مشرقی دہلی میں واقع دہلی-نوئیڈا ڈائریکٹ فلائی وے کے قریب، یمنا ندی کے کنارے ایک ریتیلی سڑک ہے جو ہرے بھرے کھیتوں کی طرف جاتی ہے۔ چلّہ کھادر (مردم شماری میں اس کا ذکر چلّہ سرودا کھادر کے نام سے ملتا ہے) علاقے میں جانے کا راستہ بھی یہی ہے۔
یہاں کی زیادہ تر سڑکیں گرد آلود اور اوبڑ کھابڑ ہیں؛ بجلی کے ٹاور بھی لگے ہوئے ہیں، لیکن مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ انہیں بجلی کی سپلائی نہیں کی جاتی ہے۔ یہاں پر تقریباً ۵۰ سالوں سے رہتے چلے آ رہے ۷۲ سالہ صوبیدار سنگھ یادو اپنے چچا کے ساتھ خربوز کی کھیتی کرنے کے لیے اس علاقے میں آئے تھے۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے غازی پور ضلع کی کراندا تحصیل کے دھرمّار پور اوپروار گاؤں سے ہے۔ دھیرے دھیرے وہ یہاں پر سبزیاں، گندم اور دھان کی کھیتی کرنے کے ساتھ ساتھ مویشی پروری کا کام بھی کرنے لگے۔ بٹائی دار کسان کے طور پر وہ اپنی فیملی اور دو زرعی مزدوروں کی مدد سے ۱۵ بیگھہ (تقریباً ۳ ایکڑ) زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔
یمنا کا پانی چونکہ آلودہ ہو چکا ہے، اس لیے یہاں کے کسانوں نے اپنے کھیتوں کی سینچائی کرنے کے لیے ٹیوب ویل لگا لیے ہیں۔ یادو کا کہنا ہے کہ چلّہ کھادر میں سیلاب اور جنگلی جانوروں کے حملے کا ہمیشہ خطرہ بنا رہتا ہے۔ لیکن، سیلاب کی وجہ سے جب فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے، تو ریاست کی طرف سے معاوضہ زمین کے مالکوں کو ملتا ہے، بٹائی دار کسانوں کو نہیں۔ اور منڈی میں، کسانوں کی فصلوں کی قیمت بچولیے طے کرتے ہیں، جس سے انہیں نقصان ہوتا ہے۔
مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں پر کئی دہائیوں سے کھیتی کرتے چلے آ رہے ہیں، لیکن حکام کو لگتا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے، اسی لیے وہ بیچ بیچ میں ان کے گھروں اور فصلوں کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔ یادو بتاتے ہیں، ’’ابھی ۱۰ دن پہلے ہی ڈی ڈی اے [دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی] نے کسی کے کھیت پر بلڈوزر چلا دیا تھا۔ انہوں نے کھڑی ہوئی فصلوں کو روند دیا اور ہماری جھگیوں کو گرا دیا تھا۔ اگر سرکار کو زمین چاہیے، تو ہم نے انہیں بتا دیا ہے کہ ہم آپ کے راستے میں نہیں آئیں گے۔ لیکن ہمارے گھروں کو اجاڑنا غلط ہے۔‘‘
اس ویڈیو میں یادو اور چلّہ کھادر کے دوسرے لوگ اپنی تشویشوں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
مضمون نگار بستی سرکشا منچ کے عبد الشکیل باشا کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔ یہ تنظیم چلّہ کھادر میں غیر رسمی اسکول چلاتی ہے اور یہاں کے لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے پر ان کی وکالت کرتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز