۱۱ دسمبر کو، ٹیکری کے احتجاجی مقام پر کسانوں نے اپنے خیمے اکھاڑنے شروع کر دیے اور گاؤں لوٹنے کے لیے اپنے سامان باندھنے لگے۔ ان کے چہرے پر فتح کی شادمانی تو تھی ہی، لیکن یہاں پر بنائے گئے’گھر‘ کو چھوڑنے کا غم بھی صاف جھلک رہا تھا۔ تاہم، وہ اپنی جدوجہد کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم بھی دکھائی دے رہے تھے