دیہی ہندوستان میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو جسمانی معذوری کے شکار ہیں اور اسی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ معذوری یا تو کسی کو پیدائشی طور پر ہوتی ہے، یا پھر سماجی یا ریاستی کارروائی یا بے عملی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے – مثال کے طور پر جھارکھنڈ میں یورینیم کی کانوں کے قریب رہنے والے لوگوں کو ہونے والی جسمانی معذوری، یا پھر مراٹھواڑہ میں بار بار کی قحط سالی کو روک پانے میں سرکار کی ناکامی کی وجہ سے ہونے والی معذوری، جس کی وجہ سے لوگوں کو زمین سے نکلنے والا فلورائیڈ سے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ کئی بار یہ معذوری بیمار پڑنے یا طبی نگہداشت میں کوتاہی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے – لکھنؤ کی کچرا بیننے والی پاروَتی دیوی کی انگلیاں جذام کے مرض کی وجہ سے خراب ہو گئیں، جب کہ میزورم کے دیبہالا چکمہ کی آنکھوں کی روشنی چیچک نے چھین لی، اور پالگھر کی پرتبھا ہیلیم نے گینگرین کی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگیں اور دونوں ہاتھ کھو دیے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ معذوری دماغی ہے – سرینگر کا چھوٹا بچہ محسن دماغی فالج کا شکار ہے، جب کہ مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والا پرتیک ’ڈاؤنس سنڈروم‘ میں مبتلا ہے۔ اس قسم کے بہت سے معاملوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ غریبی، نا برابری، حفظان صحت سے متعلق خدمات کی کمی اور امتیازی سلوک کی وجہ سے معذور افراد کو مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیش ہے مختلف ریاستوں میں معذوری کے ساتھ زندگی بسر کرنے والوں سے متعلق پاری کی یہ اسٹوریز