’’میں اپنے پوتے/پوتیوں کے لیے آئی ہوں،‘‘ گنگوتائی چندر وارگھڑے کہتی ہیں، جن کی عمر تقریباً ۶۰ سال ہے۔ ’’شاید میرا چلنا ان کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔‘‘
گنگوتائی مہادیو کولی برادری، ایک درج فہرست ذات، کی ایک زرعی مزدور ہیں۔ وہ پال گھر کے منجوشی میٹا گاؤں میں رہتی ہیں، جو بنیادی طور پر مہاراشٹر کا ایک آدیواسی ساحلی ضلع ہے۔
ناسک میں بس اسٹینڈ سے ملحق ممبئی ناکہ پر، ایک درخت کے نیچے زمین پر بیٹھی وہ اور ان کے ساتھ مارچ میں شریک ہونے آئیں کئی دیگر خواتین اپنی بڑھتی پریشانیوں اور حکومت کی اندیکھی کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔
’’ہم اپنے نام پر زمین چاہتے ہیں،‘‘ گنگوتائی کہتی ہیں۔ دہائیوں سے، وہ اور کئی دیگر لوگ محکمہ جنگلات کی ملکیت والی زمین پر کھیتی کر رہے ہیں۔ تھانے، پال گھر، ناسک اور شمالی و ساحلی مہاراشٹر کے دیگر پڑوسی ضلعوں کے ہزاروں کنبے، ۲۰۰۶ کے حق جنگلات قانون (ایف آر اے) کے تحت ان زمینوں کے مالکانہ حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ انھیں سرکاری اسکیموں اور روایتی قرض تک رسائی بھی فراہم کرے گا۔ مہاراشٹر سرکار پچھلے سال کے تاریخی مارچ کے بعد ایف آر اے کو نافذ کرنے پر راضی ہو گئی تھی، لیکن اس نے اپنے وعدوں کو ابھی تک پورا نہیں کیا ہے۔
’’ہم ایک بہتر مستقبل چاہتے ہیں،‘‘ پال گھر کی ایک نوجوان کسان اور کارکن، تائی بینڈر ان مسائل کا شمار کرتے ہوئے کہتی ہیں جو ان کی اور ان کے گاؤں کے دیگر لوگوں کی فکرمندگی کا باعث ہیں۔ ’’ہمارے پانی کو ممبئی اور دیگر شہروں کی طرف موڑا جا رہا ہے، اس لیے ہم اس کے خلاف بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘
آخر وہ کیا چیز ہے جو انھیں کئی دنوں تک لمبی دوری پیدل چلنے، کھیتی کے کام اور مزدوری کو چھوڑنے، کھلے میں راتیں گزارنے، سڑک کے کنرے کھانا کھانے کے لیے مجبور کرتی ہیں؟ ’’امید!‘‘ ناسک ضلع کے ویلگاؤں کے تقریباً ۷۰ سالہ آدیواسی کسان، ہری لال مورے کہتے ہیں۔ ’’اپنی بات پہنچانے کا یہی واحد طریقہ ہے،‘‘ زرعی مزدور گنگادھر پوار کہتے ہیں۔
جمعرات (۲۱ فروری) کی صبح تک، احتجاجیوں کو مارچ شروع کرنا باقی تھا۔ جمع ہوئے کسانوں کے چاروں طرف بھاری تعداد میں پولس دستہ تعینات کیا گیا تھا، یہ کسان پچھلی نصف شب سے ہی ممبئی کے لیے روانہ ہونے کی اجازت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ دوپہر تک، اجازت نہیں ملنے کے باوجود، کسانوں نے مارچ شروع کر دیا۔
ممبئی پہنچنے میں ایک ہفتہ یا اس سے زیادہ وقت لگے گا (جب ریاستی قانون سازیہ کا بجٹ اجلاس شروع ہو جائے گا)، اور مارچ کے لیے سرکار سے اجازت غیر یقینی بنی ہوئی ہے۔ لیکن گنگوتائی پرعزم ہیں: ’’ہم مارچ کریں گے۔‘‘
کئی دیگر لوگ – مہاراشٹر کے کسان، زرعی مزدور اور آدیواسی کسان – ناسک سے تقریباً ۱۸۰ کلومیٹر دور، ممبئی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ریاستی حکومت کو اپنے مطالبات یاد دلانا چاہتے ہیں۔ کئی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ حکومت کی وعدہ خلافی سے غیر مطمئن اور مایوس ہیں۔
اجتجاجی ۲۰ فروری، بدھ کی دوپہر سے ناسک میں جمع ہونے لگے تھے۔ وہ کئی ضلعوں سے یہاں آئے تھے – ناسک، تھانے، پال گھر، دہانو سے، کچھ مراٹھواڑہ سے، کچھ مہاراشٹر کے دیگر حصوں سے۔ دیگر لوگ راستے میں اس مارچ میں شامل ہوں گے۔
ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ ریاستی پولس نے کئی ضلعوں کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی۔ پھر بھی، بہت سے لوگ یہاں آنے میں کامیاب رہے۔
بدھ کی شام کو وہاں جمع ہوئے کسانوں کی ایک میٹنگ میں، ۱۴ فروری ۲۰۱۹ کو کشمیر کے پلوامہ دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے جوانوں کی تعزیت میں احتجاجیوں نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
’’مارچ کرنے والوں کی تعداد پچھلے سال [مارچ ۲۰۱۸ میں ناسک سے ممبئی تک لمبے مارچ] کے مقابلے زیادہ ہوگی،‘‘ آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے ریاستی سکریٹری، اجیت نوالے کہتے ہیں جو اس احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں۔ ’’سرکار نے اپنی ایک بھی بات پوری نہیں کی، وہ اپنے سبھی وعدوں سے منحرف ہو گئی، جس میں سبھی کے لیے قرض معافی، فوری سوکھا راحت اور ساحلی اور شمالی مہاراشٹر میں آدیواسی کنبوں کو زمینی حق دینا شامل ہے۔‘‘
دیگر مطالبات بھی ہیں: مندر کی بندوبستی زمین کو جوتنے والے کسانوں کو زمین کا مالکانہ حق فراہم کرنا، بڑھاپا پنشن اور دیگر پنشن میں اضافہ کرکے اسے ۳۰۰۰ روپے ماہانہ کرنا، بلیٹ ٹرین اور نئے ہائی وے پروجیکٹوں کے لیے زبردستی تحویل اراضی کو روکنا، اور پرانے راشن کارڈوں کو نئے سے بدلنا۔
’’ریاستی حکومت ہمارے مارچ کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے،‘‘ نوالے کہتے ہیں۔ ’’بہت سارے احتجاجیوں کو ریاست کے مختلف مقامات – احمد نگر، تھانے، پال گھر وغیرہ جگہوں پر روک دیا گیا ہے، تاکہ وہ ممبئی تک مارچ نہ کر سکیں۔‘‘
نوالے کہتے ہیں کہ فروری (۲۰۱۹) کے وسط میں، وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اسی لیے اے آئی کے ایس کو پہلے سے متعین یہ مارچ نکالنے پر مجبور ہونا پڑا۔
مہاراشٹر کے کسان طویل عرصے سے بحران میں ہیں، اوپر سے شدید سوکھا پڑنے سے ان کی پریشانیاں اور بڑھ گئی ہیں – اور پانی کی کمی اس سال اور سنگین ہونے والی ہے۔ مہاراشٹر کے ۱۵۰ سے زیادہ تعلقہ کو خشک زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔
’’نہ تو کوئی کام ہے اور نہ ہی کوئی فصل،‘‘ پربھنی ضلع کے جنتور تعلقہ کے ایک کسان، ایشور چوہان کہتے ہیں جو مراٹھواڑہ کے دیگر کسانوں کے ساتھ مارچ میں شریک ہونے آئے ہیں۔ سوکھا راحت اور مزدوری کے کام کی فوری ضرورت ہے، انھوں نے کہا۔ ایشور کہتے ہیں کہ انھیں ۲۰۱۷ میں ریاستی حکومت کے ذریعے اعلان شدہ قرض معافی نہیں ملی ہے۔ ’’اس سال مجھے بینک سے فصلی قرض نہیں ملا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مارچ میں شامل نوجوان احتجاجی جہاں کام کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں بزرگ لوگ پنشن مانگ رہے ہیں۔ موکھاڈا تعلقہ کی آنندی بائی نوالے کی عمر ۷۰ کے آس پاس ہے، لیکن انھیں ابھی بھی مزدور کے طور پر کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ’’میری فیملی میں کوئی نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’کچھ سال پہلے میرے شوہر کا انتقال ہو گیا؛ میری کوئی اولاد نہیں ہے۔‘‘ وہ بڑھاپا پنشن میں اضافہ اور ایک چھوٹی جنگلاتی زمین کا مالکانہ حق حاصل کرنے کے مطالبہ کو لے کر مارچ کر رہی ہیں جس پر وہ برسوں سے کھیتی کر رہی ہیں۔ آنندی بائی نے پچھلے سال بھی ممبئی تک مارچ کیا تھا، لیکن ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے۔ تو، انھوں نے کہا، ’’میں پھر سے چل رہی ہوں۔‘‘
تھانے کے شاہپور تعلقہ کے اگھائی گاؤں کے نوجوان کسان اور مزدور، راجندر بھوَر اپنے دوستوں کے ساتھ آئے ہیں، یہ سبھی کسان سبھا کی لال ٹوپی پہنے اور ہاتھوں میں جھنڈا پکڑے ہوئے ہیں۔ پچھلے سال بھی، وہ ناسک سے ممبئی آئے تھے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ سرکار کو اس کا وعدہ یاد دلانے دوبارہ یہاں آئے ہیں۔
کور فوٹو: سنکیت جین
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)