پردے کے پیچھے سے بھاگ کر ایک نوجوان چراغ کے پاس پہنچتا ہے کہ وہ بجھ نہ جائے۔ ایک گھنٹہ کی پیشکش کے دوران اسے کئی بار یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اسے یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوتا ہے کہ اس دوران وہ اپنے ساتھیوں یا ساز و سامان کو غلطی سے چھیڑ نہ دے۔
ان میں سے تمام لوگ تول پاوکوت کٹھ پتلی فنکار ہیں۔ پیشکش کے دوران یہ فنکار ہمیشہ پردے کے پیچھے رہتے ہیں۔
اس سفید سوتی پردے کے دوسرے جانب، ہاتھ میں چمڑے کی کٹھ پتلیاں پکڑے یہ فنکار مسلسل ادھر سے ادھر جاتے رہتے ہیں۔ ان کے پیروں کے پاس تقریباً ۶۰-۵۰ دوسری کٹھ پتلیاں پڑی ہوئی ہیں، جو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ باہر اسپیکر پر قصہ گو کی آواز سنائی دے رہی ہے، اور پردے پر اس کے سائے حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس فن کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ فنکاروں کی اصل محنت اور پیشکش پر کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ اس لیے ۲۰۲۱ میں جب کٹھ پتلی فنکار رام چندر پُلوَر کو ملک کے چوتھے سب سے بڑے شہری اعزاز – پدم شری سے نوازا گیا، تو وہ جشن کا موقع تھا اور پردے کے پیچھے کے فنکار دنیا کے سامنے نظر آئے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا تھا، ’’یہ انعام…گزشتہ کئی برسوں سے اس فن کو زندہ رکھنے والے فنکاروں کی مجموعی کوشش کا نتیجہ ہے۔‘‘
حالانکہ، پُلوَر اور ان کے گروپ کو اس کامیابی کی قیمت چکانی پڑی ہے۔ ان کے ناقدین اور عقیدت مندوں نے ان پر اس فن کو کاروبار میں تبدیل کر دینے کا الزام لگایا ہے۔ لیکن رام چندر پر ان تنقیدوں کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اپنا پیٹ پالنے اور گزر بسر کرنے کے لیے اسے کاروباری ہونا ہی چاہیے۔ اگر اداکار اور رقص کرنے والے اپنے کام کے لیے پیسے لے سکتے ہیں، تو ہم کٹھ پتلی فنکار کیوں نہیں؟‘‘
روایتی طور پر تول پاوکوت کی پیشکش صرف کیرالہ کے مندروں میں اور فصل کٹائی کے تہواروں کے دوران کی جاتی تھی۔ لیکن گزشتہ ۲۰ برسوں میں، پلکڑ ضلع کے کولپّارا کٹھ پتلی گروپ کے ۶۳ سالہ رام چندر اور ان کی ٹیم نے پرانی روایت سے باہر نکل کر، نئے دور کے حساب سے تول پاوکوت کی پیشکش الگ الگ جہگوں پر شروع کی ہے۔ آج، سایہ کٹھ پتلی تھیٹر کا طرز فن متعدد نئی تبدیلیوں اور مختلف قسم کے تجربات سے گزر چکا ہے۔ تہواروں کے دوران روایتی طور پر کٹھ پتلی کی پیشکش یہاں دیکھیں: ملابار میں سماجی ہم آہنگی کی علامت، سایہ کٹھ پتلی
اس کی شروعات رام چندر کے والد کرشنن کُٹّی پُلوَر نے کی تھی، اور تول پاوکوت کو روایتی دنیا سے باہر لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پہلے اس میں صرف رامائن جیسی مذہبی داستانوں کی پیشکش ہوتی تھی، لیکن اب ان میں بہت سی دیگر کہانیوں کی بھی پیشکش ہونے لگی ہے۔ کیرالہ کی روایتی کٹھ پتلی میں مہاتما گاندھی کی کہانی پہلی بار اکتوبر ۲۰۰۴ میں ایڈپّل میں پیش کی گئی تھی۔ تب سے اسے ۲۲۰ سے زیادہ بار پرفارم کیا جا چکا ہے۔
ناظرین نے اس کی خوب تعریف کی، جس کے بعد کوَلپّارا گروپ کے لیے نئے دروازے کھل گئے۔ انہوں نے اسکرین پلے تیار کرنا، کٹھ پتلیاں بنانے کے لیے کٹھ پتلیوں کے اسکیچ ڈیزائن کرنا، فن کی نئی تکنیکوں کا استعمال کرنا، کہانی بیان کرنا، گانے لکھنا اور اسٹوڈیو میں انہیں ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ گروپ نے عیسیٰ مسیح کی پیدائش، مہا بلی، پنچ تنتر جیسے موضوعات پر مبنی مختلف قسم کے اسکرین پلے تیار کیے ہیں۔
کولپّارا کے کٹھ پتلی فنکاروں نے کمارن آشان کی لکھی نظم ’چانڈال بھکشوکی‘ جیسی تخلیقات پر مبنی کہانیوں کے ذریعہ لوگوں کو بیدار کرنے کا بھی کام کیا ہے۔ چانڈال بھکشوکی نظم گوتم بدھ کے روحانی اثرات کو پیش کرتی ہے۔ اسی طرح، ۲۰۰۰ کی دہائی سے انہوں نے ایچ آئی وی، جنگلات کی کٹائی اور انتخابی مہم سے متعلق بیداری پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ کٹھ پتلی فنکاروں نے فن کی مختلف شکلوں اور فنکاروں کے ساتھ بھی کام کیا اور ملی جلی پرفارمنس بھی تیار کی۔
اختراع، استقامت اور آج کے دور میں تول پاوکوت کی بقا کے جذبے پر مبنی ڈاکیومینٹری فلم۔
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز