۵۰ صفحات کی پانچ نوٹ بک، ۱۰ قلم، ایک پنسل باکس، ۵ ملی لیٹر کی گوند کی ایک بوتل اور ایک رولر کے ساتھ [صرف] یہ اسٹیشنری کِٹ ملی۔ یہ سامان کب تک چلیں گے؟‘‘
میڈیکل سپلائی کی کمی ایک اور لامتناہی مسئلہ ہے۔ ’’ہمیں کنڈوم اور مانع حمل گولیوں کے باکس ملے تین مہینے ہو گئے ہیں۔ اگر کوئی رات میں بخار، سر درد، پیٹھ درد کے لیے ہمارے پاس آ جائے، تو یہ دوائیں ہمارے پاس نہیں ہیں،‘‘ ۴۲ سالہ چھایا چوہان کہتی ہیں، جنہیں اوسطاً ۲۰۰۰ روپے ماہانہ ’اعزازیہ‘ کے طور پر ملتا ہے۔ ان کے شوہر رام داس، پاس کی ایک چینی فیکٹری میں گارڈ کی نوکری کرتے ہوئے ۷۰۰۰ روپے کماتے ہیں۔
باوجود اس کے، دیہی ہندوستان کی پرائمری ہیلتھ سروِس انہی زمینی کارکنوں پر ٹکی ہوئی ہے، یہی وہ کارکن ہیں جو ملک کے ہیلتھ انڈیکس کو بہتر بنانے میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، نیشنل فیملی ہیلتھ سروے- ۴ نے پایا ہے کہ مہاراشٹر میں سال ۲۰۰۵-۰۶ میں فی ۱۰۰۰ زندہ پیدائشوں پر جو شرحِ اموات ۳۸ تھی وہ ۲۰۱۵-۱۶ میں گھٹ کر ۲۴ ہو گئی، اور سال ۲۰۰۵-۰۶ میں ادارہ جاتی زچگی ۶ء۶۴ فیصد سے بڑھ کر ۲۰۱۵-۱۶ میں ۳ء۹۰ فیصد ہو گئی۔
’’آشا، معاشرہ اور پبلک ہیلتھ سسٹم کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے۔ زچے اور بچے کی صحت میں بہتری کے لیے ان کا رول اہم ہے۔ ان کے لگاتار گھر کے دورے اور بیماری کے بارے میں لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطہ احتیاطی قدم کا کام کرتے ہیں،‘‘ ممبئی کے سرکاری لوک مانیہ تلک میونسپل جنرل اسپتال میں خواتین کے امراض کے ماہر، ڈاکٹر نرنجن چوہان کہتے ہیں۔
اور یہ اکثر آشا کارکن ہی ہیں جو کسی بھی طبی حالت میں حفاظت کی پہلی قطار کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ’’چھ مہینے پہلے، لکشمی واڑی [تین کلومیٹر دور] میں ایک آدمی کو سوائن فلو ہو گیا۔ اس گاؤں کی آشا نے فوراً اراگ پی ایچ سی کو اس کے بارے میں مطلع کیا،‘‘ اوما بتاتی ہیں۔ ’’ڈاکٹروں اور تجزیہ نگاروں کی ایک ٹیم نے وہاں جا کر ایک دن میں سبھی ۳۱۸ گھروں کا سروے کیا۔ ہم نے علامت والے ہر شخص کے نمونے لیے، لیکن کسی اور میں یہ (سوائن فلو) نہیں ملا۔‘‘
حالانکہ، آشا کارکنوں کے ذریعے لائی گئی تبدیلی کو گاؤوں کے لوگ پہچانتے ہیں۔ ’’میں نے کبھی اسپتال نہیں دیکھا تھا، دو سال پہلے موتیا بین کا آپریشن کراتے وقت پہلی بار دیکھا،‘‘ ایک بزرگ خاتون، شِرمابائی کورے کہتی ہیں۔ ’’اوما نے ہماری رہنمائی کی۔ انھوں نے میری بہو شانتا بائی کی دو سال [۲۰۱۱-۱۲ میں] تک دیکھ بھال کی، جب اسے تپ دق کی بیماری ہو گئی تھی۔ یہ نوجوان خواتین [آشا] میرے جیسے بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کی صحت کو یقینی بنا رہی ہیں۔ میرے زمانے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ تب ہماری رہنمائی کرنے کے لیے کون تھا؟‘‘ شرما بائی کہتی ہیں۔
اراگ میں ۴۰ سالہ کسان، چندرکانت نائک، اسی طرح کے تجربہ کی بات کرتے ہیں۔ ’’تین سال پہلے، جب میری چار سال کی بھتیجی کو پیٹ میں تیز درد ہوا اور اُلٹی ہونے لگی، تو ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میں مدد کے لیے اوما کے گھر بھاگا۔ انھوں نے ایک ایمبولینس کو فون کیا۔ ہم اسے پی ایچ سی لے گئے...‘‘
آشا کارکن ایسے ناگہانی حالات سے نمٹنے کی عادی ہیں، اور عام طور پر خود اپنا پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ ناسک ضلع کے تریمبکیشور تعلقہ کے تلواڈے تریمبک گاؤں کی ۳۲ سالہ آشا کارکن، چندرکلا گنگردے ۲۰۱۵ کا ایک واقعہ یاد کرتی ہیں: ’’رات کے ۸ بج رہے تھے جب یشودھرا سورے کو دردِ زہ شروع ہوا۔ ہم تقریباً ۴۵ منٹ تک ایمبولینس کا انتظار کرتے رہے۔ پھر میں نے پڑوس کے ایک بنگلے کے مالک سے پرائیویٹ گاڑی کرایے پر لی۔ ہم اسے ناسک کے سول اسپتال [تقریباً ۲۶ کلومیٹر دور] لے گئے۔ میں وہاں پوری رات رکی۔ اس نے ایک لڑکی کو جنم دیا، جو اب تین سال کی ہے۔‘‘
یشودھا (۲۵) کہتی ہیں، ’’میں چندرکلا تائی کی بہت شکر گزار ہوں۔ اسپتال اور ڈاکٹر ہماری پہنچ سے باہر تھے۔ لیکن تائی نے مدد کی۔‘‘ اس ’ادارہ جاتی زچگی‘ کو یقینی بنانے کے لیے، چندر کلا کو مرکزی حکومت کی جننی سرکشا یوجنا (جس کا مقصد ماں اور بچے کی شرح اموات کو کم کرنا ہے) کے تحت ۳۰۰ روپے اعزازیہ کے طور پر ملے۔ انھوں نے گاڑی کے مالک کو ۲۵۰ روپے دیے اور چائے اور بسکٹ پر ۵۰ روپے خرچ کیے۔
ایسے حالات میں آشا کارکن کو کبھی کبھی اسپتال میں رات بھر رہنا پڑتا ہے، جیسا کہ چندرکلا نے کیا۔ اس کا مطلب ہے کوئی کھانا نہیں، آرام کرنے کی کوئی جگہ نہیں۔ ’’ایمرجنسی میں، کھانا پیک کرنے کا وقت کس کے پاس ہوتا ہے؟ ہمیں اپنے بچوں اور فیملی کو پیچھے چھوڑنا پڑتا ہے۔ میں اس پوری رات جاگتی رہی، بستر کے بغل میں فرش پر ایک چادر بچھا کر لیٹی رہی،‘‘ چندرکلا کہتی ہیں، جو اپنے شوہر سنتوش کے ساتھ اپنے ایک ایکڑ کے کھیت میں گیہوں یا دھان کی کھیتی بھی کرتی ہیں۔ ’’ہمارے لیے، اتوار کوئی چیز نہیں ہے۔ ہمیں ہر وقت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کبھی بھی مجھے مدد کے لیے بلا سکتا ہے۔‘‘
چندرکلا امبولی پی ایچ سی کے تحت کام کرنے والی ۱۰ آشا کارکنوں میں سے ایک ہیں، جہاں وہ تریمبکیشور تعلقہ کے گاؤوں کی دیگر طبی ملازمین کے ساتھ مہینے میں دو بار میٹنگوں میں جاتی ہیں۔ ’’وہ سبھی یکساں تجربوں کی بات کرتی ہیں۔ آشا کارکن خود غریب فیملی سے ہیں۔ وہ خود اقتصادی طور پر جدوجہد کر رہی ہیں، لیکن گاؤں کو صحت مند رکھنے کے لیے کڑی محنت کرتی ہیں،‘‘ چندرکلا روتے ہوئے کہتی ہیں۔
دیگر آشا کارکنوں کی طرح، وہ بھی اپنے اعزازیہ میں اضافہ چاہتی ہیں۔ ’’یہ بہت بڑی مانگ نہیں ہے۔ اعزازیہ کو دوگنا کیا جانا چاہیے، سفر اور دیگر اخراجات کے لیے پیسہ ملنا چاہیے۔ اپنی ساری زندگی دوسروں کی صحت پر لگانے کے بعد، ہم کم از کم اتنا تو مانگ ہی سکتے ہیں،‘‘ چندرکلا ٹوٹی ہوئی آواز میں کہتی ہیں۔
آشا یونین اور تنظیم کئی آندولن کر چکے ہیں، یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ سرکار ان کا پیسہ بڑھائے اور ان کی دیگر تشویشوں کو دور کرے۔ ستمبر ۲۰۱۸ میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے کچھ لگاتار سرگرمیوں کے لیے ادائیگی – یا ’انسینٹو‘ – میں اضافہ کا اعلان کیا تھا؛ مثال کے طور پر، گاؤں کے ہیلتھ رجسٹر کو بنائے رکھنے کے لیے ۱۰۰ روپے کی بجائے ۳۰۰ روپے۔
لیکن طبی ملازمین اور آشا کارکنوں نے اس تجویز کی تنقید کی ہے۔ ’’ہم نے بار بار ۱۸۰۰۰ روپے کے ایک متعینہ [کم از کم] ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی بیمہ کور، پنشن، اور آشا کارکنوں کو مستقل [سہولیات کے ساتھ] کیا جائے۔ لگاتار انسینٹو بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا،‘‘ سانگلی میں مقیم شنکر پجاری کہتے ہیں، جو مہاراشٹر کی آشا کارکنوں اور طبی ملازمین کی تنظیم کے صدر ہیں۔
دریں اثنا، اراگ گاؤں کے پی ایچ سی میں اوما اور دیگر خواتین اس احتجاجی مظاہرہ کے بارے میں بات کر رہی ہیں، جسے آشا کارکن جنوری میں ممبئی میں منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ’’ایک اور آندولن،‘‘ اوما آہ بھرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’کیا کریں؟ آشا کارکن [جس کا مطلب ہے امید] صرف آشا پر ہی زندہ رہتی ہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)