بابورجی
اپنے گھر کی طرف جانے والے راستے میں تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں
بملی اور بابورجی کسکو، جو سنتال میاں بیوی ہیں، جھارکھنڈ کی سرحد کے قریب مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع میں گاریا گاؤں میں رہتے ہیں۔ چند سال قبل، بابورجی نے اس احتجاج میں قائدانہ رول ادا کیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے گاؤں اور دیگر مقامات پر پتھر کی کانوں اور کرشر کی تعمیر کا کام روک دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں، گاریا گاؤں کے رہنے والے اپنے کھیتوں میں اب بھی دھان اور دیگر فصلیں اُگا سکتے ہیں۔
بیل کی
پیٹھ تھپتھپاتا ہوا اس کا مالک
بابور جی سال میں صرف ایک بار کھیتی کرتے ہیں، مانسون کے موسم میں، جب وہ اپنے بیلوں کا استعمال کھیت جوتنے میں کرتے ہیں۔ وہ ایک مقامی پرائمری اسکول میں بچوں کو پڑھاتے بھی ہیں۔ اس علاقہ کے زیادہ تر گاؤوں میں زمین کاشت کاری کے لیے لائق نہیں ہے، کیوں کہ کانوں میں دھماکہ کرنے کی وجہ سے پتھر کھیتوں میں بکھر گئے ہیں، جب کہ تمام پودے کرشر (پتھر کوٹنے والی مشین) سے نکلنے والی دھول سے اَٹے پڑے ہوئے ہیں۔ گاریاں گاؤں حالانکہ ان پرانے مقامات سے کافی دور ہے، اسی لیے کان کے آس پاس کے علاقوں کی بہ نسبت یہ راحت و سکون کا گہوارہ ہے۔
گاریا
کے دھان کے کھیت: تھوڑے فاصلہ پر دُمکا، جھارکھنڈ کی پہاڑی نظر آ رہی ہے
بملی جھارکھنڈ کی رہنے والی ہیں اور بعض سنتال روایتوں پر عمل کرتی ہیں، جیسے ہر سال زمین کی مختلف قسموں سے ماخوذ رنگوں سے گھر کی رنگائی کرنا۔ وہ بنگالی بہت کم بول پاتی ہیں، اس لیے ہمیں ان سے بات چیت کرنے میں دقت ہو رہی ہے، لیکن وہ خوشی خوشی وہ گیلی مٹی دکھاتی ہیں، جہاں سے انھوں نے مختلف قسم کے یہ رنگ اخذ کیے ہیں۔
بملی
اپنے ہاتھ میں گوندھی ہوئی پیلی مٹی پکڑے ہوئی ہیں، جس سے انھوں نے دیوار پر یہ
پیلی لائن بنائی ہے۔ کھمبے پر نیلے اور سبز رنگ کی پٹی اس میں نیل ملانے سے بنتی
ہے؛ بقیہ تمام رنگ زمین سے لے گئے ہیں
جانوروں
کا گھر جس میں دو بیل کھڑے ہیں۔ نیلے رنگ کی پُتائی سفیدی مائل ایک قسم کی مٹی سے
ہوتی ہے
میاں بیوی کی دو نوجوان لڑکیاں ہیں، سونالی اور میتالی۔ بابورجی کی بڑی بہن کے شوہر کا جب انتقال ہوگیا، تو انہوں نے اپنی بیوہ بہن کی ایک بیٹی کو گود لے لیا اور اس کی پرورش و پرداخت کی۔ اب وہ ۲۰ سال کی ہو چکی ہے اور انہی کے ساتھ رہتی ہے۔ بابورجی اپنی بڑی بہن اور ان کی دو اولاد، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
سونالی،
میاں بیوی کی بڑی بیٹی، پڑوس کے ایک بچہ کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس کے پیچھے رسیوں
سے اناج بنانے کا ایک خانہ تیار کیا گیا ہے، جس میں فیملی کا چاول رکھا ہوا ہے، یہ
اتنا کس کر بُنا گیا ہے کہ اس کے اندر چوہا بھی نہیں گھس سکتا
بملی
اپنے مکان کی نچلی منزل کے بیڈ روم میں، چھوٹی بیٹی میتالی کے ساتھ تصویر کھنچواتے
ہوئے۔ کیمرہ کو دیکھ کر وہ بے حس و حرکت ہو جاتی ہیں
بابورجی
بالا خانہ کی وسیع و عرض جگہ اور کھلی ہوا میں (بائیں) سوتے ہیں۔ جس کمرہ کی دو
کھڑکیوں میں سے ایک (دائیں) سے آپ رسیوں سے بنے اناج کے خانہ کو نیچے دیکھ سکتے
ہیں
بابورجی
کی بوڑھی ماں آنگن میں بیٹھی ہوئی سورج کے ڈوبنے کا انتظار کر رہی ہیں
بابورجی اپنی ماں کی داستان کا ترجمہ کر رہے ہیں، جس میں ان کی ماں اپنے چھوٹے بیٹے کے کھونے کا درد ہمیں سنا رہی ہیں۔ پتھر کی کانوں کے خلاف احتجاج اس وقت انتشار کا شکار ہوگیا، جب پتھر کان مالک اپنے متعدد لیڈروں اور اپنے پیروکاروں کو وہاں لے کر پہنچ گئے۔ بابورجی کو یہ دیکھ کر کافی صدمہ پہنچا کہ ان لوگوں میں ان کا چھوٹا بھائی بھی شامل تھا۔ اس سے بھی برا یہ ہوا کہ ان کے چھوٹے بھائی کو یہ معلوم تھا کہ پہلے سے حملہ کرنے کی تیاری ہو چکی ہے، جس میں بابورجی کی اس لیے جم کر پٹائی ہوئی کہ وہ لگاتار پتھر کانوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، لیکن اس نے اپنے بھائی کو حملہ کے اس منصوبہ کے بارے میں کوئی اطلاع پہلے نہیں دی تھی۔ اس وقت چونکہ ماں بابورجی کے ساتھ تھیں، اور ان تمام چیزوں کے خلاف تھیں جنہیں وہ غلط سمجھتی تھیں، اس لیے چھوٹے بیٹے نے اب اپنی ماں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔
بابورجی
کی ماں کو اس بات کا گہرا صدمہ پہنچا ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے سے جدا ہوگئی ہیں
خود بابورجی کو کئی لاکھ روپیوں کی لالچ دی گئی کہ وہ پتھر کی صنعت کی مخالفت کرنا چھوڑ دیں۔ لیکن، ایک المناک واقعہ ان کی بچپن کی یادداشت سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اسے موٹی رقم سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ جب وہ صرف آٹھ سال کے تھے، تو انھوں نے پتھر کوٹنے والی مشین (کرشر) میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ مزدوروں کو اس جگہ سے پتھر اٹھاکر لانے پڑتے تھے، جہاں ٹرک انھیں گراکر چلا جاتا تھا۔ یہ مزدور ان پتھروں کو ٹوکری میں بھر کر اپنے سر پر اٹھا کر لاتے تھے، اور پھر اس جگہ لاکر پٹخ دیتے تھے، جہاں سے انھیں مشینوں میں کوٹنے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔
کرشر سے نکلنے والی دھول کی وجہ سے اتنا گرد و غبار ہو جاتا تھا کہ انھیں اپنی آنکھیں بھی کھولنی مشکل ہو جاتی تھیں۔ ’’میں وہاں کام نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن ہم اتنے غریب تھے کہ مجھے یہ سب کرنا پڑا،‘‘ بابورجی اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس اتنا چھوٹا سا کھیت تھا کہ مجھے صرف کچھ ہی ٹوٹے ہوئے چاول کھانے کو مل پاتے تھے۔ میں ہمیشہ بھوکا رہتا تھا۔ میں کرشر سے کماکر جو بھی پیسہ لاتا، ایک دن میں ۹ روپے، اس سے مجھے کم از کم سبزی اور چاول ضرور مل جاتا تھا۔‘‘ ایک ٹرک مزدوروں کو لینے کے لیے صبح ۷ بجے آتا تھا اور رات میں ۸ یا ۹ بجے ہمیں گاریا میں چھوڑ جاتا تھا۔
چند برسوں کے بعد، بابورجی خوش قسمتی سے پاس کے ایک قصبہ میں واقع آشرم اسکول میں داخل ہو گئے، جہاں انھیں فیس کے بدلے نوکر کے طور پر کام کرنا پڑتا تھا: جیسے جھاڑو پونچھا لگانا، برتن دھونا اور اسی قسم کے دیگر کام کرنا۔ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی انھیں پتہ چلا کہ ان کے ۱۰ سالہ چچیرے بھائی گرگو کی موت کرشر میں دبنے سے ہوگئی ہے۔
گرگو مشین کی بیلٹ پر پتھر رکھ ہی رہا تھا کہ اس کا رومال (گمچھا) اس میں پھنس گیا۔ یہ رومال اس نے دھول سے بچنے کے لیے اپنے چہرے پر لپیٹ رکھا تھا۔ اس کی وجہ سے گرگو مشین میں پھنس گیا۔ اس کے والد پاس ہی میں کام کر رہے تھے، وہ اسے بچانے کے لیے دوڑ کر آئے، لیکن کرشر نے ان کو بھی اپنی چپیٹ میں لے لیا اور اس طرح دونوں کی وہیں موت ہو گئی۔ ’’میں گھر گیا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے گوشت کے ٹکڑے ایک کپڑے پر بکھرے ہوئے ہیں،‘‘ بابورجی نے بتایا۔ ’’یہی ٹکڑے وہ اس مشین سے جمع کر سکے تھے۔ کرشر کے مالکوں نے میری چچی کو کچھ پیسوں کی پیشکش کی اور کہا کہ ان پیسوں سے وہ کچھ زمین خرید سکتی ہیں۔ لیکن، انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ انھوں نے کہا، ’اگر میں ان پیسوں سے زمین خریدوں گی، تو جب جب میری نظر اس زمین پر پڑے گی، میرے ذہن میں اپنے جسم کا خیال آئے گا‘۔‘‘
بملی
اپنے کالے رنگ کے مٹی کے چولھے میں آگ جلاتی ہیں، تاکہ ہمارے لیے چائے بنا سکیں
ہم جب بات کر رہے ہیں، بملی اپنے کھلے ہوئے چولھے میں آگ جلاتی ہیں، جو کہ برآمدے میں رکھا ہوا ہے، تاکہ ہمارے لیے چائے بنا سکیں اور چینی کے ساتھ لیکن دودھ کے بغیر ہماری خدمت میں پیش کر سکیں۔ سنتال دودھ نہیں پیتے، مجھے یہ بتایا گیا، کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ دودھ پر صرف بچھڑے کا حق ہوتا ہے، اسے کھیت جوتنا ہوتا ہے اس لیے اسے مضبوط و توانا بننے کے لیے اپنی ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ روایتی طور پر کم از کم، سنتال بیف (جانور کا گوشت) ضرور کھاتے ہیں، خاص کر تہوار کے موسم میں، جب بھینسے کی بلی چڑھائی جاتی ہے دیویوں پر، لیکن اپنے ہندو پڑوسیوں کی مخالفت کی وجہ سے اب یہ رسم ختم ہوتی جا رہی ہے۔
میں نے بابورجی سے سوال کیا کہ پتھر کی کانوں کے خلاف انھوں نے جو احتجاج کیا تھا، اس کا کوئی فائدہ ہوا۔ آخر اس کی وجہ سے انھیں اپنے بھائی کو کھونا پڑا، جس سے وہ کافی محبت کرتے تھے۔ ’’جی ہاں،‘‘ بابورجی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔ ’’گاؤں کو فائدہ ہوا ہے۔ جو چیز کمیونٹی کے لیے اچھی ہے، وہ میرے لیے بھی اچھی ہے۔‘‘
بملی
اور میتالی اپنے آنگن میں
پھر بھی، نسبتاً بغیر شور شرابے والی اور خوشحال جگہ پر رہنا ہی کافی نہیں ہے۔ ’’میری بیٹیاں بڑی ہو رہی ہیں۔ ایک دن ان کی شادی ہو جائے گی اور وہ دوسرے گاؤوں چلی جائیں گی۔ اگر ان کے نئے گھر پر حملہ ہوگیا، تب کیا ہوگا؟ جب ہر جگہ تباہی اور لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو، تو ویسی حالت میں میں بھلا چین سے کیسے رہ سکتا ہوں؟‘‘
چائے کے لیے بملی کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے ان سے اجازت چاہی، لیکن اس سے پہلے میں نے پیارے بیل کی کئی اور تصویریں بھی کھینچیں۔ تمام تر پریشانیوں کے باوجود، اس گھر میں ایک چیز جو بہتات کے ساتھ موجود ہے، وہ ہے پیار۔
ایک
بیل اپنی گردن باہر نکالتا ہے، تاکہ بابورجی اور بملی اسے پیار سے سہلائیں
یہ بھی پڑھیں: Dynamiting for Development
مدھوشری ایک قلم کار، ایڈیٹر، محقق اور ’چرچلس سیکریٹ وار‘ کی مصنفہ ہیں