ہمارے لیے اپنے جسم کو پینٹ کرانا ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے ہمیں رات بھر جاگنا ہوتا ہے،‘‘ آیوش نائک بتاتے ہیں، جو اپنے بدن پر پہلی بار آئل پینٹ لگا رہے ہیں۔ ’’پینٹ کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری جلد جل رہی ہو۔ اس لیے ہمیں جلد از جلد بدن پر لگے پینٹ کو خشک کرنا ہوتا ہے،‘‘ ۱۷ سالہ آیوش بتاتے ہیں۔
آیوش ساحلی کرناٹک کے اُن متعدد نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں سے ایک ہیں جو پِلی ویشا (جسے ہُلی ویشا بھی کہا جاتا ہے) کی تیاری کے لیے اپنے جسم پر چمکدار رنگوں کی دھاریاں پینٹ کراتے ہیں۔ اس مقامی رقص (فوک ڈانس) کو دشہرہ اور جنماشٹمی کے دوران پیش کیا جاتا ہے۔ پیشکش کے دوران فنکار ڈھول (تاشہ) کی تیز تھاپوں کے بیچ باگھ کا مکھوٹا لگا کر غراتے ہوئے رقص کرتے ہیں۔
کرناٹک کے ساحلی علاقے میں بولی جانے والی تُلو زبان میں پلی کا مطلب باگھ (شیر) ہوتا ہے، اور ویشا کا مطلب میک اپ ہے۔ ’’آپ کو یہ کسی سے بھی کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہماری روح میں ہے،‘‘ گزشتہ ۲۲ برسوں سے پِلی ویشا پرفارم کرنے والے ویرندر شیٹّیگر کہتے ہیں۔ ’’ڈھول کی آواز اور آس پاس کی توانائی مل کر ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ آپ رقص کیے بغیر نہیں رہ سکتے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ تقریباً ۳۰ سال کے ویرندر امیزون میں ڈسٹربیوٹر ہیں اور اپنے گاؤں کے نوجوانوں کو یہ رقص کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
رقص کرنے والے فنکار باگھ، تیندوا اور چیتا جیسے دکھائی دینے والے اپنے پورے جسم پر ایکریلک پینٹ سے زرد اور بھوری دھاریاں بنواتے ہیں۔ پہلے زمانے میں باگھ جیسا دکھائی دینے کے لیے یہ فنکار رنگوں کی خاطر چارکول، گیلی مٹی، جڑوں اور پھپھوند کا استعمال کیا کرتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رقص میں آزمائے جانے والے روایتی انداز کا مقام متعدد کرتبوں، مثلاً پیچھے اور دائیں بائیں پلٹی مارنا، سر کے ایک وار سے ناریل توڑ دینا، منہ سے آگ کی لپٹ اُگلنا اور دیگر قلا بازیوں نے لے لیا ہے۔ پورے رقص میں اتنی زیادہ جسمانی محنت کی ضرورت ہوتی ہے کہ اب بزرگ فنکاروں نے اس روایتی رقص کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری نوجوانوں کے کندھوں پر ڈال دی ہے۔
اس روایتی رقص کی تیاریاں پروگرام کے ایک دن پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم اور چہرے کو پینٹ کرنے میں گھنٹوں کی محنت لگتی ہے اور یہ رنگ کوئی دو دن تک، جب تک کہ جشن پوری طرح سے ختم نہیں ہو جاتا، یوں ہی بنا رہتا ہے۔ ’’شروع میں تو یہ مشکل کام لگتا ہے، لیکن جیسے جیسے ڈھول کی آواز کانوں میں گونجنے لگتی ہے ویسے ویسے پاؤں خود بخود تھرکنے لگتے ہیں،‘‘ ۱۲ویں جماعت میں پڑھنے والے آیوش بتاتے ہیں۔
تاشہ کی تھاپ پر تھرکتے پِلی کے جیسے رنگے فنکار اپنی عقیدت دکھانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تفریح کرنے کے لیے بھی ناچتے ہیں۔ لڑکے باگھ کی طرح دکھائی دینے کے لیے پورے جسم پر پینٹ کراتے ہیں، جب کہ لڑکیاں صرف اپنے چہرے کو پینٹ کراتی ہیں اور باگھ کی طرح نظر آنے والی پوشاک پہنتی ہیں۔ پِلی ویشا میں لڑکیوں کی حصہ داری حالیہ برسوں میں ہی شروع ہوئی ہے۔
پہلے کے زمانے میں پرفارم کرنے والے فنکاروں کے گروپوں کو انعام یا اعزازیہ کے طور پر چاول اور دھان – یا وہ فصلیں، جو عموماً ساحلی کرناٹک میں اُگائی جاتی تھیں – دی جاتی تھیں۔ آج اناجوں کی جگہ پیسوں نے لے لی ہے۔ دو دن کے ایک پروگرام کے عوض ۲۵۰۰ روپے لیے جاتے ہیں۔ کرتب دکھانے والے فنکار کو جشن کے دو دنوں کے لیے اضافی ۶۰۰۰ روپے ملتے ہیں۔ ’’اتنے لوگوں کو ایک ساتھ رقص کرتے دیکھ کر آپ کو بھی پلی ویشا پرفارم کرنے کی خواہش ہونے لگتی ہے،‘‘ آیوش کہتے ہیں۔
زیادہ تر پروگرام ہاؤسنگ کالونیوں کی کمیٹیوں کے ذریعہ منعقد کیے جاتے ہیں۔ آیوش اور ان کے گروپ کے ساتھی ’یوا ٹائیگرز منچی‘ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، جو سال بھر اڈوپی کے منی پال میں پلی ویشا کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کو منعقد کرنے میں دو لاکھ سے بھی زیادہ روپیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ رقم فنکاروں اور پینٹروں کو ادا کرنے میں خرچ کی جاتی ہے۔ سفر، کھانا، پینٹ اور پوشاکوں پر ہونے والے اخراجات بھی اسی فنڈ سے پورے کیے جاتے ہیں۔
حالانکہ، لوگوں کی تفریح کرنا فنکاروں کی اولین ترجیح ہوتی ہے، لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس میں صدیوں سے چلی آ رہی روایات کے تئیں احترام اور شائستگی بھی برقرار رہے۔ جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، تب ’’ہمارا جسم پوری طرح تھک چکا ہوتا ہے، لیکن لوگوں کی تفریح کرنے کے لیے ہمیں اس روایت کو زندہ رکھنا ہوگا،‘‘ آیوش کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز