ستیہ بھان اور شوبھا جادھو ٹریکٹر پر سوار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ’’کھانا پکانے کے لیے ہم اپنے ساتھ جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے باجرہ، آٹا اور نمک لے جاتے ہیں،‘‘ ستیہ بھان کہتے ہیں۔ ’’اس لیے ہمیں سفر کے دوران اور اس کے بعد بیلگام ضلع میں پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔‘‘
مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے تقریباً ۱۲۰۰ کی آبادی والے ایک دور افتادہ گاؤں بوڈکھا میں بہت سے دوسرے لوگ بھی اسی طرح کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اکتوبر کے آخری منگل کی اس گرم دوپہر کو وہ کپڑے، برتن، سفر کے لیے چپاتیاں اور دیگر اشیاء کی پیکنگ کر رہے ہیں، اور بوریاں اور تھیلیاں ٹریکٹر پر لوڈ کر رہے ہیں۔ گھروں کے معمولی لکڑی کے دروازوں پر لگے مضبوط تالوں کو بار بار آزمایا جا رہا ہے۔ یہ تالے اگلے پانچ مہینوں تک ان گھروں کو محفوظ رکھیں گے۔
یہ روانگی ایک سالانہ عمل ہے۔ ہر سال اکتوبر-نومبر کے درمیان ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے زیادہ کسان اور مزدور (کلکٹر کے اندازہ کے مطابق) صرف مراٹھواڑہ کے بیڈ ضلع سے ہجرت کرتے ہیں تاکہ مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک کے گنے کے کھیتوں میں ۴-۵ ماہ تک کام کرسکیں۔ اپنے گاؤوں میں کام کی کمی اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت، منڈی کی غیر یقینی صورتحال، قرضوں کا ناقص نظام، پانی کی کمی اور دیگر عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والا زرعی بحران نقل مکانی کا سبب بن رہے ہیں۔
جب وہ دور ہوتے ہیں، تو ان کے گاؤں تقریباً ویران ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف چند کمزور بوڑھے اور چند بچے رک جاتے ہیں۔ عموماً جب دادا دادی گاؤں میں بچوں کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے، تو والدین انہیں اسکول سے نکال کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ستیہ بھان اور شوبھا بھی اپنے ۹ اور ۱۲ سال کے لڑکوں کو چھوڑ کر چھ سالہ بیٹے ارجن کو ساتھ لے جا رہے ہیں۔ شوبھا کہتی ہیں، ’’وہ میرے ساتھ آنے پر بضد تھا۔ باقی دو بچے میرے ساس اور سسرکے پاس ہیں۔‘‘
چند دنوں میں، جادھو کنبہ اور بوڈکھا کے بہت سے دوسرے لوگ، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دلت اور بنجارہ برادریوں سے ہے، بیڈ سے تقریباً ۴۵۰ کلومیٹر دور کرناٹک کے گوکاک تعلقہ پہنچیں گے۔ وہاں پہنچنے کے لیے انہیں ایک کھلے پلیٹ فارم جیسے ٹریکٹر سے منسلک ٹریلر پر لگاتار ڈھائی دن کا سفر طے کرنا پڑے گا۔
سداشیو بَڈے ایک ٹھیکیدار ہیں جو کرناٹک میں گنے کے مختلف کارخانوں میں مزدوروں کی سپلائی کر تے ہیں۔ وہ ہر ٹریکٹر کے ساتھ ٹریلروں کو جوڑنے کی پوری کارروائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ’’میں ۲۰۰ ٹرکوں اور ٹریکٹروں کا ذمہ دار ہوں [ان میں سے زیادہ تر بیڈ کے گاؤوں سے نکل رہے ہیں]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہر گاڑی میں ۱۰ جوڑے ہوتے ہیں۔ میں پہلے ہی ایسی ۵۰ گاڑیاں بھیج چکا ہوں۔ اب بوڈکھا سے دو مزید گاڑیاں روانہ ہونے والی ہیں، جو اس گاؤں اور آس پاس کے دوسرے گاؤوں کے لوگوں کو لے کر جا رہی ہیں۔‘‘
دوپہر ڈھلتے ڈھلتے اور شام نزدیک آتے آتے بہت سے لوگ باجروں سے بھری اپنی تھیلیاں، آٹے اور نمک سے بھرے لکڑی کے ڈبوں اور بوریوں میں بھرے کپڑے اور برتن ٹریلرز پر رکھ دیتے ہیں۔ پانی سے بھرے نارنجی رنگ کے پلاسٹک کے برتن گاڑی کے دونوں طرف رسیوں سے بندھے ہوئے ہیں۔
سامان لوڈ ہونے کے بعد وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رات کے کھانے کے لیے واپس چلے جاتے ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر پر ان کا یہ رات کا آخری کھانا ہوگا۔ اگرچہ یہ ایک سالانہ جدائی ہے، لیکن جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں، وہ اپنے اہل خانہ کو ٹریکٹر ٹریلر پر چڑھتے ہوئے نم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ عورتیں اور چھوٹے بچے پہلے ٹریلر پر قبضہ جماتے ہیں، جبکہ مرد اور لڑکے دوسرے ٹریلر پر چڑھ جاتے ہیں۔ اپنے دادا دادی کے ساتھ پیچھے رہ جانے والے چھوٹے بچے اپنی ماؤں کو ٹریکٹر پر سوار ہوتے دیکھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ مائیں بھی دکھی اور غم زدہ دکھائی دیتی ہیں۔
لیکن شوبھا اس بار نسبتاً خوش نظر آ رہی ہیں۔ وہ گزشتہ ۱۷ سالوں سے ستیہ بھان (دونوں کی عمر اب ۴۰ کی دہائی میں ہے) کے ساتھ ہجرت کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’دیوالی اس سال جلدی آگئی۔ لہذا مجھے تہوار کے لیے اپنے پورے کنبے کے ساتھ رہنا پڑا۔ مہاجرت نے مجھے یہ بھول جانے پر مجبور کر دیا تھا کہ اپنے کنبے کے ساتھ دیوالی منانا کیسا ہوتا ہے۔‘‘
جنوب کا سفر شروع ہونے سے پہلے، کوئی زمین پر ناریل توڑتا ہے اور ۲۴ سالہ ٹریکٹر ڈرائیور مہادیو ٹڈکے انجن اسٹار کر دیتے ہیں۔ رات کے تقریباً ۱۰ بجے ہیں۔ ٹڈکے کا تعلق بھی بوڈکھا سے ہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ۱۹ سال کی عمر سے ہی تارکین وطن کو ڈھو رہے ہیں۔
’’جئے بھیم،‘‘ ستیہ بھان نعرہ لگاتے ہیں، اور ٹریکٹر ستاروں کی رشنی میں تاریک راستوں پر آگے بڑھنے لگتا ہے۔ ہوا میں خنکی ہے۔ مہادیو اپنی سیٹ کے پاس ایک ساکٹ میں پین ڈرائیو ڈالتے ہیں، اور ہندی فلمی گانوں کی اونچی آواز رات کے سناٹے کو چیرنے لگتی ہے۔ ٹریکٹر پر سوار لوگ تھیلیوں اور برتنوں کے درمیان خود کو درست کرتے ہوئے نیچے موجود لوگوں کو الوداع کہتے ہیں۔
بکریوں کے ایک جوڑے کو بھی ٹریلر میں جگہ مل گئی ہے۔ شوبھا کہتی ہیں، ’’وہ بیلگام میں دودھ کے لیے کارآمد ہوں گی۔‘‘ وہ اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ ان کا بیٹا ارجن ان کی گود میں آرام سے رہے۔ اس دوران ٹریکٹر اوبڑ کھابڑ راستوں پر آگے بڑھ رہا ہے۔ کار اور ٹرک نزدیک سے تیزی گزرتے ہیں۔ جب کھلے ٹریلر پر ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے، تو شوبھا ارجن کے لیے اپنے بیگ سے مَنکی ٹوپی نکالتی ہیں اور اپنی ساڑی کے پلو کو اپنے کانوں کے گرد لپیٹ لیتی ہیں۔ دوسرے لوگ اپنے سامان کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں اور اپنے ادھڑے اور پھٹے کمبل نکال لیتے ہیں، جو سردی سے ان کا بہت کم بچاؤ کرتے ہیں۔ کئی دوسرے سو بھی جاتے ہیں۔
ڈرائیور مہادیو کے گلے میں مفلر اور بدن پر پوری بازو کی قمیض ہے۔ وہ دیر رات تک بغیر اسٹریٹ لائٹ والے منحنی راستوں پر ٹریکٹر چلاتے ہیں۔ ساڑھے تین بجے کے قریب انہیں ایک وقفے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ’’بہت دباؤ ہے،‘‘ وہ آہ بھرتے ہیں۔ ’’میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی آنکھیں بند کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان کنبوں کو میں لے جا رہا ہوں۔‘‘
وہ جیسے ہی ہائی وے پر ایک خالی شیڈ دیکھتے ہیں گاڑی کنارے لگا لیتے ہیں۔ ایک کمبل نکالتے ہیں، اسے شیڈ میں پھیلاتے ہیں اور خود اس کے اندر سرک جاتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر مسافر (بشمول بچوں کے تقریباً ۲۴) ٹریلر پر ہی سو جاتے ہیں۔ چند گھنٹے بعد مہادیو واپس اپنی سیٹ پر آ جاتے ہیں۔
اگرچہ گنے کی کٹائی سے اتنی رقم نہیں ملتی جتنی پہلے ملا کرتی تھی، لیکن مستقل کام کی یقین دہانی ہی نکلجے اور دوسرے کنبوں کو ہر سال اپنے گھر چھوڑنے کے لیے کافی ہے
شوبھا، ستیہ بھان اور دیگر لوگ بدھ کی صبح تک ٹریکٹر پر جاگتے ہیں۔ مہادیو عثمان آباد کے کلمب تعلقہ میں ایک جھیل کے قریب ایک ویران جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہاں وہ سب اترتے ہیں اور رات بھر تنگ جگہ میں بیٹھنے کی وجہ سے اپنے اکڑے اعضاء کو سیدھا کرتے ہیں، منہ ہاتھ دھوتے ہیں، حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے (خواتین درختوں اور جھاڑیوں کے پیچھے پردے کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں) اور سب تازہ دم ہو جاتے ہیں۔
ایک گھنٹہ بعد صبح ساڑھے آٹھ بجے یرمالا کے ایک ڈھابے پر ناشتہ کا وقت ہو جاتا ہے۔ واضح طور پر یہ مزدوروں کا ایک عام ٹھکانہ ہے، کیونکہ یہاں کئی دوسرے ٹریکٹر ٹریلر قطار میں کھڑے ہیں۔ بوڈکھا سے ۱۲ کلومیٹر دور جودھنگانی گاؤں کے ۴۸ سالہ شیواجی نکلجے پوہا کا پلیٹ ہاتھ میں لیے کہتے ہیں کہ ہر سال گنے کی کٹائی کا کام کم ہوتا جا رہا ہے۔ نکلجے ۱۵ سالوں سے کرناٹک میں ہجرت کر رہے ہیں ’’ہمیں فی جوڑے تقریباً ۷۵ ہزار روپے یکمشت ادا کیے جاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیں ایک ٹن گنے کی کٹائی کے لیے ۲۲۸ روپے ملتے ہیں۔ مقررہ مدت کے بعد ٹھیکیدار ہمارے کاٹے گئے گنے کا حساب لگاتے ہیں اور کل رقم سے کچھ کٹوتی کرتے ہیں یا اس میں اضافہ کرتے ہیں۔‘‘ ۷۵ ہزار روپے کمانے کے لیے مزدوروں کے ایک جوڑے کو تقریباً ۳۳۵ ٹن گنے کی کٹائی کرنی ہوگی۔
نکلجے اپنی بیوی ارچنا اور ۱۵ سالہ بیٹی سرسوتی کے ساتھ سفر پر ہیں۔ سرسوتی تقریباً تین سالوں سے ان کے ساتھ ہجرت کر رہی ہیں۔ ’’میں نے ساتویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں اپنے والدین کے ساتھ سفر کرتی ہوں کیونکہ میں ان کا بوجھ کم کر سکتی ہوں۔ وہ دن بھر گنے کے کھیتوں میں محنت کرتے ہیں۔ اگر میں ان کے ساتھ رہوں گی تو انہیں اتنی سخت محنت کے بعد کھانا نہیں بنانا پڑے گا۔‘‘
چلتے ٹریکٹر میں ارچنا بتاتی ہیں کہ وہ اس سالانہ سفر پر کیوں نکلتی ہیں: ’’ہماری اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ ہم بوڈکھا اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مجھے روزانہ ۱۰۰ روپے ملتے ہیں اور شیواجی کو ۲۰۰ روپے۔ لیکن یہ آمدنی بھی غیریقینی ہے، کیونکہ ناقابل اعتبار بارش نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ان دنوں کھیتوں میں شاید ہی کوئی کام ہو۔ پچھلے مہینے ہم دونوں نے مل کر صرف ۱۰۰۰ روپے کمائے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی معمولی بچت سے اور ’’اِدھر اُدھر‘‘ سے چھوٹی رقم ادھار لے کر گزارہ کیا تھا۔
اگرچہ اب گنے کی کٹائی سے اتنی رقم نہیں ملتی جتنی پہلے ملا کرتی تھی، لیکن مستقل کام کی یقین دہانی ہی نکلجے اور دیگر کنبوں کو ہر سال پانچ ماہ کے لیے اپنے گھر چھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ارچنا کہتی ہیں، ’’پچھلے سال، ہم نے صرف ۴۰ ہزار روپے کمائے، کیونکہ گنے کی بہت سی فیکٹریوں میں زیادہ کام نہیں تھا۔ کچھ سال پہلے، ہم نے ایک لاکھ کے قریب کمائی کی تھی۔ بارش کی کمی کا مطلب ہے گنے کی کم کھیتی۔‘‘
تھوڑی دیر میں ہم مغربی مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبہ کردوواڑی پہنچ جاتے ہیں، جہاں دوپہر کے کھانے کے لیے رکتے ہیں۔ سبھی دوبارہ ٹریکٹر سے اتر جاتے ہیں۔ ان کے کپڑوں پر سلوٹیں پڑ گئی ہیں، بال بکھرے ہوئے ہیں، تھکاوٹ ان کے چہروں پر صاف دکھائی دے رہی ہے۔
آدی ناتھ ٹڈکے (۱۷) کے قدموں میں اسپرنگ ہے۔ وہ دو سال سے ہجرت کر رہے ہیں، اور پہلی بار انہیں ان کے چچا کے برابر محنتانہ ملے گا، جو ایک ہی ٹریکٹر ٹریلر پر سفر کر رہے ہیں۔ ’’پچھلے سال تک، مجھے ایک ٹن گنے کی کاٹئی کے لیے ۱۹۰ روپے ملتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس بار، مجھے بالغوں کے برابر مزدوری ملے گی۔‘‘
کردوواڑی کے پرسکون ڈھابے پر، تھکے ہوئے مسافر صرف دال کا آرڈر دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے ساتھ لائے بھاکری اور چٹنی کے ساتھ کھا سکیں۔ شوبھا کہتی ہیں، ’’شام کے ناشتہ کے لیے ہمارے پاس لڈو اور چیوڑا ہے جو ہم دیوالی کے وقت تیار کرتے ہیں۔‘‘
رات کے ساڑھ آٹھ بجے یہ ٹریکٹر مغربی مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کے تیرتھ استھان پنڈھر پور میں داخل ہوتا ہے، جو بیڈ سے ۱۸۰ کلومیٹر دور ہے۔ ڈھابے پر رات کے کھانے کے بعد ہوا میں خنکی واپس آ جاتی ہے۔ مفلر، سویٹر اور کمبل دوبارہ تھیلوں سے نکالے جاتے ہیں۔
جمعرات کی آدھی رات کے قریب جب تھکے ماندے مسافر گوکاک کی ستیش شوگر فیکٹری پہنچتے ہیں، جہاں گنے سے لدے کئی ٹرک کھڑے ہیں۔ ستیہ بھان کہتے ہیں، ’’آخر کار ایک اچھی نیند لینے کا وقت آگیا ہے۔ ہر شخص شوگر فیکٹری کے آس پاس زمین پر اپنی اپنی چادریں بچھا دیتا ہے۔ اگلی صبح انہیں گنے کاٹنے کا مشکل کام شروع کرنا ہوگا۔
مترجم: شفیق عالم