’’میں نے سنا ہے کہ کئی لوگوں کو سرکاری اسکیموں کے توسط سے اچھی نوکریاں ملی ہیں اور انھوں نے اپنی زندگی میں اچھا کام کیا ہے،‘‘ گوری کہتی ہیں۔ ’’میں نے اسے ٹیلی ویژن پر اشتہارات میں دیکھا ہے۔‘‘
حالانکہ، گوری واگھیلا درحقیقت کسی ایسے شخص کو نہیں جانتیں، جس نے ریاست کی اسکیموں کے سبب یہ نوکریاں حاصل کی ہوں یا کچھ اچھا کیا ہو، جیسا کہ اشتہارات میں دعویٰ کیا جاتا ہے، اور خود ان کے اپنے کام کے متبادل بھی معمولی ہیں۔ ’’میں نے سرکار کے ذریعے چلایا جا رہا اسکل کورس کیا ہے اور سلائی مشین چلا سکتی ہوں،‘‘ ۱۹ سالہ گوری کہتی ہیں۔ ’’مجھے [ایک کپڑا کارخانہ میں] نوکری بھی ملی تھی۔ لیکن وہاں پر روزانہ ۸ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرنے کے محض ۴۰۰۰ روپے ماہانہ مل رہے تھے، اور وہ جگہ بھی میرے گھر سے چھ کلومیٹر دور تھی۔ تقریباً سارا پیسہ کھانا اور سفر پر خرچ ہو جاتا تھا۔ اس لیے میں نے دو مہینے کے بعد نوکری چھوڑ دی۔ ’’اب،‘‘ وہ ہنستی ہیں، ’’میں گھر پر ہوں اور پڑوسیوں کے لیے ۱۰۰ روپے فی جوڑی کے حساب سے کپڑے سلتی ہوں۔ لیکن یہاں کے لوگ سال بھر میں صرف دو جوڑی کپڑے بناتے ہیں، اس لیے میں زیادہ نہیں کما پاتی!‘‘
ہم گجرات کے کچھّ ضلع میں بھُج شہر کے رام نگری علاقے کی ایک جھُگّی بستی میں نوجوانوں خواتین کے ایک گروپ سے بات کر رہے ہیں۔ یہ بات چیت لوک سبھا انتخابات پر مرکوز ہے – یہاں ووٹنگ کی تاریخ آج، یعنی ۲۳ اپریل ہے۔
۲۰۱۴ کے انتخابات میں، کچھّ کے رجسٹرڈ تقریباً ۱۵ء۳۴ لاکھ ووٹروں میں سے ۹ء۴۷ لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاست کی سبھی ۲۶ لوک سبھا سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ کچھّ کے رکن پارلیمنٹ ونود چاوڑا نے اپنے قریبی حریف، کانگریس پارٹی کے ڈاکٹر دِنیش پرمار کو ڈھائی لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا تھا۔ اس کے علاوہ، ۲۰۱۷ میں گجرات کی ۱۸۲ سیٹوں والی اسمبلی کے انتخابات میں، بی جے پی کو جن ۹۹ حلقوں میں جیت حاصل ہوئی تھی، ان میں سے ایک بھُج بھی تھا۔ کانگریس کو اس الیکشن میں ۷۷ سیٹیں ملی تھیں۔
رام نگری کے زیادہ تر باشندے دیہی کچھّ کے مہاجر ہیں، جو کام کی تلاش میں آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی آبادی والے شہر (مردم شماری ۲۰۱۱)، بھُج میں ایسی ۷۸ کالونیاں ہیں جہاں دیہی گجرات کے مہاجر رہتے ہیں، بھُج میں خواتین کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم، کچھّ مہیلا وِکاس سنگٹھن کی کارگزار ڈائرکٹر ارونا ڈھولکیا بتاتی ہیں۔
رام نگری میں ہم جن ۱۳ خواتین سے ملے، وہ سبھی ۱۷ سے ۲۳ سال کی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی پیدائش یہیں ہوئی تھی اور کچھ اپنے والدین کے ساتھ بھُج آئی تھیں۔ ان میں سے صرف ایک، پوجا واگھیلا نے پہلے بھی ووٹ ڈالا ہے، ۲۰۱۷ کے اسمبلی انتخابات میں۔ گوری سمیت دیگر کسی نے بھی ووٹنگ کے لیے رجسٹریشن نہیں کرایا ہے، جب کہ ان کی عمر ۱۸ سال اور اس سے زیادہ ہے۔
سبھی پرائمری اسکول جا چکی ہیں، لیکن اس کے بعد ۵ویں اور ۸ویں کلاس کے بیچ ان میں سے زیادہ تر نے پڑھائی چھوڑ دی، جیسا کہ گوری نے کیا، انھوں نے بھُج تعلقہ کے کوڈکی گاؤں میں ریاست کے ذریعہ چلائے جا رہے بورڈنگ اسکول میں کلاس ۶ تک پڑھائی کی تھی۔ ان میں سے صرف ایک، گوری کی چھوٹی بہن، چمپا واگھیلا نے آگے کی پڑھائی کی ہے اور ابھی ۱۰ویں کلاس میں ہیں۔ آدھی خواتین ٹھیک سے پڑھ یا لکھ نہیں سکتیں، حالانکہ ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جنہوں نے ۵ویں کلاس تک پڑھائی کر رکھی ہے۔
ونیتا وڈھیارا کا اسکول جانا تب بند ہوا جب وہ ۵ویں کلاس میں تھیں۔ انھوں نے اپنے دادا دادی کو بتایا کہ انھیں ایک لڑکے سے ڈر ہے جو ہر جگہ ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے، تو انھوں نے ونیتا کو اسکول سے نکال لیا۔ وہ ایک اچھی گلوکارہ ہیں اور انھیں ایک میوزک گروپ کے ساتھ کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ’’لیکن گروپ میں کئی لڑکے تھے، اس لیے میرے والدین نے مجھے اجازت نہیں دی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ونیتا، اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ، باندھنی کا کام کرتی ہیں۔ کپڑے کے ۱۰۰۰ نقطوں کو باندھنے اور رنگنے کے انھیں ۱۵۰ روپے ملتے ہیں – اور وہ ایک مہینہ میں تقریباً ۱۰۰۰ روپے سے ۱۵۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔
۲۲ سال کی عمر میں بھی، وہ یہ نہیں دیکھ پا رہی ہیں کہ ووٹنگ ان کی زندگی میں کیا تبدیلی لا سکتی ہے۔ ’’ہم سبھی کے پاس کئی سالوں تک ٹوائلیٹ نہیں تھا اور کھلے میں رفع حاجت کے لیے ہمیں باہر جانا پڑتا تھا۔ ہم رات میں باہر جانے سے بہت ڈرتے تھے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پاس اب ٹوائلیٹ ہے [گھر کے ٹھیک باہر]، لیکن ان میں سے کئی [سیور لائن سے] جڑے نہیں ہیں، اس لیے ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ان جھگی بستیوں کے سب سے غریب لوگوں کو ابھی بھی کھلے میں رفع حاجت کرنا پڑتا ہے۔‘‘
یہاں جمع عورتوں کے کنبوں کے مرد باورچی، آٹورکشہ ڈرائیور، پھل فروش اور مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کئی نوجوان خواتین گھریلو ملازماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ’’میں اور میری ماں پارٹی کیٹررس کے لیے شام ۴ بجے سے آدھی رات تک کام کرتے ہیں، روٹیاں بناتے اور برتن دھوتے ہیں،‘‘ ۲۳ سالہ پوجا واگھیلا کہتی ہیں۔ ’’ایک دن کے کام کے لیے ہمیں صرف ۲۰۰ روپے [ہرایک کو] ملتے ہیں۔ اگر ہم کسی دن چھٹی کر لیں یا کام چھوڑ کر جلدی چلے جائیں، تو ہماری تنخواہ کٹ جاتی ہے۔ لیکن ہمیں زیادہ کام کے کبھی پیسے نہیں ملتے – اور ہمیں اکثر زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘
وہ اور دیگر سبھی خواتین محسوس کرتی ہیں کہ پارلیمنٹ کی خواتین رکن ان کے جیسی برادریوں کی تشویشوں کے تئیں زیادہ جوابدہ ہوں گی۔ ’’نیتا بننے کے لیے ہم غریب لوگوں کے پاس زیادہ پیسہ ہونا چاہیے،‘‘ گوری کہتی ہیں۔ ’’اگر پارلیمنٹ کا آدھا حصہ عورتوں پر مشتمل ہو، تو وہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جائیں گی اور پتہ کریں گی کہ عورتوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ ہو رہا ہے کہ اگر کوئی خاتون منتخب ہوتی بھی ہے، تو زیادہ اہمیت اس کے شوہر یا والد کو ملتی ہے اور پاور بھی انہی کے پاس رہتا ہے۔
’بڑی کمپنیاں اپنا دفاع خود کر سکتی ہیں، سرکار کو ان کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے ٹی وی خبروں میں سنا ہے کہ ان کے قرض معاف کر دیے گئے ہیں...‘
ان کا شک تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور، کچھّ ضلع کے نکھتارنا تعلقہ کے ڈاڈور گاؤں میں بھی گردش کر رہا ہے۔ اس لوک شاہی [جمہوریت] میں، لوگوں کو خریدا جاتا ہے – ان کے ووٹوں کے لیے ۵۰۰ روپے یا ۵۰۰۰ یا ۵۰ ہزار روپے تک میں بھی،‘‘ ۲۰ ایکڑ کھیت کے مالک کسان، ۶۵ سالہ حاجی ابراہیم غفور کہتے ہیں، جن کے پاس دو بھینسیں ہیں اور وہ ارنڈی کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’غریب لوگ تقسیم ہو جاتے ہیں، آدھے ایک طرف اور آدھے دوسری طرف، اور انھیں کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ برادری کے نیتا کو الیکشن لڑنے والے لوگوں سے پیسہ ملتا ہے۔ لیکن جو لوگ ووٹنگ کے لیے اس نیتا کے زیر اثر رہتے ہیں، انھیں کوئی حقیقی فائدہ نہیں ملتا ہے۔ وہ ووٹنگ میں عطیہ دے رہے ہیں۔‘‘
نندوبا جڈیجہ، جن سے ہم اسی تعلقہ کے گاؤں (وہ دیویسر گاؤں کی ہیں) میں ملے تھے، کے پاس سرکار کے لیے یہ صلاح ہے: ’’اگر وہ حقیقت میں لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو انھیں کسانوں اور دیہی باشندوں کے قرض معاف کر دینے چاہیے۔ ان کے ذریعہ کام کرنے کی وجہ سے ہی ہم زندہ ہیں – ہمیں کھانے کے لیے غذا اور پینے کے لیے دودھ ملتا ہے۔ سرکار سے میری گزارش ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کرے۔‘‘
نندوبا (۶۰)، کچھّ مہیلا وِکاس سنگٹھن کی خواتین کی اجتماعی شکل، سائییرے جو سنگٹھن کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ’’بڑی کمپنیں اپنا دفاع خود کر سکتی ہیں، سرکار کو ان کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ وہ آگے کہتی ہیں۔ ’’میں نے ٹی وی خبروں میں سنا ہے کہ ان کے قرض سرکار کے ذریعہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ اور جب کسان قرض معافی کے لیے کہتے ہیں، تو سرکار ان سے کہتی ہے کہ یہ ان کے ضابطوں کے مطابق نہیں ہے! اس ملک میں لوگ زراعت کے سبب زندہ ہیں۔ وہ اس پلاسٹک کو نہیں کھا سکتے جو کمپنیاں بناتی ہیں۔‘‘
رام نگری سے ڈاڈور اور وانگ تک، لوگوں کے ذریعہ بیان کیے گئے ایشوز ظاہر ہیں۔ لیکن، حالیہ انتخابی تاریخ کو دیکھیں تو کیا ووٹنگ کے رحجان اُن ایشوز کے ساتھ تال میل بنائیں گے؟
مصنفہ بھُج کے کچھّ مہیلا وِکاس سنگٹھن کی ٹیم، خاص طور سے کی وی ایم ایس کی سکھی سنگنی کی شبانہ پٹھان اور راجوی رباری، اور نکھترانا، کچھّ میں تنظیم کے سائییرے جو سنگٹھن کی حکیمہ بائی تھیبا کا ان کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)