صبح کے ۶ بجے رہے ہیں اور سرنّیا بلرامن، گومیڈی پونڈی میں اپنے گھر سے پہلے ہی روانہ ہو چکی ہیں۔ چنئی کے قریب ایک چھوٹے سے شہر، تیروولور کے ریلوے اسٹیشن سے وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ ایک مقامی ٹرین میں سوار ہوتی ہیں۔ تقریباً دو گھنٹے بعد وہ ۴۰ کلومیٹر دور، چنئی سنٹرل ریلوے اسٹیشن پہنچتی ہیں۔ یہاں سے، ماں اور بچے ایک دوسری لوکل ٹرین سے مزید ۱۰ سے ۱۲ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں، تب جا کر وہ اسکول پہنچتے ہیں۔
شام کو ۴ بجے، وہ دوبارہ اسی طریقے سے واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں اور ۷ بجے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔
گھر سے اسکول جانے اور پھر اسکول سے واپس گھر لوٹنے میں انہیں ۱۰۰ کلومیٹر سے زیادہ کی دوری طے کرنی پڑتی ہے، اور یہ سفر انہیں ہفتہ میں پانچ بار کرنا پڑتا ہے۔ سرنّیا کے لیے یہ کافی مزیدار ہے، جیسا کہ وہ بتاتی ہیں: ’’پہلے [جب ان کی شادی نہیں ہوئی تھی]، مجھے معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کہاں سے بس یا ٹرین پکڑنی ہے۔ یا، کہاں پر اترنا ہے۔‘‘
سرنّیا کی یہ جدوجہد ان کے تین بچوں کے لیے ہے، جو پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پہلی بار جب انہوں نے یہ سفر شروع کیا تھا، تو ایک مامی (بزرگ خاتون) انہیں راستہ دکھانے کے لیے ان کے ساتھ آئی تھیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ کیے جانے والے اس سفر کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ’’اگلے دن، جب میں نے ان سے دوبارہ اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ کام ہے۔ میں رونے لگی۔ سفر کرنے میں مجھے کافی دقت ہوئی۔‘‘
انہوں نے اپنے تینوں بچوں کو باقاعدہ تعلیم دلوانے کے لیے پختہ ارادہ کر لیا تھا، لیکن ان کے گھر کے قریب نابینا بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہمارے گھر کے قریب ایک بڑا [پرائیویٹ] اسکول ہے۔ میں اس اسکول میں گئی اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ میرے بچوں کو اپنے یہاں لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ انہیں لے لیتے ہیں، تو دوسرے بچے ان کی آنکھوں میں پنسل یا کوئی دھاردار چیز چبھو سکتے ہیں، اور انہیں اس کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘‘
سرنّیا نے ٹیچروں سے مشورہ لیا، اور نابینا بچوں کے لیے بنائے گئے اسکول کی تلاش میں نکل پڑیں۔ چنئی میں بینائی سے معذور بچوں کے لیے صرف ایک سرکاری اسکول ہے، جو ان کے گھر سے ۴۰ کلومیٹر دور، پونملّی میں واقع ہے۔ پڑوسیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں کا داخلہ شہر کے پرائیویٹ اسکولوں میں کرائیں تو بہتر رہے گا؛ لہٰذا انہوں نے وہاں جا کر ان اسکولوں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔
ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے، وہ کہتی ہیں، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے۔‘‘ نوجوان خاتون جنہوں نے ’’شادی سے پہلے زیادہ تر وقت اپنے گھر پر ہی گزارا تھا،‘‘ اب اسکولوں کی تلاش میں گھر سے باہر نکل پڑی تھیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’شادی کے بعد بھی، مجھے اکیلے سفر کرنا نہیں آتا تھا۔‘‘
جنوبی چنئی کے ادیار علاقے میں سرنّیا کو سماعت اور بینائی سے محروم بچوں کے لیے بنایا گیا سینٹ لوئس انسٹی ٹیوٹ مل گیا؛ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کا داخلہ یہیں کرا دیا۔ اس کے بعد، انہوں نے اپنی بیٹی کا داخلہ لٹل فلاور کانوینٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں کرایا، جو پاس میں ہی جی این چیٹی روڈ پر ہے۔ آج، سب سے بڑا بیٹا، ایم میشک ۸ویں کلاس میں ہے، دوسرا بچہ ایم منسے ۶ویں کلاس میں ہے اور سب سے چھوٹی ایم لیبنا تیسری کلاس میں پڑھ رہی ہے۔
لیکن انہیں اسکول بھیجنے کا مطلب تھا ٹرین کا لمبا سفر طے کرنا، جو تھکا دینے والا، تناؤ بھرا اور اکثر بہت زیادہ پریشان کن ہوتا ہے۔ سفر کے دوران چنئی سنٹرل ریلوے اسٹیشن پر بڑے لڑکے کو اکثر مرگی کا دورہ پڑنے لگتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا…اسی مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ میں اسے اپنی گود میں پکڑ لیتی ہوں تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے۔ کچھ دیر بعد، میں اسے لے کر آگے کا سفر جاری رکھتی ہوں۔‘‘
بچوں کے لیے رہائشی اسکول کوئی متبادل نہیں تھا۔ بڑے بیٹے کو سخت نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اسے دن میں تین سے چار بار مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ میرا دوسرا بچہ [منسے] میری غیر موجودگی میں کچھ کھاتا نہیں ہے۔‘‘
*****
سرنیا کی شادی ۱۷ سال سے کم عمر میں ان کے ماموں، موتھو سے کر دی گئی تھی۔ تمل ناڈو میں پس ماندہ طبقہ (بی سی) کے طور پر درج، ریڈی برادری میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ شادیوں کا رواج عام ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے والد فیملی کے رشتہ کو توڑنا نہیں چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے میرے ماما [ماموں] سے میری شادی کر دی۔ میں ایک مشترکہ فیملی میں رہتی تھی۔ میرے چار تائی ماما [ماموں] تھے، جن میں سے میرے شوہر سب سے چھوٹے تھے۔‘‘
پچیس سال کی عمر میں سرنیا تین بچوں کی ماں بن گئیں، اور یہ سبھی نابینا پیدا ہوئے تھے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پہلے بیٹے کو جنم دینے سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ بچے اس طرح سے [بینائی کے بغیر] بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جب وہ پیدا ہوا تو میں ۱۸ سال کی تھی۔ اس کی آنکھیں گڑیا (کھلونے) جیسی دکھائی دے رہی تھیں۔ ایسا میں نے صرف بزرگ لوگوں میں دیکھا تھا۔‘‘
دوسرے بیٹے کی پیدائش کے وقت وہ ۲۱ سال کی ہو چکی تھیں۔ سرنیا کہتی ہیں، ’’میں نے سوچا کہ شاید دوسرا بچہ نارمل ہوگا، لیکن پانچ مہینے کے اندر مجھے محسوس ہوا کہ اس بچے کو بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔‘‘ دوسرا بچہ جب دو سال کا ہو گیا، تو سرنیا کے شوہر ایک حادثہ کے شکار ہونے کے بعد کوما میں چلے گئے۔ صحت یاب ہونے کے بعد، سرنیا کے والد نے ٹرکوں کے لیے ایک چھوٹی سی میکینک کی دکان کھلوانے میں ان کی مدد کی۔
اس حادثہ کے دو سال بعد، سرنیا نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے سوچا کہ یہ تندرست ہوگی… لوگوں نے مجھے ان تینوں بچوں کے نابینا پیدا ہونے کے بارے میں بتایا کہ خون والے رشتہ میں شادی کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ کاش کہ مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا۔‘‘
اپنے سب سے بڑے بیٹے کی مرگی کے دورے کا علاج کرانے پر سرنیا ہر مہینے ۱۵۰۰ روپے خرچ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، دونوں بیٹوں کی سالانہ اسکول فیس پر انہیں ۸۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں؛ ان کی بیٹی کا اسکول ان سے کوئی فیس نہیں لیتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے شوہر ہم سب کا خیال رکھتے تھے۔ وہ دن میں ۵۰۰ سے ۶۰۰ روپے کماتے تھے۔‘‘
سال ۲۰۲۱ میں جب دل کا دورہ پڑنے سے ان کے شوہر کی موت ہو گئی، تو سرنیا اسی علاقے میں واقع اپنے میکے (والدین کے گھر) چلی گئیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب، ماں باپ کا ہی سہارا رہ گیا ہے۔ مجھے یہ سب [بچوں کی پرورش کا کام] اکیلے ہی سنبھالنا ہے۔ میں ہنسنا بھول گئی ہوں۔‘‘
سرنیا کے والد ایک پاورلوم فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور پورے مہینہ کام کرنے کی حالت میں ہونے پر ۱۵۰۰۰ روپے ماہانہ کما لیتے ہیں۔ ان کی ماں کو جسمانی طور سے معذور افراد کو ملنے والا ۱۰۰۰ روپے کا ماہانہ پنشن ملتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے والد اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ وہ تیسوں دن کام کے لیے نہیں جا سکتے اور اس لیے ہمارا خرچ بھی نہیں سنبھال سکتے۔ مجھے ہر وقت بچوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے، مجھے کوئی نوکری نہیں مل رہی ہے۔‘‘ انہیں اگر کوئی سرکاری نوکری مل جائے تو اس سے ان کا کام چل جائے گا، جس کے لیے انہوں نے عرضی بھی لگائی ہے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہو پایا ہے۔
اپنی پریشانیوں سے روزانہ سامنا کرنے کی وجہ سے سرنیا کے دماغ میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اپنی بیٹی کی وجہ سے میں ابھی تک زندہ ہوں۔ وہ مجھ سے کہتی ہے، ’ہمارے پاپا ہم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ہمیں کم از کم کچھ سالوں تک زندہ رہنا چاہیے اور اس کے بعد [دنیا سے] جانا چاہیے۔‘‘
یہ اسٹوری سب سے پہلے تمل میں لکھی گئی تھی، جس کے بعد اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز