’’یہ تصویر میری محافظ ہے، یہ میری طاقت ہے،‘‘ اننت پور بلاک کے کرونگوٹا گاؤں کی ۳۵ سالہ کسان، سی ایلیویلمّا کہتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی تصویر کو اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے ساتھ ایک چھوٹے سے کور میں لے کر چلتی ہیں۔ ’’ہم یہاں انصاف کے لیے آئے تھے، تاکہ کسان خودکشی نہ کریں۔‘‘
ایلیویلمّا کے شوہر سی وینکٹ راموڈو، جو ایک بٹائی دار کسان تھے، نے مونگ پھلی کو کیڑوں سے بچانے والی گولیاں کھا کر، ۲۰۱۳ میں خود کشی کر لی تھی۔ ’’انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ قرض بہت زیادہ ہو چکا ہے اور فصلوں سے کوئی منافع نہیں ہو رہا ہے۔ وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ساہوکار (پیسے کے بارے میں) پوچھ رہے ہیں۔ مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ کیا کرنا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مونگ پھلی [کی بوائی] کے لیے کیا کچھ پیسے مل سکتے ہیں۔‘‘ ایلیویلمّا اکثر اپنے شوہر سے مونگ پھلی نہ بونے کے لیے کہا کرتی تھیں، لیکن وہ مونگ پھلی بونے پر ہی زور دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’ہمیں [اپنے ذریعے کھوئے گئے پیسے کو] وہیں کھوجنا چاہیے جہاں ہم نے اسے کھو دیا تھا۔‘‘
’’وہ خرچ کرتے رہتے ہیں اور ناکام ہوتے رہتے ہیں،‘‘ اپنے متوفی شوہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ایلیویلمّا دورِ حاضر میں پہنچ جاتی ہیں، شاید انھیں چھوڑنا نہیں چاہتیں۔ اپنے شوہر کی ایک چھوٹی سی کاپی کو ساتھ لے کر چلنا انھوں نے حال ہی میں چھوڑا ہے۔ وہ اس میں مختلف ساہوکاروں سے لی گئی قرض کی رقم لکھ لیا کرتے تھے۔
ایلیویلمّا اب اننت پور میں، ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے پٹّہ پر لیے گئے آٹھ ایکڑ کھیت پر، بٹائی دار کسان کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کا خیال رکھتی ہیں، جو آئی ٹی آئی (انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ) میں پڑھائی کر رہا ہے۔ ان کا کھیت کسانوں کے مشترکہ گروپ کا حصہ ہے، جہاں پر سبھی ۱۰ کسان یا تو بیوہ ہیں یا پھر ایسی خواتین ہیں جن کے شوہروں نے انھیں چھوڑ دیا ہے۔
میں ایلیویلمّا سے ۲۹ نومبر ۲۰۱۸ کو، دہلی کے رام لیلا میدان میں ملا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم یہاں انصاف کے لیے آئے تھے، تاکہ کسان خود کشی نہ کریں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)