’’وہ گھنٹوں روتی ہے، مجھے اپنی ماں کو واپس لانے کے لیے کہتی ہے،‘‘ ششو پال نشاد اپنی سات سال کی بیٹی، نویہ کے بارے میں کہتے ہیں۔ ’’لیکن میں اسے کہاں سے لاؤں؟ خود میرا دماغ بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ ہم کئی ہفتوں سے سوئے نہیں ہیں،‘‘ اتر پردیش کے سنگتولی گاؤں کے ۳۸ سالہ مزدور، ششو پال کہتے ہیں۔

ششو پال کی بیوی منجو – نویہ کی ماں – جالون ضلع کے کتھونڈ بلاک کے سنگتولی پرائمری اسکول میں ’شکشا متر‘ تھیں۔ یوپی کے پنچایت انتخاب میں لازمی ڈیوٹی کے بعد کووڈ۔۱۹ سے مرنے والے ۱۶۲۱ اسکول ٹیچروں کی فہرست میں ان کا نام نمبر ۱۲۸۲ ہے۔ حالانکہ مرنے سے پہلے تک، اپنی پانچ رکنی فیملی میں منجو نشاد ایک نمبر سے کہیں زیادہ تھیں۔

وہ تین بچوں کی ماں اور فیملی میں اکلوتی کمانے والی تھیں، جو ہر مہینے صرف ۱۰ ہزار روپے گھر لاتی تھیں۔ ٹھیکہ پر کام کرنے والے شکشا متروں کو بس اتنا ہی ملتا ہے اور ان کی نوکری کی میعاد کو لیکر کوئی سیکورٹی نہیں ہے۔ منجو جیسی ٹیچروں کے لیے بھی نہیں، جنہوں نے اس حیثیت سے ۱۹ برسوں تک کام کیا تھا۔ شکشا متر پڑھانے کا کام تو کرتے ہی ہیں، لیکن انہیں ٹیچنگ اسسٹنٹ (یا ٹیچر کے معاون) کے طور پر زمرہ بند کیا گیا ہے۔

ششو پال خود بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی تعمیر میں ۳۰۰ روپے یومیہ پر مزدوری کرتے تھے جب تک کہ ’’ایکسپریس وے کا مرحلہ جہاں میں کام کر رہا تھا، دو مہینے پہلے پورا نہیں ہو گیا۔ اور آس پاس کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تھا۔ ہم ان پچھلے مہینوں میں اپنی بیوی کی آمدنی سے کام چلا رہے تھے۔‘‘

یوپی میں ۱۵، ۱۹، ۲۶ اور ۲۹ اپریل کو ہوئے چار مراحل کے پنچایت انتخاب میں ہزاروں ٹیچروں کو ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا۔ ٹیچر پہلے ایک دن کی ٹریننگ پر گئے تھے، پھر دو دن کی ووٹنگ ڈیوٹی کے لیے – ایک دن تیاری کے لیے اور دوسرا ووٹنگ کے حقیقی دن۔ اس کے بعد، ۲ مئی کو ووٹوں کی گنتی کے لیے ہزاروں ٹیچروں کو پھر سے بلایا گیا۔ ان کاموں کو پورا کرنا لازمی تھا اور انتخاب ملتوی کرنے کی ٹیچر یونین کی اپیلوں کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

یوپی شکشک مہا سنگھ کے ذریعے تیار کی گئی ۱۶۲۱ کی فہرست میں سے ۱۹۳ شکشا متروں کی موت ہو چکی ہے۔ ان میں سے منجو سمیت ۷۲ خواتین تھیں۔ حالانکہ، ۱۸ مئی کو یوپی محکمہ ابتدائی تعلیم کے ذریعے جاری کردہ پریس نوٹ میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے رہنما خطوط کے مطابق، صرف وہی لوگ معاوضہ کے حقدار ہیں جن کی موت نوکری کرنے کے دوران ہوئی ہے۔ اور ٹیچروں کے معاملے میں، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صرف وہی لوگ جن کی موت اپنی ڈیوٹی کے مقام پر، یا گھر لوٹتے وقت راستے میں ہوئی ہے۔ جیسا کہ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے: ’’اس مدت کے دوران کسی بھی وجہ سے کسی شخص کی موت ہونے پر معاوضہ کی رقم واجب الادا ہوتی ہے، جسے ریاستی الیکشن کمیشن کے ذریعہ منظوری دی جائے گا۔‘‘

Shishupal Nishad with Navya, Muskan, Prem and Manju: a last photo together of the family
PHOTO • Courtesy: Shishupal Nishad

نویہ، مسکان، پریم اور منجو کے ساتھ ششو پال نشاد: فیملی کی ایک ساتھ آخری تصویر

اس وضاحت کی بنیاد پر، پریس نوٹ کہتا ہے: ’’ضلع کے منتظمین نے ریاستی الیکشن کمیشن [ایس ای سی] کو ۳ ٹیچروں کی موت کی اطلاع دی ہے۔‘‘ اس میں وہ ۱۶۱۸ ٹیچر شامل نہیں ہیں، جو ٹریننگ، ووٹنگ یا ووٹوں کی گنتی کے مقامات پر بیماری سے متاثر ہوئے، لیکن بعد میں جن کی موت ان کے گھر پر ہوئی تھی۔ اور یہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی نوعیت اور یہ کیسے مارتا ہے، اور ایسا کرنے میں لگنے والے وقت کی پوری طرح سے خلاف ورزی کرتا ہے۔

شکشک مہاسنگھ نے بے رخی سے جواب دیا اور کہا کہ افسران کو ان کی پوری فہرست کو دیکھنا چاہیے ’’تاکہ حکومت بقیہ ۱۶۱۸ کا میلان کر سکے، جنہیں اس نے صرف تین ٹیچروں کے انتقال کی تصدیق کرتے وقت چھوڑ دیا ہوگا،‘‘ مہاسنگھ کے صدر دنیش شرما نے پاری کو بتایا۔

منجو نشاد نے ۲۶ اپریل کو ہونے والے انتخابات سے پہلے کی تیاری کے دن، ۲۵ اپریل کو جالون ضلع کے کدورا بلاک میں پولنگ سنٹر کی ڈیوٹی کے لیے اپنی موجودگی درج کرائی۔ اس سے کچھ دن پہلے وہ ایک ٹریننگ کیمپ میں شامل ہوئی تھیں۔ ۲۵ اپریل کی رات کو وہ واقعی میں بیمار ہو گئی تھیں۔

’’یہ سب حکومت کی لاپروائی کے سبب ہوا۔ میری بیوی نے چھٹی مانگنے کے لیے کسی اعلی افسر سے بات کرنے کی کوشش کی تھی کیوں کہ اسے گھر جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ انہوں نے اس سے بس اتنا کہا: ’اگر تمہیں چھٹی چاہیے، تو تم نوکری چھوڑ دو‘ – اس لیے وہ ڈیوٹی کرتی رہی،‘‘ ششو پال کہتے ہیں۔

وہ ۲۶ اپریل کی دیر رات ووٹنگ کی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد، کرایے کی ایک گاڑی سے گھر لوٹیں۔ ’’اس نے کہا کہ اسے بے چینی ہو رہی ہے اور بخار ہے‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں۔ اگلے دن جب ان کا کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ پازیٹو آیا، تو ششو پال منجو کو ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں لے گئے، جہاں انہیں بتایا گیا کہ انہیں ایک ہفتہ کے لیے اسپتال میں داخل کرانا ہوگا – جس کی فیس ایک رات کے لیے ۱۰ ہزار روپے تھی۔ سیدھے لفظوں میں کہیں تو: اسپتال کی ہر دن کی فیس ان کی ایک مہینہ کی کمائی کے برابر تھی۔ ’’تبھی میں نے اسے ایک سرکاری اسپتال میں داخل کرایا،‘‘ ششو پال کہتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ منجو کی تشویش پوری طرح سے اس بات پر مرکوز تھی کہ بچے ان کے بنا گھر پر کیا کریں گے، کیا کھائیں گے۔ ۲ مئی کو، اسپتال میں داخل ہونے کے پانچویں دن – جو ان کی ووٹوں کی گنتی کی ڈیوٹی کا دن ہوتا – ان کا انتقال ہو گیا۔

Manju's duty letter. Thousands of teachers were assigned election duty in UP’s mammoth four-phase panchayat elections in April. On May 2, her fifth day in the hospital – and what would have been her counting duty day – Manju (right, with her children) died
PHOTO • Courtesy: Shishupal Nishad
Manju's duty letter. Thousands of teachers were assigned election duty in UP’s mammoth four-phase panchayat elections in April. On May 2, her fifth day in the hospital – and what would have been her counting duty day – Manju (right, with her children) died
PHOTO • Courtesy: Shishupal Nishad

منجو کی ڈیوٹی کا مکتوب۔ اپریل میں یوپی کے چار مراحل کے پنچایت انتخاب میں ہزاروں ٹیچروں کو انتخابی ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا۔ ۲ مئی کو، اسپتال میں داخل ہونے کے پانچویں دن – جو ان کی ووٹوں کی گنتی کی ڈیوٹی کا دن ہوتا – منجو (دائیں، اپنے بچوں کے ساتھ) کا انتقال ہو گیا

’’میری ماں کا تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ وہ کہتی رہیں، ’اگر میری بہو چلی گئی تو میں زندہ رہ کر کیا کروں گی‘،‘‘ ششو پال کہتے ہیں۔

وہ اپنے بچوں کی پرورش کرنے کو لیکر فکرمند ہیں۔ نویہ کے دو بھائی بہن ہیں – اس کی بہن مُسکان ۱۳ سال کی اور بھائی پریم ۹ سال کا ہے۔ جس جگہ پر وہ رہتے ہیں اس کا ماہانہ کرایہ ۱۵۰۰ روپے ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیسے گزارہ کریں گے: ’’مجھے اب کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ میرا دماغ خراب ہو گیا ہے – اور کچھ مہینوں میں میری اپنی جان بھی چلی جائے گی،‘‘ وہ بے بس ہوکر کہتے ہیں۔

*****

انسانی المیہ کے علاوہ، یہ صورتحال شکشا متر نظام کی خستہ حالی کی جانب بھی توجہ مرکز کرتی ہے۔ یہ اسکیم – جو مختلف ریاستوں میں موجود ہے – ۰۱۔۲۰۰۰ میں اتر پردیش میں آئی۔ ان معاون ٹیچروں کو ٹھیکہ پر رکھنا سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم غریب بچوں کے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ اس کی سب سے خراب بات یہ رہی کہ بازار میں نوکری نہ ہونے کے سبب، بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ۱۰ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا – باقاعدہ ٹیچروں کو ملنے والی تنخواہ کا یہ محض ایک حصہ ہے۔

شکشا متر کے لیے انٹرمیڈیٹ یا مساوی پاس ہونا ضروری ہے۔ معمولی تنخواہ کو اس بنیاد پر صحیح ٹھہرایا گیا کہ اس کی لیاقت کو بہت کم کر دیا گیا ہے۔ لیکن منجو نشاد کے پاس ایم اے کی ڈگری تھی۔ ان کی طرح، ہزاروں دیگر شکشا متر اس عہدہ کی تعلیمی لیاقت سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کے پاس زیادہ متبادل نہیں ہیں۔ ’’وہ بلاش بہ استحصال کے شکار ہیں، بری طرح سے۔ ورنہ بی ایڈ اور ایم اے ڈگری والے، کچھ پی ایچ ڈی والے لوگ بھی، ۱۰ ہزار روپے کے لیے کام کیوں کرتے؟‘‘ دنیش شرما پوچھتے ہیں۔

۳۸ سالہ جیوتی یادو – مرنے والے ٹیچروں اور دیگر ملازمین کی فہرست میں نمبر ۷۵۰ – پریاگ راج ضلع کے سوراؤں (جسے سوراؤ بھی کہا جاتا ہے) بلاک کے پرائمری اسکول تھروائی میں شکشا متر کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ان کے پاس بی ایڈ کی ڈگری تھی اور انہوں نے اس سال جنوری میں سنٹرل ٹیچر اہلیتی ٹیسٹ (سی ٹی ای ٹی) بھی پاس کیا تھا۔ لیکن منجو نشاد کی طرح ہی ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کما رہی تھیں۔ اور گزشتہ ۱۵ سالوں سے یہ نوکری کر رہی تھیں۔

Sanjeev, Yatharth and Jyoti at home: 'I took her there [for poll training] and found huge numbers of people in one hall bumping into each other. No sanitisers, no masks, no safety measures'
PHOTO • Courtesy: Sanjeev Kumar Yadav

سنجیو، یتھارتھ اور جیوتی اپنے گھر پر: ’میں اسے [الیکشن ٹریننگ کے لیے] وہاں لے گیا اور ایک ہال میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے پایا۔ نہ سینٹائزر، نہ ماسک، نہ سیکورٹی کا انتظام‘

’’الیکشن کے لیے میری بیوی کی ٹریننگ ۱۲ اپریل کو پریاگ راج شہر کے موتی لال نہرو انجینئرنگ کالج میں تھی،‘‘ ان کے شوہر، ۴۲ سالہ سنجیو کمار یادو بتاتے ہیں۔ ’’میں اسے وہاں لے گیا اور ایک ہال میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے پایا۔ نہ سینٹائزر، نہ ماسک، نہ سیکورٹی کا انتظام۔

لوٹنے پر، وہ اگلے ہی دن بیمار ہو گئی۔ چونکہ اسے ۱۴ تاریخ کو ڈیوٹی کے لیے نکلنا تھا (پریاگ راج میں ووٹنگ ۱۵ اپریل کو تھی)، اس لیے میں نے اس کے پرنسپل کو فون کرکے کہا کہ اب وہ کیسے ڈیوٹی کرے گی۔ انہوں نے کہا، ’کچھ نہیں ہو سکتا، ڈیوٹی کرنی پڑے گی۔‘ تو میں اسے اپنی بائک پر وہاں لے گیا۔ ۱۴ تاریخ کی رات کو میں بھی اس کے ساتھ وہیں رکا اور ۱۵ تاریخ کو جب اس کی ڈیوٹی ختم ہو گئی، تو اسے واپس لے آیا۔ اس کا سنٹر ہمارے گھر سے ۱۵ کلومیٹر دور، شہر کے باہری علاقے میں تھا۔‘‘

اگلے کچھ دنوں میں، ان کی طبیعت تیزی سے بگڑنے لگی۔ ’’میں نے اسے الگ الگ اسپتالوں میں لے جانے کی کوشش کی، لیکن سبھی نے اسے داخل کرنے سے منع کر دیا۔ ۲ مئی کی رات کو اسے سانس لینے میں بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی۔ ۳ مئی کو، میں اسے دوبارہ اسپتال لے گیا، لیکن راستے میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔‘‘

کووڈ۔۱۹ سے ان کی موت نے فیملی کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ سنجیو کمار کامرس میں گریجویٹ ہیں اور ان کے پاس یوگا میں ماسٹر کی ڈگری ہے – اور بے روزگار ہیں۔ وہ ۲۰۱۷ تک ایک ٹیلی کام کمپنی میں کام کرتے تھے، لیکن اسی سال وہ کمپنی بند ہو گئی۔ اس کے بعد، انہیں کوئی مستقل نوکری نہیں ملی اور اس طرح فیملی کی آمدنی میں ان کا تعاون بہت کم تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیوتی ان کے مالی اخراجات کا خیال رکھتی تھیں۔

سنجیو کو اب اس بات کی فکر ہے کہ اب وہ اپنے نو سال کے بیٹے یتھارتھ، جس نے ابھی ابھی کلاس ۲ پاس کیا ہے، اور اپنے بزرگ والدین جو ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں، کی دیکھ بھال کیسے کریں گے۔ ’’مجھے حکومت سے مدد کی ضرورت ہے،‘‘ وہ روتے ہوئے کہتے ہیں۔

Sanjeev worries about how he will now look after nine-year-old Yatharth
PHOTO • Courtesy: Sanjeev Kumar Yadav

سنجیو کو فکر ہے کہ وہ اپنے نو سال کے بیٹے، یتھارتھ کی دیکھ بھال کیسے کریں گے

’’ریاست میں ڈیڑھ لاکھ شکشا متر ہیں، جنہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اپنی تنخواہ میں بہت زیادہ تبدیلی دیکھی ہے،‘‘ دنیش شرما کہتے ہیں۔ ’’ان کا سفر افسوس ناک رہا ہے۔ انہیں پہلی بار مایاوتی کی حکومت کے وقت ٹریننگ دی گئی تھی، جب ان کی تنخواہ ۲۲۵۰ روپے سے شروع ہوئی تھی۔ پھر اکھلیش کمار یادو کی حکومت کے دوران، ان سبھی کو ان کے عہدوں پر ۳۵۰۰۰ روپے کی تنخواہ کے ساتھ مستقل کر دیا گیا تھا [جو تقریباً ۴۰ ہزار روپے تک گیا]۔ لیکن اس وقت تعلیمی لیاقت پر تنازع کی وجہ سے بی ایڈ ڈگری والے ٹیچروں نے اس قدم کی مخالفت کی اور معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔

’’حکومت ہند ضابطوں میں ترمیم کر سکتی تھی اور دہائیوں سے کام کر رہے ان شکشا متروں کے لیے ٹی ای ٹی (ٹیچر کی اہلیت کا امتحان) پاس کرنا لازمی کر سکتی تھی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس لیے ان کی تنخواہ اچانک ۳۵۰۰ روپے دوبارہ ہو گئی، جس سے مایوس ہوکر ان میں سے کئی ٹیچروں نے خودکشی کر لی۔ پھر موجودہ حکومت نے اسے ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کر دیا۔‘‘

دریں اثنا، محکمہ ابتدائی تعلیم نے جب یہ کہا کہ اب تک صرف تین ٹیچروں کی موت معاوضہ کے پیمانے کو پورا کرتی ہے، تب جاکر حکومت جواب دینے کے لیے مجبور ہوئی ہے۔

۱۸ مئی کو جیسا کہ پاری نے رپورٹ کیا تھا ، الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ریاست کو پنچایت انتخاب میں ڈیوٹی کے بعد کووڈ۔۱۹ کے سبب مرنے والے انتخابی اہلکاروں (ٹیچروں اور دیگر سرکاری ملازمین) کے اہل خانہ کو معاوضہ کے طور پر کم از کم ایک کروڑ روپے دینا چاہیے۔

۲۰ مئی کو، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی حکومت کو ’’موجودہ حالات سے نمٹنے‘‘ کے لیے ریاستی الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت دی ۔ جیسا کہ انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا، ’’فی الحال رہنما خطوط ...ان کے دائرے میں... کووڈ۔۱۹ کے سبب ہونے والے اثرات کا احاطہ نہیں کرتے ہیں، رہنما خطوط کو ہمدردانہ نظریہ اپناتے ہوئے اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت ’’اپنے ملازمین کو تمام ضروری سہولیات دینے کے لیے تیار ہے، خاص کر ایسے وقت میں جب انہوں نے انتخابی یا کوئی دوسری ڈیوٹی کی ہو۔‘‘

حالانکہ شکشک سنگھ کے دنیش شرما کہتے ہیں، ’’ہمارے مکتوب پر حکومت یا ایس ای سی کی طرف سے ہمیں کوئی سیدھا جواب نہیں ملا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کتنے ٹیچروں پر غور کر رہے ہیں اور رہنما خطوط میں کیا ترامیم کی جا رہی ہیں۔‘‘

نہ ہی ٹیچر اپریل میں پنچایت انتخاب کرانے میں حکومت کی بے گناہی کے دعوی کو قبول کر رہے ہیں۔ ’’اب وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ہائی کورٹ کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے انتخاب کروایا تھا۔ لیکن جب ہائی کورٹ نے ریاست میں لاک ڈاؤن کا حکم دیا تھا، تو ان کی حکومت اس آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، اگر ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ کارروائی اپریل تک مکمل کی جانی ہے، تب بھی کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر تیزی سے ابھر رہی تھی۔ حکومت نظرثانی کرنے کا مطالبہ کر سکتی تھی، لیکن اس نے نہیں کیا۔

’’سپریم کورٹ نے، بلکہ، حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا ووٹوں کی گنتی ۲ مئی کو کرانے کی بجائے اسے ۱۵ دنوں کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، وہ اور ریاستی الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے۔ وہ ہائی کورٹ کی بات کر رہے ہیں – لیکن ووٹوں کی گنتی کو ملتوی کرنے کی سپریم کورٹ کی تجویز کو ٹھکرا دیا تھا ۔‘‘

*****

’’میں نے پولنگ سنٹر پر موجود پریزائڈنگ آفیسر سے پوچھا تھا کہ کیا میں ۱۴ اپریل کی رات کے لیے ممی کو گھر لا سکتا ہوں اور ۱۵ تاریخ کو ڈیوٹی پر واپس پہنچا سکتا ہوں – جو اس ضلع میں ووٹنگ کا دن تھا،‘‘ محمد سہیل نے پریاگ راج (سابقہ الہ آباد) شہر سے پاری کو فون پر بتایا۔

A favourite family photo: Alveda Bano, a primary school teacher in Prayagraj district died due to Covid-19 after compulsory duty in the panchayat polls
PHOTO • Courtesy: Mohammad Suhail

فیملی کی ایک پسندیدہ تصویر: پریاگ راج ضلع میں پرائمری اسکول کی ٹیچر، الوداع بانو کی پنچایت انتخاب میں لازمی ڈیوٹی کے بعد کووڈ۔۱۹ سے موت ہو گئی

ان کی ماں، ۴۴ سالہ الوداع بانو، پریاگ راج ضلع کے چاکا بلاک کے پرائمری اسکول بونگی میں ٹیچر تھیں۔ ان کی انتخابی ڈیوٹی کا سنٹر بھی اسی بلاک میں تھا۔ پنچایت انتخاب میں لازمی ڈیوٹی کے بعد کووڈ۔۱۹ سے مرنے والے ٹیچروں کی فہرست میں ان کا نام نمبر ۷۳۱ ہے۔

’’پریزائڈنگ افسر نے میری اپیل کو خارج کر دیا اور کہا کہ ان کے لیے وہاں رات بھر رکنا لازمی ہے۔ اس لیے میری ماں ۱۵ اپریل کی رات کو ہی لوٹیں، میرے والد انہیں سنٹر سے لے آئے تھے۔ لوٹنے کے تین دن بعد ہی ان کی طبیعت بگڑنے لگی،‘‘ سہیل نے بتایا۔ اگلے تین دن کے بعد اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔

محمد سہیل کی ایک بڑی بہن ہے جو شادی شدہ ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے، اور ان کا ایک چھوٹا بھائی ہے – ۱۳ سالہ محمد طفیل، جو ۹ویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ سہیل نے ۱۲ویں کلاس تک تعلیم مکمل کر لی ہے اور اب کالج میں داخلہ لینے والے ہیں۔

ان کے والد، ۵۲ سالہ صرف الدین کہتے ہیں کہ انہوں نے ’’پچھلے سال، لاک ڈاؤن سے ٹھیک پہلے ایک چھوٹا میڈیکل اسٹور کھولا تھا‘‘ جہاں اب بہت کم گاہک آتے ہیں۔ ’’میں دن بھر میں مشکل سے ۱۰۰ روپے کا منافع کما پاتا ہوں۔ ہم پوری طرح سے الوداع کی ۱۰ ہزار روپے کی تنخواہ پر منحصر تھے۔‘‘

’’جب شکشا متروں کو ۳۵ ہزار روپے کی تنخواہ کے ساتھ ٹیچر کے طور پر پروموٹ کیا گیا، تو انہیں [اُس گریڈ کی ادائیگی کے لیے] نا ایل قرار دے دیا گیا تھا۔ اب وہی شکشا متر، جن میں سے کئی اعلی تعلیمی لیاقت والے ہیں، اسی اسکول میں ۱۰ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر پڑھا رہے ہیں – اور اب اہلیت کا کوئی سوال یا بحث نہیں ہو رہی ہے؟‘‘ دنیش شرما کہتے ہیں۔

جگیاسا مشرا، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد جرنلزم گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہری آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے متن پر کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporting and Cover Illustration : Jigyasa Mishra

جِگیاسا مشرا اترپردیش کے چترکوٹ میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں۔ وہ بنیادی طور سے دیہی امور، فن و ثقافت پر مبنی رپورٹنگ کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Jigyasa Mishra
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique