سرسبز پہاڑیوں، چھوٹے آبشاروں اور صاف ستھری ہوا کے درمیان ایک نوجوان آدمی اپنی بھینسوں کو چرتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
اس کے قریب پہنچنے پر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے، ’’کیا آپ کوئی سروے کر رہی ہیں؟‘‘
میں کہتی ہوں، ’’نہیں،‘‘ اور اسے بتاتی ہوں کہ میں یہاں سوء تغذیہ کے واقعات پر رپورٹ کرنے آئی ہوں۔
ہم لوگ موکھاڈا تعلقہ میں ہیں، جو کہ مہاراشٹر کے پالگھر ضلع میں پڑتا ہے، جہاں کے ۵۲۲۱ بچوں کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ان کا وزن حد سے زیادہ کم ہے – اس رپورٹ کے مطابق، ریاست میں یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔
ہم لوگ ریاست کی راجدھانی، ممبئی شہر سے بس ۱۵۷ کلومیٹر دور ہیں، لیکن یہاں کی ہریالی ایک الگ ہی دنیا کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔
روہیداس کا تعلق کا ٹھاکر برادری سے ہے، جسے مہاراشٹر میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے۔ پالگھر ضلع میں، ۳۸ فیصد آبادی آدیواسیوں کی ہے۔ یہ نوجوان چرواہا مجھے اپنی صحیح عمر نہیں بتا پا رہا ہے، لیکن لگتا ہے کہ وہ ۳۰ سال کے آس پاس کا ہوگا۔ اس کے کندھے سے ایک چھاتا لٹک رہا ہے، گلے میں اس نے ایک تولیہ لپیٹ رکھا ہے اور ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑی ہوئی ہے۔ پاس ہی میں اس کی دو بھینسیں گھاس چر رہی ہیں، جن کی وہ نگرانی کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’انہیں بارش کے دنوں میں ہی پیٹ بھر کھانے کو مل پاتا ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں [چارے کی تلاش میں] انہیں ادھر ادھر کافی گھومنا پڑتا ہے۔‘‘
’’میرا گھر وہاں ہے،‘‘ روہیداس مخالف سمت میں ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’دمتے پاڑہ میں۔‘‘ میں درختوں کے ایک جھنڈ میں ۲۵-۲۰ گھروں کو آسانی سے دیکھ پا رہی ہوں۔ اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے، یہاں کے باشندوں کو واگھ ندی سے نکلنے والی ایک نہر پر بنے ایک چھوٹے سے پل کو پار کرنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہم اس [چشمہ کے] پانی کو پیتے ہیں اور گھر میں استعمال کرتے ہیں؛ مویشی بھی اسی پانی کو پیتے ہیں۔‘‘ گرمی کے مہینوں میں واگھ ندی سوکھنے لگتی ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی برادری کو پینے کے پانی کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’اس مہینے [جولائی] پورا پل پانی میں ڈوب گیا تھا۔ نہ تو کوئی آدمی ہماری طرف آ سکتا تھا اور نہ ہی پل کے اس پار جا سکتا تھا۔‘‘
روہیداس کہتے ہیں کہ ان دنوں میں دمتے پاڑہ بستی میں رہنے والوں کی زندگی بہت مشکل ہو سکتی ہے۔ ’’کوئی سڑک نہیں ہے، نہ ہی کوئی گاڑی [سرکاری بس] ہے اور شیئرنگ جیپ بہت کم چلتی ہے۔ میڈیکل ایمرجنسی کے دوران بہت مشکل ہوتی ہے۔‘‘ موکھاڈا کا سرکاری اسپتال وہاں سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور ہے۔
ایسے وقت میں، یہاں کے لوگوں کو حاملہ عورتوں اور دیگر مریضوں کو بانس سے بنی ڈولی میں بیٹھا کر اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ فون کا نیٹ ورک بھی یہاں ٹھیک سے کام نہیں کرتا ہے، جو ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیتا ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے ایمبولینس کو بلانا ایک طرح سے ناممکن ہے۔
روہیداس کبھی اسکول نہیں گئے اور نہ ہی ان کے تین بڑے بھائیوں میں سے کوئی گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، کا ٹھاکر برادری میں مردوں کی شرح خواندگی ۹ء۷۱ فیصد ہے، لیکن روہیداس کہتے ہیں، ’’پاڑہ [بستی] میں کچھ لڑکے ۱۰ویں کلاس تک پڑھے ہوئے ہیں، لیکن وہ بھی وہی کام کرتے ہیں جو میں کر رہا ہوں۔ پھر فرق کیا رہا؟‘‘
اکتوبر اور نومبر کے درمیان ہونے والی فصل کی کٹائی کے بعد، پوری فیملی سو کلومیٹر دور، تھانے ضلع کے بھیونڈی تعلقہ کے اینٹ بھٹے پر کام کرنے چلی جاتی ہے۔ روہیداس بتاتے ہیں، ’’اینٹ بھٹے سے ہم جو کچھ بھی کماتے ہیں اسے کھیتی باڑی پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ ان کی فیملی کا تجربہ پالگھر کے کئی دیگر آدیواسی کنبوں جیسا ہی ہے، جو ہر سال خریف کی بوائی اور کٹائی کے درمیان مہاجرت کرتے ہیں۔
دروپدی مرمو نے ۲۱ جولائی، ۲۰۲۲ کو ہندوستان کی پہلی آدیواسی صدر بن کر تاریخ رقم کی تھی۔ مرمو کا تعلق اوڈیشہ کی سنتھالی آدیواسی برادری سے ہے، اور وہ ملک کے اس سب سے بڑے عہدہ پر فائز ہونے والی دوسری خاتون بھی ہیں۔
میں روہیداس سے پوچھتی ہوں، ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہماری راشٹرپتی (صدر) آدیواسی ہیں؟‘‘ اور ان کے جواب کا انتظار کرنے لگتی ہوں۔
’’پتہ نہیں؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں، اور مزید کہتے ہیں، ’’ مَلا گورنچ راکھائے چیت [میں تو اب بھی مویشی ہی چرا رہا ہوں]۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز