وٹھوبا یادو، ستارا ضلع کے مان تعلقہ میں واقع مہسوَڈ شہر میں بکریوں کے بازار میں بیٹھے ہیں اور اپنی بکری اور اس کے ایک مہینہ کے بچے کو بیچنے کے لیے کسی خریدار کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ اپنے جانوروں کے ساتھ ایک شیئرنگ جیپ میں بیٹھ کر صبح ۷ بجے ہی یہاں پہنچ گئے تھے اور اب صبح کے ساڑھے ۱۰ بج چکے ہیں۔

دودھ پلانے والی بکری کی قیمت یہاں پر تقریباً ۷۰۰۰ روپے سے ۸۰۰۰ روپے تک ہے، لیکن ۱۶ کلومیٹر دور واقع ولئی گاؤں سے آئے ۸۰ سالہ یادو اپنی بکری کو ۳۰۰۰ روپے تک میں بیچنے کو تیار ہیں۔ پھر بھی، اس بکری کو خریدنے والا ابھی تک کوئی نہیں ملا ہے۔ وٹھوبا یادو بڑی مایوسی سے کہتے ہیں، ’’مجھے کوئی خریدار نہیں ملا۔ کسی نے میرے پاس آ کر اس کی قیمت تک نہیں پوچھی۔‘‘ اب وہ تیزی سے اپنے گاؤں کی طرف جا رہی جیپ کو پکڑنے جا رہے ہیں۔

Old man with goats.
PHOTO • Binaifer Bharucha
Trucks, Goats all around
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: پوری طرح سے مایوس ہو چکے وٹھوبا یادو کہتے ہیں، ’مجھے کوئی خریدار نہیں ملا‘۔ درمیان میں: یہاں کے مویشی فروش اور تاجر اپنی بھیڑ بکریوں کو لانے لے جانے کے لیے ٹیمپو یا جیپ کا استعمال کرتے ہیں۔ اوپر کا کور فوٹو: مہسوَڈ بازار میں انتظار کرتے دیگر مویشی فروش

اس علاقے میں سال ۲۰۱۷ سے ہی سوکھا (قحط) پڑ رہا ہے، اس لیے وٹھوبا یادو (جن کا تعلق مانگ دلت کمیونٹی سے ہے) جیسے لوگوں کے لیے بھیڑ بکریاں پالنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ بکروں کو تو گوشت کے لیے بیچا جا سکتا ہے، لیکن بکریوں کو لوگ عام طور پر پالنے کے لیے خریدتے ہیں۔ مگر اب، چارے اور پانی کی سخت قلت کی وجہ سے انہیں کوئی نہیں خریدنا چاہتا۔

وٹھوبا یادو جیسے بے زمین لوگوں کے لیے آمدنی کا واحد ذریعہ یہی بکریاں ہیں۔ مشکل گھڑی میں یہ بکریاں ان کے لیے ’بیمہ‘ کا بھی کام کرتی ہیں، لیکن اب ان سے کوئی کمائی نہیں ہو رہی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Medha Kale

میدھا کالے پونے میں رہتی ہیں اور عورتوں اور صحت کے شعبے میں کام کر چکی ہیں۔ وہ پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) میں مراٹھی کی ٹرانس لیشنز ایڈیٹر ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز میدھا کالے
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique