شاہی خوابگاہوں کو متزلزل کر دینے والی آواز جب قلعہ میں پہنچی، تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ اتنی دیر کہ ٹوٹی ہوئی برج کو ٹھیک کرانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ طاقتور صوبے داروں اور اعلیٰ فوجی سربراہوں کو تعینات کرنے کا بھی وقت نہیں ملا۔

ان آوازوں کی بدولت آنے والے زلزلہ نے ایسی تباہی مچائی کہ پوری سلطنت گڑھوں سے بھر گئی اور ان گڑھوں سے تازہ کاٹے گئے گندم کی ڈنٹھلوں جیسی خوشبو آنے لگی۔ یہ خوشبو ہمارے شہنشاہ کو بھوک سے مرنے والے عوام سے جتنی نفرت تھی، اس سے کہیں زیادہ گہری اور ان کے آسمانی سینے سے کہیں زیادہ چوڑی تھی۔ اور یہ خوشبو محل تک جانے والی تمام گزرگاہوں، بازاروں، اور یہاں تک کہ ان کی مقدس گئوشالہ کی چہار دیواری تک میں پھیل گئی۔ لیکن، تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔

اتنی دیر کہ پالتو کوّوں کو ڈھیل دینے کا وقت ہی نہیں ملا، جو عوام کے درمیان جا کر اونچی آواز میں چیختے کہ یہ سب بکواس ہے، بس ایک افواہ ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ لیکن اتنی دیر ہو چکی تھی کہ مارچ کرنے والے پیروں کو حقیر بتانا ممکن نہیں تھا۔ آہ، وہ پھٹے ہوئے اور دھوپ سے جھلسے ہوئے پیر! کیسے انہوں نے شاہی مسند کو ہلا کر رکھ دیا! کافی دیر ہو چکی تھی، یہ سمجھانے میں کہ ان کی یہ پاک سلطنت ہزاروں سال تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ مٹی کو لہلہاتی مکئی کی بالیوں میں تبدیل کر دینے والے وہ معصوم ہاتھ، اب آسمانوں کو چھو رہے تھے۔

لیکن وہ شیطانی مٹھیاں کس کی تھیں؟ ان میں سے نصف عورتیں تھیں، ایک تہائی کی گردن میں غلامی کی طوق، ایک چوتھائی دوسروں سے بھی زیادہ گنوار۔ کچھ رنگین قوس قزح میں سجے ہوئے، کچھ ارغوانی رنگ میں چمکتے ہوئے، یا پھر زرد رنگ کا کپڑا لپیٹے ہوئے، جب کہ بقیہ کے جسم پر صرف چیتھڑے تھے۔ ایسے چیتھڑے جو شہنشاہ کے لاکھوں ڈالر کے لباس سے کہیں زیادہ شاہانہ تھے۔ وہ موت کو مات دینے والے عفریت تھے جو مارچ کر رہے تھے، گا رہے تھے، مسکرا رہے تھے، خوشیاں منا رہے تھے۔ یہ ہل چلانے والے وحشی تھے جنہیں مار پانے میں مقدس منجنیقیں اور چھوٹی بندوقیں بھی ناکام رہیں۔

جب تک کہ زلزلے کے یہ جھٹکے اُس خالی جگہ تک پہنچتے جہاں ایک دل ہونا چاہیے تھا، تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں انگریزی میں یہ نظم سنیں

کسانوں کے نام

۱)

اے چیتھڑوں میں لپٹے کسان، کیا ہے تمہاری ہنسی کا راز؟
’’پوچھ میری زخمی آنکھوں سے
جو دے رہی ہیں اس کا پورا جواب۔‘‘

اے بہوجن کسان، کیا ہے تمہارے جسم سے بہتے اس خون کا سبب؟
’’میری جلد کا ہے یہ سارا گناہ،
اور بھوک بنی ہے میرے لیے اک عذاب۔‘‘

۲)

اے زِرّہ پوش خاتون، بتا کیسے کرتی ہے مارچ؟
’’سر پر سورج اور ہاتھوں میں درانتی لیے

جب کرتے ہیں نظارہ لاکھوں انسان کھڑے۔‘‘

اے جیب سے خالی کسان، کیسے بھرتے ہو تم آہیں؟
’’جیسے کہ مٹھی بھر گیہوں،
جیسے کہ بیساکھی رے۔‘‘

۳)

اے سرخ و سفید کسان، لیتے کہاں ہو تم سانسیں؟
’’دامن میں لوہڑی کے
اور طوفانوں کے درمیان۔‘‘

اے مٹی کی مورت کسان، کدھر کا رخ ہے آج؟
’’چلا ہوں روزی کی تلاش میں
ہونٹوں پہ بھجن، ہاتھ میں ہتھوڑا لیے۔‘‘

۴)

اے زمین سے خالی کسان، دیکھتے کب ہو تم خواب؟
’’جب جل رہی ہو تمہاری بدبخت سلطنت
بارش کی معمولی بوندوں سے۔‘‘

اے بیمار وطن سپاہی، کرتے ہو کب تم بُوائی؟
’’جب ہل کا پھل گرتا ہے زمین کے سینے پر
اور گونج اٹھتا ہے آسمان۔‘‘

۵)

اے آدیواسی کسان، کیا گا رہے ہو بتاؤ تو ذرا؟
’’آنکھ کے بدلے آنکھ، اور
بادشاہت کی ہو شکست۔‘‘

اے آدھی رات کو جاگتے کسان، کیا ہے تمہارا حال؟
’’بادشاہتوں کے خاتمہ پر
آباد ہو جائے گی یتیم ہو چکی ہماری زمین۔‘‘

اس مشترکہ کوشش میں اپنا بیش بہا تعاون دینے کے لیے ہم اسمیتا کھٹور کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Poems and Text : Joshua Bodhinetra

جوشوا بودھی نیتر پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کے ہندوستانی زبانوں کے پروگرام، پاری بھاشا کے کانٹینٹ مینیجر ہیں۔ انہوں نے کولکاتا کی جادوپور یونیورسٹی سے تقابلی ادب میں ایم فل کیا ہے۔ وہ ایک کثیر لسانی شاعر، ترجمہ نگار، فن کے ناقد اور سماجی کارکن ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Joshua Bodhinetra
Paintings : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique