برسات کے اس موسم میں گایوں کے لیے ٹماٹر مفت میں دستیاب ہیں۔ دوسرے موسموں میں، یہ دعوت بکریاں اڑاتی ہیں۔
اس پھل یا سبزی کی قیمت کم ہونے پر اننت پور ٹماٹر منڈی کے قریب واقع یہ میدان انہیں پھینکنے کے کام آتا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا کے مطابق، ٹماٹر وہ پھل ہے جسے غذا کے ماہرین سبزی کی کیٹیگری میں رکھتے ہیں)۔ جو کسان ارد گرد کے گاؤوں سے اپنی پیداوار فروخت کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں، وہ عام طور پر بچے ہوئے ٹماٹر یہیں پھینک دیتے ہیں۔ اس جگہ پر اکثر بکریوں کا جھنڈ دیکھا جا سکتا ہے۔ پی کدیرَپّا کہتے ہیں، ’’اگر برسات کے دنوں میں بکریاں ٹماٹر کھا لیتی ہیں، تو انہیں فلو (بخار، کھانسی، زکام وغیرہ) ہو جاتا ہے۔‘‘ کدیرپا چرواہا ہیں، جو یہاں سے بمشکل پانچ کلومیٹر دور اننت پور ضلع میں ہی واقع بُکّارایاسمدرم گاؤں سے اپنی بکریاں لیکر اس قصبہ تک آتے ہیں۔
یہ ایک طرح کا انکشاف ہی ہے کہ کھانے پینے کے معاملے میں بکریاں گائے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں، یہاں تک کہ ٹماٹر کھانے سے انہیں فلو تک ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے اننت پور میں بارش ہو رہی ہے، نتیجتاً بکریوں کو ان کا پسندیدہ کھانا ملنا بند ہو گیا ہے۔ حالانکہ، وہ ارد گرد گھاس چرتے دیکھی جا سکتی ہیں، اور شاید اپنے بڑے حریف کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بھی۔ چرواہے عام طور پر اپنے جانوروں کی اس دعوت کے لیے کسانوں کو کوئی رقم ادا نہیں کرتے، کیوں کہ کبھی کبھی تو ہزاروں ٹماٹر ہر دن یونہی پھینک دیے جاتے ہیں۔
اننت پور منڈی میں عام طور پر ٹماٹر کی قیمت ۲۰ سے ۳۰ روپے فی کلو کے درمیان ہوتی ہے۔ قصبہ میں سب سے سستے ٹماٹر ’ریلائنس مارٹ‘ میں ملتے ہیں۔ مارٹ کے ہی ایک ملازم بتاتے ہیں، ’’ایک بار تو ہم نے صرف ۱۲ روپے فی کلوگرام کے حساب سے ٹماٹر فروخت کیے تھے۔‘‘ ایک سبزی فروش بتاتے ہیں، ’’مارٹ کے اپنے سپلائر ہیں۔ لیکن، ہم ٹماٹر منڈی سے خریدتے ہیں اور دن ختم ہونے تک خراب ہو رہے ٹماٹر کو پھینک دیتے ہیں۔‘‘
حالانکہ، اسی قیمت پر گاہک منڈی میں ٹماٹر خریدتے ہیں۔ کسانوں کو بہت معمولی رقم حاصل ہوتی ہے، جو فی کلوگرام ۶ روپے سے لیکر زیادہ سے زیادہ ۲۰ روپے تک ہوتی ہے۔ یہ سب بھی اس بات پر منحصر ہے کہ ٹماٹر کونسی قسم کا ہے یا وہ منڈی میں کب آتا ہے۔ زیادہ قیمت کبھی کبھار ہی ملتی ہے، وہ بھی ایک یا دو دن سے زیادہ کے لیے نہیں ہوتی۔ فروخت کرنے والے کے ذریعے اٹھائے گئے خطرات کا تعلق بھی کسان سے اس کی قربت یا دوری سے وابستہ ہے۔ حالانکہ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ زیادہ خطرہ کسان کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ سب سے کم خطرہ کارپوریٹ چین سے جڑے لوگوں کو ہوتا ہے، جو علاقے سے تھوک کی قیمت پر ٹماٹر خرید کر لاتے ہیں۔
ایک بار ایک تاجر نے، قیمتیں گھٹنے کے بعد ۶۰۰ روپے میں ایک ٹرک ٹماٹر خریدا اور اسے منڈی کے پاس ہی فروخت کر دیا۔ اس کا سبزی فروش بولی لگا رہا تھا، ’’۱۰ روپے دو اور جتنا چاہے لے لو۔‘‘ شرط یہ تھی کہ آپ کا تھیلا چھوٹا ہو۔ سائز بڑا ہونے پر، آپ ۲۰ روپے میں پورا تھیلا بھر سکتے تھے۔ میرے خیال سے اس نے اُس دن اچھا خاصا کما لیا ہوگا۔
میں نے جس دن یہ تصویر کھینچی، پورے اننت پور شہر میں سبزی فروشوں نے ۲۰-۲۵ روپے فی کلوگرام کے حساب سے ٹماٹر فروخت کیے۔ ریلائنس مارٹ نے ایک کلو کا دام ۱۹ روپے طے کیا۔ یہاں دکان کی الماریوں پر ’نیسلے‘ اور ’ہندوستان لیور‘ جیسے ملٹی نیشنل برانڈ کے ٹومیٹو ساس (ٹماٹر کی چٹنی) سجے رہتے ہیں، جو شاید اننت پور میں ٹماٹر کی مصنوعات سے سب سے زیادہ منافع کمانے والے کاروباری ہوں گے۔ اس قسم کی چٹنیاں شاید اسپیشل اکنامک ژون (ایس ای زیڈ) میں بنائی جاتی ہوں گی (جسے سرکار کا بھی تعاون حاصل رہتا ہے)۔
ٹماٹر کی کھیتی کرنے والے کسانوں کے لیے کسی بھی طرح کی مدد انہیں حوصلہ دینے والی ہوگی، مگر انہیں یہ مدد نہیں ملتی۔ ان سب کے درمیان، جب بھی ٹماٹر کی قیمتوں میں کمی آتی ہے، گائے کے اچھے دن آ جاتے ہیں، کیوں کہ انہیں ان کا پسندیدہ کھانا ملنے لگتا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز