’’میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے،‘‘ ناسک ضلع کے ڈنڈوری تعلقہ کے اہیونت واڑی گاؤں کی ۵۰ سالہ ایک کسان، کُنڈا بائی گنگوڈے نے کہا۔ تب دوپہر کے تقریباً ڈیڑھ بج رہے تھے۔ ’’میں تبھی کھاؤں گی جب میرے گاؤں کے لوگ یہاں پہنچ جائیں گے۔‘‘
کُنڈا بائی کئی دیگر خواتین اور مردوں کے ساتھ ۵۰ کسانوں کے لیے چاول پکا رہی تھیں، یہ لوگ پچھلے ہفتہ احتجاجی مارچ میں شامل کسانوں کا کھانا تیار کرنے کے لیے اپنے تعلقہ کی ٹیم سے پہلے یہاں آ گئے تھے۔ پاس میں، گنگو بائی بھوار (اوپر کے کور فوٹو میں)، جو ناسک کے ڈنڈوری تعلقہ کے سون جامب گاؤں سے آئی تھیں، بینگن اور آلو پکا رہی تھیں۔ ’’ہمارے تعلقہ کے کسان اناج، آٹا اور سبزیاں لائے ہیں،‘‘ انھوں نے بتایا۔
۲۱ فروری کو ناسک سے ۱۱ کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد، یہ کسان دوپہر کو تقریباً ڈھائی بجے ناسک تعلقہ کے وِلہولی گاؤں سے ایک کلومیٹر دور کھانا کھانے کے لیے رکے۔ وہ ۲۰ فروری کو اپنے گاؤوں سے ناسک پہنچے تھے۔ (۲۱ فروری کو دیر رات، مارچ کی منتظم آل انڈیا کسان سبھا نے، سرکار کے نمائندوں کے ساتھ لمبی بات چیت کے بعد احتجاجی مارچ کو ختم کر دیا جب انھوں نے تحریری یقین دہانی کرائی کہ سرکار کسانوں کے سبھی مطالبات کو پورا کرے گی)۔
۲۰۱۸ میں ناسک سے ممبئی تک کے لمبے مارچ کے دوران بھی، کُنڈا بائی نے اپنے گاؤں کے لوگوں کے لیے کھانا بنایا تھا۔ ان کا تعلق مہادیو کولی برادری سے ہے، جو کہ ایک درج فہرست ذات ہے۔
اس بار بھی، کسانوں نے مشترکہ طور پر اپنے گاؤوں میں اناج جمع کیا اور ٹیمپو اور دیگر گاڑیوں سے انھیں لے کر آئے۔ پچھلے لمبے مارچ کی طرح ہی، انھوں نے کاموں کو آپس میں بانٹ لیا تھا۔ کچھ اناج کی صفائی کر رہے تھے، کچھ بھاکھری کے لیے آٹا گوندھ رہے تھے، کچھ کھانا پکا رہے تھے یا برتن دھو رہے تھے۔
ان میں سے ایک، ناسک ضلع کے پینٹھ تعلقہ کے نرگوڈے کرنجلی گاؤں کے پانڈو رنگ پوار بھی تھے۔ انھوں نے تقریباً ۹۰ منٹ تک کڑی محنت کے بعد، جلانے کے لیے ۱۵ کلو لکڑی چیر کر جمع کی۔ پانڈو رنگ ایک زرعی مزدور ہیں، اور دن میں ۱۰ گھنٹے کام کرنے کے بعد تقریباً ۲۰۰ روپے یومیہ مزدوری پاتے ہیں۔ وہ کوکنا برادری سے ہیں، جو ایک درج فہرست ذات ہے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مارچ کے لیے دوبارہ کیوں آئے ہیں، تو انھوں نے کہا، ’’سرکار نے اپنے کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ ہمیں راشن نہیں ملتا۔ ہمارے پاس کوئی زرعی زمین نہیں ہے۔ ہم کیا کریں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اگر اس بار بھی سرکار اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتی ہے، تو وہ تیسرے مارچ کے لیے بھی تیار ہیں، جس میں ’’ہم بچوں اور کھیت کے جانوروں سمیت پوری فیملی کو لائیں گے۔ ہم اب نہیں رکیں گے...‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)