یہ صحیح معنوں میں ہاٹ (دیہی بازار) ہیں۔ اور یہ بازار دہلی میں، ہفتہ میں ہر روز کہیں نہ کہیں لگتے ہیں۔ سامان اور انھیں بیچنے والے ایک ہی ہوتے ہیں، صرف اس شہر میں جگہ بدلتی رہتی ہے۔ اسٹائل پوری طرح سے شہری ہے، لیکن اس میں شامل لوگ عام طور پر اتر پردیش یا دوسری جگہوں سے یہاں آکر بسنے والے لوگ ہیں، جو راجدھانی میں تیزی سے دیہی روایت کو عروج دینے میں مصروف ہیں۔
نوئیڈا۔ کوٹا۔ اینٹا۔ رشی کیش۔ شملہ۔ چنڈی گڑھ۔ ڈھینکنال۔ ممبئی۔ لندن۔ دہلی۔ میری اب تک کی زندگی ان شہروں کا چکر کاٹتے گزری ہے۔ یہ سبھی جگہیں کبھی نہ کبھی میرا گھر ہوا کرتی تھیں، صرف انھیں گھر کہنے کا سلسلہ بدلتا رہا۔
ہر بار جب میں ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ
منتقل ہوئی، مجھے اپنے گھر کی یاد ستاتی رہی، حالانکہ یہ وہ گھر تھے، جہاں میں
دوبارہ کبھی واپس نہیں لوٹ سکتی تھی۔
چھوٹے قصبوں کے اپنے گھروں سے دور ہونے کے بعد،
اب مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ میرے لیے وہ کتنے اہم تھے، مجھے ان کی یاد کتنی ستا
رہی ہے اور اب میں جن بڑے شہروں میں رہ رہی ہوں، وہاں کے ماحول میں خود کو ڈھالنا
کتنا مشکل ہو رہا ہے۔
مجھے یہاں ایسا مسحوس ہو رہا ہے گویا بڑے شہروں
کے اونچے اونچے مالس میری یادداشت میں محفوظ ماضی کے بازاروں کا گرہن ہیں، ماضی کے
وہ بازار جہاں میں بچپن میں اکثر جایا کرتی تھی؛ ہفتہ وار بازار، جنھیں عرفِ عام میں
ہاٹ کہا جاتا ہے۔
یہ ہاٹ شہر کی متعدد رہائشی کالونیوں میں کسی نہ
کسی طے شدہ دن لگتے ہیں۔
کاروباری ایک ہیں، سامان ایک ہیں، صرف جگہیں
بدلتی رہتی ہیں۔
ان سفری بازاروں کے کچھ کاروباریوں سے دوستانہ
بات چیت کے دوران، مجھے اس بات کا علم ہوا کہ وہ اپنی تجارت کو زندہ رکھنے کے لیے
کتنی جدوجہد کر رہے ہیں۔
۶۴ سالہ معز الحق مدنگیر کا رہنے والا ہے، جو پیسہ کمانے
کے لیے ہفتہ بھر سفر کرتا رہتا ہے۔ ’’میں یہ کام پچھلے تیس سال سے کر رہا ہوں، اور
میں نے یہاں چیزوں کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے،‘‘ حق تفصیل بتاتا ہے۔
وہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ کیسے پہلے کے
مقابلے اس کے سامانوں کی فروخت میں ۶۰ سے ۷۰ فیصد کی کمی آئی ہے۔ پیر کی شام کو،
جنوبی دہلی کے پشپ وِہار میں ۸ بائی ۱۸ فٹ کی اپنی چلتی پھرتی دکان کے لوہے کے
سریوں کو بغیر تھکے ہوئے فٹ کرتے ہوئے، حق گہری سانس بھرتا ہے اور پاس کے مال کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’اس نے میرے ۶۰ فیصد صارفین کو چھین لیا ہے۔‘‘
دوسرے کاروباری بھی حق کی اس تشویش کو دوہراتے
ہیں۔ ’’نئی نسل برانڈ کے پیچھے پاگل ہوئی پڑی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ ان کے
’اسٹیٹس سمبل‘ میں اضافہ کرتا ہے،‘‘ کاسمیٹک کی دکان چلانے والا مہیش بتاتا ہے۔
اس بات کا یقین دلانے کے لیے اس کے سامان اصلی
ہیں، اس نے اپنی دکان کا نام ’مہیش کاسمیٹکس‘ سے بدل کر ’ہالی ووڈ۔ بالی ووڈ
کاسمیٹکس شاپ‘ کر دیا ہے۔
مختلف قسم کی ڈھیر ساری اشیاء ہونے کے باوجود،
خریدار اِن بازاروں میں کم آتے ہیں۔ ’’ہم سڑک کے کنارے اپنی دُکانیں لگاتے ہیں اور
مال کی دُکانوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہم صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے
صارفین کو کیسے چُرا رہے ہیں،‘‘ احمد اپنے احساس کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے، جو
مناسب قیمت پر خوبصورت کمبل بیچ رہا ہے۔
نوجوانوں کی قوتِ خرید جیسے جیسے بڑھ رہی ہیں، وہ خریداری کے لیے اچھی جگہوں کی تلاش میں ہیں، ایسی جگہ جہاں میٹل ڈٹیکٹر لگے ہوں، مجسموں کو مختلف قسم کے کپڑے وغیرہ پہناکر نمائش کے لیے لگائے گئے ہوں اور ہائی برانڈ کے شاپنگ بیگ سے گھرے ہوئے ہوں۔
ان بازاروں میں چہل قدمی کرنے کے بعد آپ کو یہ
محسوس ہو جائے گا کہ ان روایتی بازاروں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت کیوں ہے۔ دہلی پر
لکھی گئی کتابوں میں درج ہے کہ ان بازاروں کو لازمی طور پر بچائے رکھنے کی ضرورت
ہے، کیوں کہ یہ ہماری تاریخ، روایت اور ثقافت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن میں،
ذاتی طور پر انھیں اس لیے برقرار رہتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں، کیوں کہ میں اپنی
ماضی کو تازہ رکھنا چاہتی ہوں۔
بازار:
اتوار ۔ آر کے پورم؛ دریا گنج
پیر ۔ پشپ وہار؛ قرول باغ؛ وکاس پوری
منگل ۔ سیکٹر ۔۲ نوئیڈا؛ تلک نگر
بدھ ۔ صادق نگر؛ گووند پوری؛ وسنت وہار؛ شیام پتھ؛ موتی نگر؛ رانی باغ
جمعرات ۔ مسجد موٹھ؛ میور وِہار؛ راجندر نگر؛ رمیش نگر
جمعہ ۔ ویسٹ پٹیل نگر؛ وکرم انکلیو؛ سنجے نگر؛ محمدپور؛ راجوری
ہفتہ ۔ سریتا وِہار؛ ایسٹ آف کیلاش؛ لاجپت نگر؛ وجے نگر؛ کرم پورہ
تمام تصویریں: بایا اگروال
یہ مضمون سب سے پہلے لونلی پلینٹ پر شائع ہوا:
http://www.lonelyplanet.in/articles/7468/colourful-bazaars-of-delhi-in-moving-images