’’مجھے افسوس ہے کہ میری شادی یہاں ہوئی۔‘‘
روزی (۲۹) نوجوان دلہن کے طور پر اپنے تجربات بیان کر رہی ہیں۔ وہ اکیلی نہیں ہیں۔ سرینگر میں واقع ڈل جھیل میں رہائش پذیر لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں یہاں رہنے والے کسی بھی شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کر رہیں گلشن نذیر کہتی ہیں، ’’پہلے ہی تین بار رشتہ ٹھکرایا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ شادی طے کرنے والوں نے بھی آنا بند کر دیا ہے۔‘‘
برو محلہ کی گلشن کے مطابق، اس کی وجہ یہاں رہنے والوں کا پانی کی شدید قلت سے سامنا کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس جھیل پر وہ رہتے ہیں، وہ ریاست میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔
بڑھئی کا کام کرنے والے مشتاق احمد کہتے ہیں، ’’نو سال پہلے، ہم اپنی کشتیوں کی مدد سے ڈل جھیل کے مختلف مقامات سے پانی جمع کرتے تھے۔ یہاں پانی کے ٹینکر دستیاب نہیں تھے۔‘‘
حالانکہ، گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے مشتاق صبح ٹھیک ۹ بجے مرکزی سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں اور پانی کے سرکاری ٹینکروں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ گوڈو محلہ میں رہنے والے مشتاق کی ۱۰ رکنی فیملی انہی پر منحصر ہے۔ حالات کو آسان بنانے کے لیے، انہوں نے ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے خرچ کرکے پانی کی ٹنکیاں خریدی ہیں اور پائپ لائن ڈلوائی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ سب صرف تبھی کام آتا ہے جب بجلی آتی ہو، جو سردیوں کے موسم میں کشمیر میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘ اس مہینے (مارچ) ٹرانسفارمر میں خرابی کے سبب انہیں بالٹیوں میں پانی بھر کر لانا پڑا۔
مرشد آباد ضلع کے ہیجولی گاؤں کے باشندے بھی پانی کے ٹینکروں سے پانی بھرتے ہیں۔ حالانکہ، ان کے پانی کی سپلائی پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے، جو مغربی بنگال کے اس علاقے میں ۲۰ لیٹر پانی کے عوض ۱۰ روپے لیتے ہیں۔
لال بانو بی بی کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دیکھئے، ہم یہی پانی خریدتے ہیں۔ اگر آپ نہیں لیں گے، تو پینے کے لیے پانی ہی نہیں ہوگا۔‘‘
روزی، مشتاق اور لال بانو ان لوگوں میں سے ہیں، جنہیں مرکزی حکومت کے جل جیون مشن (جے جے ایم) کا کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ جے جے ایم کی ویب سائٹ کے مطابق، ۷۵ فیصد دیہی خاندانوں (۱۹ کروڑ لوگوں) کو پینے کا صاف پانی مل جاتا ہے۔ ویب سائٹ پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۹ میں ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپے کے بجٹ کی تقسیم کے سبب پانچ برسوں میں نل (پائپ) کی تعداد تین گنی ہو گئی ہے، اس لیے آج ۴۶ فیصد دیہی گھروں میں پانی کا کنکشن ہے۔
بہار ریاستی حکومت کی سات نشچے اسکیم کے تحت ۱۸-۲۰۱۷ میں بہار کے اکبر پور میں چنتا دیوی اور سشیلا دیوی کے گاؤں میں بھی نل لگائے گئے تھے۔ ’’نل چھ سات سال پہلے لگایا گیا تھا۔ ایک ٹنکی بھی لگائی گئی تھی۔ لیکن آج تک ان نلوں سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں آئی ہے،‘‘ چنتا دیوی کہتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چنتا اور سشیلا دلت ہیں، اور گاؤں کے سبھی ۴۰ دلت خاندانوں کو کبھی بھی پانی کا کنکشن نہیں ملا، جب کہ مبینہ طور پر اونچی ذات کے گھروں میں کنکشن پہنچا ہوا ہے۔ بغیر پانی کا نل اب ذات کی علامت بن گیا ہے۔
اکبر پور کی دلت بستی میں جہاں وہ رہتی ہیں، وہاں صرف ایک ہینڈ پمپ ہے جس سے موسہر اور چمار برادری (ریاست میں بالترتیب انتہائی پس ماندہ ذات اور درج فہرست ذات کے طور پر درج) کے لوگ پانی بھرتے ہیں۔
نالندہ ضلع میں واقع اس بستی میں رہنے والی چنتا (۶۰) بتاتی ہیں کہ جب ہینڈ پمپ خراب ہو جاتا ہے، جو کہ اکثر ہوتا ہے، تو ’’ہم آپس میں چندہ کر کے اس کی مرمت کرواتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، اس کے علاوہ واحد متبادل اونچی ذات کے یادوؤں سے پانی مانگنے کا ہوتا ہے، لیکن سب کو معلوم ہے کہ وہ منع ہی کرتے ہیں۔
نیشنل کیمپین آن دلت ہیومن رائٹس (این سی ڈی ایچ آر) کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے سبھی دلت گاؤوں میں سے تقریباً نصف (۴ء۴۸ فیصد) کو آبی ذرائع سے محروم رکھا جاتا ہے، اور ۲۰ فیصد سے زیادہ کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا ہے۔
مہاراشٹر کے پالگھر میں رہنے والی کے ٹھاکر آدیواسی راکو ناڈگے کے مطابق، آدیواسیوں کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں گونڈے خورد میں ’’ٹینکر کبھی نہیں آتے۔‘‘ اس لیے جب ۱۱۳۷ لوگوں کی آبادی کی پیاس بجھانے والا مقامی کنواں گرمیوں میں سوکھ جاتا ہے، تو ’’ہمیں اپنے سر پر اور دونوں ہاتھوں میں پانی کی دو کلشی [پانی کا برتن] اٹھائے جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں سڑک ہی نہیں ہے۔‘‘
راکو کو اپنی فیملی کی ضرورتوں کے حساب سے وافر مقدار میں پانی بھرنے کے لیے تین چکر لگانے پڑتے ہیں – یعنی ۹ گھنٹے میں تقریباً ۳۰ کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔
*****
ککرمبا گاؤں کے رہائشی شیو مورتی ساٹھے نے اپنی زندگی کی چھ دہائیوں میں پانچ بار خشک سالی دیکھی ہے۔
کھیتی کسانی کرنے والے شیو مورتی کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر کے تلجا پور علاقے میں، گزشتہ دو دہائیوں میں زرخیز زمین بنجر ہو گئی ہے؛ اب گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اُگتا۔ وہ اس کے لیے ٹریکٹروں کے استعمال کو قصوروار مانتے ہیں: ’’ہل اور بیلوں کے استعمال سے مٹی کی گھاس وَسَن [قدرتی بند] بناتی تھی، جس سے پانی دھیما بہتا تھا اور پھیل جاتا تھا۔ ٹریکٹر مٹی کو کھول دیتے ہیں اور پانی سیدھے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلا جاتا ہے۔‘‘
وہ سال ۱۹۷۲ میں نو سال کے تھے، جب انہوں نے ’’پہلی اور سب سے بری خشک سالی دیکھی تھی۔ پانی تو تھا، لیکن کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ اس کے بعد حالات کبھی معمول پر نہیں آئے۔‘‘ ساٹھے کاکا تلجا پور شہر میں اتوار کے روز لگنے والے بازار میں سبزیاں اور چیکو بیچتے ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں خشک سالی کے سبب انہوں نے اپنے آم کے باغ کا ایک ایکڑ حصہ کھو دیا تھا۔ ’’ہم نے زیر زمین پانی کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے اور تمام قسم کے زہریلے کیمیکل کا استعمال کر کے اپنی زمین کو کھوکھلا کر دیا ہے۔‘‘
مارچ کا مہینہ چل رہا ہے، اور وہ کہتے ہیں، ’’ہم مئی میں مانسون سے قبل کی تھوڑی بارش کی امید کر رہے ہیں، نہیں تو یہ سال بہت مشکل ہونے والا ہے۔‘‘ پینے کے پانی کا مسئلہ جوں کا توں بنا ہوا ہے۔ ’’ہم ایک ہزار لیٹر پانی کے عوض ۳۰۰ روپے کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ اور صرف ہم انسانوں کو ہی نہیں، ہمارے مویشیوں کو بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
سوامی ناتھن کمیشن کی پہلی رپورٹ بتاتی ہے کہ چارے کی کمی کے سبب مویشیوں کی موت ہو جاتی ہے، جس سے کسانوں کے لیے اگلے سیزن سے جڑی بے یقینیوں سے نمٹنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے، ’’اس طرح دیکھا جائے تو خشک سالی کوئی عارضی واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مستقل بحران ہے۔‘‘
سال ۲۰۲۳ میں جون سے ستمبر تک، دھاراشیو (سابق عثمان آباد) ضلع کے تلجا پور بلاک میں ۳ء۵۷۰ ملی میٹر بارش (عام طور پر ہونے والی ۶۵۳ ملی میٹر سالانہ بارش کے مقابلے) ہوئی۔ اس میں سے بھی نصف سے زیادہ بارش جولائی کے ۱۶ دنوں میں ہو گئی تھی۔ جون، اگست اور اکتوبر مہینوں میں ۴-۳ ہفتے کی خشکی نے زمین کی ضروری نمی کو جذب کر لیا؛ آبی ذرائع میں پانی نہیں آیا۔
اس لیے ککرمبا کے کسان کافی مشکلوں کا سامنا کر رہے ہیں: ’’ہمیں اب ہماری ضرورت کا صرف ۱۰-۵ فیصد پانی ہی مل رہا ہے۔ آپ کو پورے گاؤں میں برتنوں اور ہانڈوں کی ایک لمبی قطار دکھائی دے گی،‘‘ ساٹھے کاکا پاری رپورٹر کو بتاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’آبی بحران کا مسئلہ انسانوں نے پیدا کیا ہے۔‘‘
یہی حالت مرشد آباد ضلع میں بھی ہے، جہاں کا زیر زمین پانی آرسینک سے آلودہ ہو چکا ہے۔ مغربی بنگال میں گنگا کے وسیع میدانوں میں بھاگیرتھی کے ساحل پر واقع، میٹھا پانی دینے والے ٹیوب ویل تیزی سے سوکھنے لگے ہیں۔
بیگن باڑی گرام پنچایت میں نل کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ٹیوب ویل پر منحصر تھے (آبادی: ۱۰۹۸۳، مردم شماری ۲۰۱۱)۔ روشن آرا بی بی کہتی ہیں، ’’ہم ٹیوب ویل کا استعمال کرتے ہیں، لیکن اب [سال ۲۰۱۳ میں] سب کے سب سوکھ گئے ہیں۔ یہاں بیلڈانگا-1 بلاک میں بھی آبی ذخائر خشک ہو گئے ہیں۔ تالاب بھی تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، یہ بارش کی کمی کے ساتھ ساتھ، اندھا دھند طریقے سے زیر زمین پانی کو کھینچ لینے والے پمپوں کے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ سے ہوا ہے۔
سال ۲۰۱۷ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیر زمین پانی ہی ہندوستان میں زراعت اور گھریلو استعمال کا بنیادی ذریعہ رہا ہے، جو گاؤوں میں پانی کی سپلائی میں ۸۵ فیصد کا تعاون فراہم کرتاہے۔
جہاں آرا بی بی بتاتی ہیں کہ یہاں زیر زمین پانی کا حد سے زیادہ استعمال، لگاتار سالوں میں مانسون کے دوران بارش کی کمی کا سیدھا نتیجہ ہے۔ ہیجولی گاؤں کی اس ۴۵ سالہ رہائشی کی شادی جوٹ کی کھیتی کرنے والے ایک خاندان میں ہوئی ہے۔ ’’جوٹ کی فصل کی کٹائی تبھی کی جا سکتی ہے، جب اسے سڑا کر ریشے نکالنے کے لیے مناسب مقدار میں پانی دستیاب ہو۔ کٹائی کے بعد، جوٹ انتظار نہیں کر سکتا، اور خراب ہو جاتا ہے۔‘‘ پانی نہ ہونے کے سبب، اگست ۲۰۲۳ کے آخر میں بیلڈانگا-1 بلاک کے کھیتوں میں کھڑی جوٹ کی تیار فصل، مانسون کی بارش کی شدید کمی کا نتیجہ ہے۔
مقامی لوگوں نے پاری کو بتایا کہ پانی موجود بھی ہو، تو آرسینک سے آلودہ ہونے کے سبب ان علاقوں میں ٹیوب ویلوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب زیر زمین پانی میں آرسینک ملے ہونے کی بات آتی ہے، تو مرشد آباد سب سے بری طرح متاثر ضلعوں میں سے ایک ہے، جو جلد، پٹھے اور تولیدی صحت پر اثر ڈالتا ہے۔
حالانکہ، پانی کے آرسینک سے آلودہ ہونے کے بارے میں بڑھتی بیداری کے ساتھ ان پر روک لگی ہے۔ لیکن اب وہ پانی کے لیے پوری طرح سے پرائیویٹ ڈیلروں پر منحصر ہیں، اور المیہ یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ ڈیلروں سے خریدا جا رہا پانی محفوظ ہے یا نہیں۔
پانی کے ٹینکروں کے سبب بیگن باڑی ہائی اسکول میں ۵ویں جماعت کے طالب علم اور ہیجولی کے رہائشی رجو جیسے کچھ بچوں کو پڑھانی سے چھٹی مل جاتی ہے۔ رجو ہینڈ پمپ اور پانی کے ٹینکر سے پانی بھر کر گھر لانے میں مدد کرتا ہے۔ اس نے اس رپورٹر کی طرف دیکھ کر آنکھ مارتے ہوئے کہا، ’’گھر پر بیٹھ کر پڑھائی کرنے سے زیادہ مزہ اس کام میں آتا ہے۔‘‘
وہ اکیلا نہیں ہے جو خوش ہے۔ ہیجولی سے کچھ کلومیٹر دور واقع قاضی ساہا (آبادی: ۱۳۴۸۹، مردم شماری ۲۰۱۱) میں کچھ پرجوش لڑکے پانی کے ڈیلر کے اشارے پر، بڑوں کو ان کے برتن اور ڈبے بھرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ لڑکوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ کام پسند ہے کیوں کہ ’’ہمیں وَین کے پیچھے بیٹھ کر گاؤں میں گھومنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘
مرشد آباد میں آرسینک کا مسئلہ ہے اور مہاراشٹر کے پالگھر میں ڈائریا کا۔ دونوں جگہوں کے درمیان ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ ہے، لیکن مسئلہ کی وجہ ایک ہی ہے – ختم ہوتے آبی ذخائر۔
راکو ناڈگے کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں گونڈے خورد میں کنویں کے پانی کی سطح تیزی سے گھٹتی جا رہی ہے اور یہاں کے ۲۲۷ گھر اسی کے پانی پر منحصر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ ہمارے لیے پانی کا قریب ترین اور واحد ذریعہ ہے۔‘‘ موکھاڈا تعلقہ کے اس گاؤں میں زیادہ تر لوگ، کے ٹھاکر درج فہرست قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
دو سال پہلے ان کے بیٹے دیپک کو دست لگ گیا تھا، جو شاید پینے کے پانی کی وجہ سے ہوا تھا۔ سال ۲۰۱۸ کے ایک مطالعہ کے مطابق، پالگھر ضلع کے نو گاؤوں کے ۴ء۳۳ فیصد بچے ڈائریا کے مرض میں مبتلا تھے۔ بیٹے کی بیماری کے بعد سے، راکو روزانہ پانی کو پینے سے پہلے ابالنے لگی ہیں۔
حالانکہ، اس سے پہلے کہ وہ پانی ابالیں، راکو کو پانی بھر کر لانا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں، جب کنویں میں پانی سوکھ جاتا ہے، تو گاؤں کی عورتیں پانی بھرنے کے لیے واگھ ندی تک جاتی ہیں، جو گاؤں سے تقریباً نو کلومیٹر دور بہتی ہے۔ ندی کا ایک چکر لگانے میں انہیں تین گھنٹے لگتے ہیں، اور انہیں یہ سفر دن میں دو سے تین بار کرنا پڑتا ہے۔ یا تو وہ صبح کو جاتی ہیں یا شام کے بعد، جب درجہ حرارت تھوڑا کم ہو جاتا ہے۔
برصغیر ہند میں پانی سے جڑے گھریلو کاموں کا سارا بوجھ عورتوں کو ڈھونا پڑتا ہے – ۱۵ سال اور اس سے زیادہ عمر کی ۷۱ فیصد خواتین کو پانی بھر کر گھر لانا پڑتا ہے، (نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۱-۲۰۱۹ )۔
چنتا دیوی کہتی ہیں، ’’مردوں کو کام کے لیے [باہر] جانا پڑتا ہے، اس لیے ہمیں کھانا پکانے کے لیے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ صبح کے وقت ہینڈ پمپ پر بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ دوپہر میں، ہمیں غسل کرنے اور کپڑے دھونے جیسے کاموں کے لیے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، اور پھر شام کو کھانا پکانے کے لیے پانی بھرنا پڑتا ہے۔‘‘
اس دلت بستی میں پانی کا واحد ذریعہ چانپا کل (ہینڈ پمپ) ہے، اور پانی کے لیے لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ سشیلا دیوی کہتی ہیں، ’’اتنے بڑے ٹولہ [بستی] میں صرف ایک ہینڈ پمپ ہے۔ ہم پانی بھرنے کے لیے ٹوکنا (بالٹی) لے کر کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
گرمیوں میں جب ہینڈ پمپ سوکھ جاتا ہے، تو عورتیں فصلوں کی سینچائی کے لیے چالو پمپ سے پانی بھرنے کے لیے کھیتوں میں جاتی ہیں۔ ’’کبھی کبھی پمپ ایک کلومیٹر دور لگا ہوتا ہے۔ پانی بھرنے میں کافی وقت ضائع ہو جاتا ہے،‘‘ ۴۵ سالہ سشیلا دیوی کہتی ہیں۔
’’گرمی بڑھتا ہے، تو ہم لوگوں کو پیاسے مرنے کا نوبت آ جاتا ہے،‘‘ وہ غصے میں کہتی ہیں، اور شام کے کھانے کی تیاریوں میں لگ جاتی ہیں۔
ملک کے الگ الگ علاقوں سے درج کی گئی اس اسٹوری میں کشمیر سے مزمل بھٹ نے، مغربی بنگال سے اسمیتا کھٹور نے، بہار سے امیش کمار رائے نے، مہاراشٹر سے میدھا کالے اور جیوتی شنولی نے، اور چھتیس گڑھ سے پرشوتم ٹھاکر نے تعاون کیا ہے۔ اسٹوری میں شامل گیتوں کو پاری کے ’چکی کے گانوں کے پروجیکٹ‘ اور ’رن کے گیت: کچھی لوک موسیقی کی وراثت‘ پروجیکٹ سے لیا گیا ہے، جس کی پیشکش بالترتیب نمیتا وائیکر اور پرتشٹھا پانڈیہ کے ذمے ہے۔ اسٹوری میں شامل گرافکس سمویتی ایئر نے بنائے ہیں۔
کور فوٹو: پرشوتم ٹھاکر
مترجم: محمد قمر تبریز