سردی کی دوپہری میں، جب کھیتوں کے کام ختم ہو جاتے ہیں اور گھر کے نوجوان اپنی اپنی نوکریوں پر چلے جاتے ہیں، تب ہریانہ کے سونی پت ضلع میں ہرسانا کلاں گاؤں کے مرد چوپال (گاؤں کے چوراہے) پر پہنچ جاتے ہیں اور اکثر و بیشتر تاش کھیلتے ہیں یا پھر سایہ میں آرام کرتے ہیں۔
عورتیں وہاں کبھی نظر نہیں آتیں۔
’’عورتیں یہاں کیوں آئیں؟‘‘ مقامی باشندہ، وجے منڈل سوال کرتے ہیں۔ ’’انہیں اپنے کام سے چھٹی نہیں ملتی۔ وہ کیا کریں گی ان بڑے آدمیوں کے ساتھ بیٹھ کر؟‘‘
دہلی سے مشکل سے ۳۵ کلومیٹر دور اور قومی راجدھانی خطہ میں پڑنے والے، تقریباً ۵ ہزار کی آبادی والے اس گاؤں کی عورتیں چند سال پہلے تک سختی سے پردہ کرتی تھیں، یعنی عورتوں کو اپنا چہرہ اور جسم ڈھکنا پڑتا تھا۔
’’عورتیں تو چوپال کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھیں،‘‘ منڈل کہتے ہیں۔ گاؤں کے تقریباً درمیان میں واقع یہ میٹنگ کی جگہ ہے، جہاں جھگڑے کے نمٹارہ کے لیے پنچایت بیٹھتی ہے۔ ’’پہلے کی عورت سنسکاری (مہذب) تھی،‘‘ ہرسانا کلاں کے سابق سرپنچ، ستیش کمار کہتے ہیں۔
’’ان کے اندر لاج شرم تھی،‘‘ منڈل کہتے ہیں، ’’اگر اتفاق سے انہیں چوپال کی طرف جانا بھی ہوا، تو وہ پردہ کر لیتی تھیں،‘‘ وہ اپنے چہرے پر مسکان لیے کہتے ہیں۔
۳۶ سال کی سائرہ کے لیے یہ سب نیا نہیں ہے۔ وہ ان میں سے اکثر فرمانوں کو گزشتہ ۱۶ برسوں سے مان رہی ہیں، جب ۲۰ سال کی عمر میں شادی کرکے وہ دہلی کے قریب واقع اپنے گاؤں، مجرا ڈباس سے یہاں آئی تھیں۔ مردوں کے برعکس، انہیں صرف ان کے پہلے نام سے پکارا جاتا ہے۔
’’اگر میں اپنے شوہر سے شادی سے پہلے ملی ہوتی، تو اس شادی کے لیے کبھی حامی نہیں بھرتی۔ اس گاؤں میں تو کَتّے نا آتی [یعنی اس گاؤں میں آنے کے لیے کبھی راضی نہیں ہوتی]،‘‘ سائرہ کہتی ہیں، جب کہ ان کی انگلیاں سلائی کی مشین کی سوئی اور اس پیلے کپڑے کے درمیان مہارت سے چل رہی ہے جس پر وہ کام کر رہی ہیں۔ (اس اسٹوری میں ان کا نام، اور ان کے تمام اہل خانہ کے نام بدل دیے گئے ہیں۔)
’’اس گاؤں میں اگر کوئی عورت بولنے کی کوشش کرے، تو مرد اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ وہ کہیں گے، تمہیں بولنے کی کیا ضرورت ہے جب تمہارا آدمی یہ کر سکتا ہے؟ میرے شوہر بھی یہی مانتے ہیں کہ عورتوں کو گھر کے اندر رہنا چاہیے۔ اگر میں کپڑے کی سلائی کے لیے ضروری سامان خریدنے کے لیے بھی باہر جانے کے بارے میں سوچتی ہوں، تو وہ کہیں گے کہ گھر کے اندر رہنا بہتر ہے،‘‘ سائرہ بتاتی ہیں۔
ان کے ۴۴ سالہ شوہر سمیر خان، قریب ہی دہلی میں واقع نریلا کی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں، جہاں وہ پلاسٹک کا سانچہ بناتے ہیں۔ وہ سائرہ سے اکثر کہتے ہیں کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھتیں کہ مرد عورتوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ’’وہ کہتے ہیں کہ اگر تم گھر پر رہوگی، تو محفوظ رہوگی؛ باہر تو بھیڑیے بیٹھے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
اس لیے، سائرہ گھر پر رہتی ہیں، کہاوتی بھیڑیوں سے دور۔ ہریانہ کی ۶۴ء۵ فیصد دیہی خواتین کی طرح ( نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-۴ ،۲۰۱۵-۱۶) جنہیں اکیلے بازار، اسپتال، یا گاؤں کے باہر کسی بھی جگہ جانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ روزانہ دوپہر کو کھڑکی کے قریب رکھی سلائی مشین پر کپڑے کی سلائی کرتی ہیں۔ یہاں پر بھرپور روشنی ہے، جس کی ضرورت پڑتی ہے کیوں کہ دن میں اس وقت بجلی چلی جاتی ہے۔ دوپہر کے وقت اس کام کو کرنے سے ماہانہ ۲ ہزار روپے کی کمائی ہو جاتی ہے، جو اطمینان کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے دو بیٹوں، ۱۶ سالہ سہیل خان اور ۱۴ سالہ سنی علی کے لیے کچھ چیزیں خریدنے کے لائق بناتا ہے۔ لیکن وہ خود سے کوئی سامان شاید ہی کبھی خریدتی ہوں گی۔
سنی کی پیدائش کے چند مہینوں بعد، سائرہ نے نس بندی کرانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ان کے شوہر، سمیر کو ان کے ارادوں کا علم نہیں تھا۔
سونی پت ضلع میں، ۱۵ سے ۴۹ سال کی نئی شادہ شدہ عورتوں میں مانع حمل استعمال کرنے کی شرح (سی پی آر) ۷۸ فیصد ہے (این ایف ایچ ایس- ۴) – جو کہ ہریانہ کی مجموعی شرح ۶۴ فیصد سے زیادہ ہے۔
بیٹے کی پیدائش کے بعد ان چند مہینوں میں سائرہ نے دو بار نس بندی کرانے کی کوشش کی تھی۔ پہلی بار، اپنے مائیکے میں گھر کے قریب واقع ایک سرکاری اسپتال میں، جہاں کے ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وہ شادی شدہ نہیں لگتیں۔ دوسری بار، اسی اسپتال میں، وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے گئیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ ’’ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس قسم کا فیصلہ لینے کے لیے ابھی کافی چھوٹی ہوں،‘‘ سائرہ بتاتی ہیں۔
تیسری بار میں جاکر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہیں، جب دہلی کے روہنی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ قیام کے دوران انہوں نے ایک پرائیویٹ اسپتال میں نس بندی کرائی۔
’’اس بار میں نے اپنے شوہر کے بارے میں جھوٹ بولا۔ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے گئی اور ڈاکٹر سے کہا کہ میرا شوہر ایک شرابی ہے،‘‘ سائرہ بتاتی ہیں، اور اُس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے ہنستی بھی ہیں، لیکن انہیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ نس بندی کرانے کے لیے اتنی بیتاب کیوں تھیں۔ ’’گھر کا ماحول خراب تھا، ظلم اور مسلسل لڑائی۔ مجھے ایک چیز کا پورا یقین تھا – مجھے مزید بچے نہیں چاہیے تھے۔‘‘
سائرہ اس دن کو یاد کرتی ہیں جب انہوں نے اپنی نس بندی کرائی تھی: ’’اس دن بارش ہو رہی تھی۔ میں وارڈ کی شیشے کی دیوار کے باہر کھڑی اپنی ماں کی گود میں اپنے چھوٹے بیٹے کو روتا ہوا دیکھ سکتی تھی۔ جن دیگر عورتوں کی سرجری ہوئی تھی، وہ [انیستھیسیا کی وجہ سے] ابھی بھی گہری نیند میں تھیں۔ میرے اوپر سے اس کا اثر جلدی ختم ہو گیا۔ مجھے اپنے بچے کو دودھ پلانے کی فکر ہو رہی تھی۔ میں کافی بے چین تھی۔‘‘
جب سمیر کو پتہ چلا، تو انہوں نے ان سے مہینوں تک بات نہیں کی۔ وہ ناراض تھے کہ انہوں نے ان سے پوچھے بغیر یہ فیصلہ کر لیا۔ ان کی خواہش تھی کہ سائرہ رحم کے اندر رکھنے والا آلہ (آئی یو ڈی) جیسے کہ کاپی-ٹی لگوالیں، جسے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن سائرہ مزید بچے پیدا کرنے کے حق میں بالکل بھی نہیں تھیں۔
’’ہمارے پاس کھیت اور بھینسیں ہیں۔ مجھے تن تنہا ان سب کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے اور گھر کا بھی کام نمٹانا ہوتا ہے۔ اگر آئی یو ڈی استعمال کرنے سے مجھے کچھ ہو گیا ہوتا تو؟‘‘ وہ اپنی پچھلی زندگی کو یاد کرتی ہیں، جب وہ صرف ۲۴ سال کی تھیں، مشکل سے ۱۰ویں کلاس پاس کیا تھا اور زندگی اور مانع حمل کے بارے میں بہت کم جانتی تھیں۔
سائرہ کی ماں ناخواندہ تھیں۔ ان کے والد نہیں۔ لیکن انہوں نے بھی نہیں کہا کہ سائرہ اپنی پڑھائی جاری رکھے۔ ’’عورت اور مویشی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہماری بھینسوں کی طرح ہی، ہمارے دماغ بھی کام نہیں کرتے،‘‘ سوئی سے اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔
’’ہریانہ کے آدمی کے سامنے کسی کی نہیں چلتی،‘‘ وہ آگے کہتی ہیں۔ ’’وہ جو کہیں اسے کرنا ہی ہوگا۔ اگر وہ کہیں کہ یہ پکانا ہے، تو اسے پکانا ہی ہوگا – کھانا، کپڑے، باہر جانا، ان کے کہنے کے مطابق ہر ایک چیز کرنی پڑتی ہے۔‘‘ پتہ ہی نہیں چلا کہ سائرہ نے کس وقت اپنے شوہر کے بارے میں بتانا چھوڑ کر اپنے والد کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔
آپ امید کر رہے ہوں گے کہ ان کی ایک دور کی رشتہ دار، ۳۳ سالہ ثنا خان (ان کا، اور ان کے تمام اہل خانہ کا نام اس اسٹوری میں بدل دیا گیا ہے)، جو سائرہ کے گھر کے بغل میں رہتی ہیں، کی سوچ کچھ الگ ہوگی۔ ایجوکیشن میں بیچلر کی ڈگری کی ساتھ، وہ ٹیچر بننا چاہتی تھیں اور پرائمری اسکول میں کام کرتی ہیں۔ لیکن جب کبھی گھر سے باہر جاکر کام کرنے کی بات آتی، تو ایک اکاؤنٹنگ کمپنی میں دفتر کے معاون کے طور پر کام کرنے والے ان کے ۳۶ سالہ شوہر، رستم علی طعنہ دینے لگتے: ’’تم باہر جاکر کام کرو۔ میں ہی گھر پر بیٹھتا ہوں۔ تم ہی کماؤ اور اکیلے اس گھر کو چلاؤ۔‘‘
ثنا نے تبھی سے اس موضوع پر بات ہی کرنی بند کر دی ہے۔ ’’کیا فائدہ ہے؟ دوبارہ سے بحث شروع ہو جائے گی۔ یہ وہ ملک ہے جہاں مردوں کا نمبر پہلے آتا ہے۔ اس لیے عورتوں کے پاس سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے کیوں کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتیں، تو جھگڑا شروع ہو جائے گا،‘‘ وہ اپنے باورچی خانہ سے باہر کھڑی ہوئی کہتی ہیں۔
جس طرح سائرہ دوپہر میں کپڑے سلتی ہیں، اسی طرح ثنا بھی دن کے اس وقت کا استعمال اپنے گھر پر پرائمری اسکول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے میں کرتی ہیں، جس سے وہ ماہانہ ۵ ہزار روپے کما لیتی ہیں، جو کہ ان کے شوہر کی تنخواہ کا آدھا ہے۔ وہ اس کا زیادہ تر حصہ اپنے بچوں پر خرچ کر دیتی ہیں۔ لیکن ہریانہ کی ۵۴ فیصد عورتوں کی طرح ہی، ان کے پاس کوئی بینک کھاتہ نہیں ہے جسے وہ خود چلا سکیں۔
ثنا کی خواہش ہمیشہ سے دو بچے پیدا کرنے کی ہی رہی ہے اور وہ اس بات سے بھی باخبر تھیں کہ وہ مانع حمل کے لیے آئی یو ڈی جیسا طریقہ اپناکر دو حمل کے درمیان دوری بنا سکتی ہیں۔ ان کے اور رستم علی کے تین بچے ہیں – دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔
ان کی پہلی بیٹی، آسیہ جب ۲۰۱۰ میں پیدا ہوئی تھی، تو اس کے بعد ثنا نے سونی پت کے ایک پرائیویٹ اسپتال سے آئی یو ڈی لگوا لی تھی۔ سالوں تک وہ یہی سوچتی رہیں کہ یہ ملٹی لوڈ آئی یو ڈی ہوگی، یہی وہ چاہتی تھیں، کاپر-ٹی نہیں، جس کو لیکر ان کے کچھ تحفظات تھے، جیسا کہ گاؤں کی کئی اور عورتوں کے تھے۔
’’ کاپر-ٹی زیادہ دنوں تک کام کرتی ہے اور اس طرح حمل ٹھہرنے سے تقریباً ۱۰ برسوں تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جب کہ ملٹی لوڈ آئی یو ڈی تین سے پانچ سالوں تک کام کرتی ہے،‘‘ نشا پھوگاٹ بتاتی ہیں، جو ہرسانا کلاں گاؤں کے ذیلی طبی مرکز میں بطور معاون نرس (اے این ایم) کام کرتی ہیں۔ ’’گاؤں کی بہت سی عورتیں ملٹی لوڈ آئی یو ڈی استعمال کرتی ہیں۔ اسی لیے یہ ان کی پہلی پسند بنی ہوئی ہے۔‘‘ کاپی-ٹی کے بارے میں عورتوں کا شک ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے سے جو سنا ہے، اس کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ’’اگر مانع حمل سے کسی ایک عورت کو پریشانی ہوتی ہے، تو دوسری عورتیں بھی اس کا استعمال کرنے سے جھجکتی ہیں،‘‘ نشا وضاحت کرتی ہیں۔
ہرسانا کلاں میں ۲۰۰۶ سے ہی سماجی طبی کارکن (آشا) کے طور پر کام کرنے والی سنیتا دیوی کہتی ہیں، ’’عورتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کاپر-ٹی لگوانے کے بعد وہ بھاری وزن نہ اٹھائیں اور ایک ہفتہ تک ضرور آرام کریں، کیوں کہ آلہ کو ٹھیک طرح سے فٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتیں، یا نہیں کر سکتی ہیں۔ اسی لیے، اس سے بے چینی ہو سکتی ہے۔ اور وہ اکثر شکایت کریں گی، ’میرے کلیجہ تک چڑھ گیا ہے‘۔‘‘
ثنا کاپر-ٹی استعمال کر رہی تھیں، اس کا پتہ انہیں تب لگا جب وہ آئی یو ڈی کو نکلوانے گئیں۔ ’’مجھ سے جھوٹ بولا گیا، میرے شوہر اور پرائیویٹ اسپتال کے ڈاکٹر دونوں کے ہی ذریعے۔ وہ [رستم علی] ان تمام سالوں میں جانتے تھے کہ میں کاپر-ٹی استعمال کر رہی ہوں ملٹی لوڈ آئی یو ڈی نہیں، لیکن انہوں نے مجھے سچائی بتانے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ مجھے جب معلوم ہوا، تو میں نے ان کے ساتھ لڑائی کی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
کیا اس سے کوئی فرق پڑا، کیوں کہ انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی، ہم نے ان سے سوال کیا۔ ’’انہوں نے جھوٹ بولا۔ اس قیمت پر، وہ میرے اندر کچھ بھی ڈال سکتے ہیں اور اس کے بارے میں جھوٹ بول سکتے ہیں،‘‘ وہ جواب دیتی ہیں۔ ’’انہوں نے [رستم علی] مجھے بتایا کہ ڈاکٹر نے ان کو مجھے گمراہ کرنے کی صلاح دی تھی کیوں کہ عورتوں کو کاپی-ٹی کے سائز سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
آئی یو ڈی نکالے جانے کے بعد، ثنا نے اپنی دوسری بیٹی، اکشی کو ۲۰۱۴ میں جنم دیا، اس امید میں کہ اس سے ان کی فیملی مکمل ہو جائے گی۔ لیکن فیملی کا دباؤ جاری رہا جب تک کہ انہیں ۲۰۱۷ میں ایک بیٹا نہیں ہو گیا۔ ’’وہ بیٹے کو اثاثہ سمجھتے ہیں؛ بیٹیوں کے بارے میں وہ ایسا نہیں سوچتے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
ملک کے اندر ہریانہ میں بچوں کے جنس کی شرح (۰-۶ کی عمر کے گروپ میں) سب سے کم ہے، جہاں ہر ۱ ہزار لڑکوں پر لڑکیوں کی تعداد ۸۳۴ ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ سونی پت ضلع میں، یہ تعداد ابھی بھی کم بنی ہوئی ہے، جہاں پر ۱۰۰۰ لڑکوں کے مقابلے ۷۹۸ لڑکیاں ہیں۔ اور لڑکوں کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ جہاں لڑکیوں کو حقیر سمجھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، اس حقیقت کی دستاویزکاری بھی بڑے پیمانے پر کی گئی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی (فیملی پلاننگ) کے فیصلے مضبوط پدرانہ نظام کی وجہ سے اکثر و بیشتر شوہر اور دور کی فیملی کے ذریعے اثرانداز ہوتے ہیں۔ این ایف ایچ ایس- ۴ کے اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ ہریانہ میں صرف ۷۰ فیصد خواتین ہی اپنی صحت سے متعلق فیصلے لینے میں شرکت کر سکتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے ۹۳ فیصد مرد اپنی خود کی صحت کے بارے میں فیصلے لینے کے عمل میں شرکت کرتے ہیں۔
کانتا شرما (ان کا نام، اور ان کی فیملی کے تمام ارکان کا نام اس اسٹوری میں بدل دیا گیا ہے)، جو اسی علاقے میں رہتی ہیں جہاں کہ سائرہ اور ثنا، ان کی فیملی میں پانچ رکن ہیں – ۴۴ سالہ ان کے شوہر، سریش شرما اور چار بچے۔ دو بیٹیوں، آشو اور گُنجن کی پیدائش شادی کے پہلے دو سالوں میں ہوئی تھی۔ اس جوڑے نے فیصلہ کیا تھا کہ دوسری لڑکی کی پیدائش کے بعد کانتا نس بندی کرا لیں گی، لیکن ان کے ساس سسر اس کے لیے راضی نہیں ہوئے۔
’’دادی کو پوتے کی خواہش تھی۔ اس پوتے کی خواہش میں ہمارے چار بچے ہو گئے۔ اگر بزرگوں کی خواہش ہے، تو ایسا کیا جائے گا۔ میرے شوہر فیملی میں سب سے بڑے ہیں۔ ہم فیملی کے فیصلے کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتے تھے،‘‘ ۳۹ سالہ کانتا اُن ٹرافیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی ہیں، جنہیں ان کی بیٹیوں میں پڑھائی میں شاندار کارکردگی کی وجہ سے جیتا ہے۔
گاؤں میں جب کوئی نئی دلہن شادی کرکے آتی ہے، تو سنیتا دیوی جیسی آشا کارکن اس کا ریکارڈ رکھتی ہیں، لیکن اکثر ان سے بات کرنے کے لیے پہلے سال کے آخر میں ہی جاتی ہیں۔ ’’یہاں کی زیادہ تر نوجوان دلہنیں شادی کے پہلے سال میں ہی حاملہ ہو جاتی ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد، ہم اس کے گھر جاتے ہیں اور یقینی بناتے ہیں کہ اس کی ساس کی موجودگی میں فیملی پلاننگ کے طریقوں کے بارے میں بات کی جائے۔ بعد میں، جب فیملی آپس میں بات کرکے کسی نتیجہ پر پہنچتی ہے، تو وہ لوگ ہمیں اس کے بارے میں بتا دیتے ہیں،‘‘ سنیتا کہتی ہیں۔
’’نہیں تو اس کی ساس ہم سے ناراض ہو جائے گی، اور کہے گی، ’ہماری بہو کو کیا پٹّی پڑھا کے چلی گئی ہو!‘‘ سنیتا بتاتی ہیں۔
جب تیسرا بچہ بھی لڑکی ہوئی، تو کانتا نے مانع حمل گولیاں کھانی شروع کر دیں، جو ان کا شوہر ان کے لیے لیکر آتا تھا، جس کا علم ان کے ساس سسر کو نہیں تھا۔ گولیاں کھانا چھوڑنے کے کئی مہینوں بعد، کانتا ایک بار پھر حاملہ ہو گئیں، اس بار بیٹا تھا۔ المیہ یہ رہا کہ دادی بیچاری پوتے کو دیکھ ہی نہیں پائی۔ کانتا کی ساس ۲۰۰۶ میں انتقال کر گئیں۔ ایک سال بعد، کانتا نے اپنے بیٹے، راہل کو جنم دیا۔
تبھی سے، کانتا فیملی کی سب سے عمر دراز خاتون بن چکی ہیں۔ انہوں نے آئی یو ڈی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی بیٹیاں پڑھ رہی ہیں؛ سب سے بڑی نرسنگ میں بی ایس سی کر رہی ہے۔ کانتا ابھی اس کی شادی کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہیں۔
’’انہیں پڑھنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہیے۔ ہماری بیٹیاں جو حاصل کرنا چاہتی ہیں اگر ہم اس میں ان کی مدد نہیں کریں گے، تو ہم یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ان کے شوہر اور ساس سسر پڑھائی میں ان کی مدد کریں گے؟ ہمارا زمانہ الگ تھا۔ وہ اب نہیں رہا،‘‘ کانتا کہتی ہیں۔
وہ اپنی متوقع بہو کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ ’’وہی،‘‘ کانتا کہتی ہیں۔ ’’یہ اس کا اختیار ہوگا کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے، کیا [مانع حمل] استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ہمارا زمانہ الگ تھا؛ وہ اب نہیں رہا۔‘‘
کور کا خاکہ: پرینکابورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گرہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)