شکلا گھوش کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کی کوئی سیکورٹی نہیں ہے۔ وہ رات کو آٹھ یا نو بجے کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔‘‘ وہ مغربی میدنی پور کے کواپور گاؤں کی بات کر رہی ہیں۔ ’’لڑکیاں ڈری ہوئی ہیں، لیکن وہ مظاہرہ کرنے اور احتجاج درج کرانے کی ضرورت بھی محسوس کرتی ہیں۔‘‘

گھوش اور کواپور کی لڑکیاں مغربی بنگال کے گاؤوں اور چھوٹے شہروں سے آئے ہزاروں کسانوں، زرعی مزدوروں اور محنت کشوں کے ہجوم میں شامل ہیں، جنہوں نے پچھلے ہفتے کولکاتا کے آر جی کر اسپتال میں ایک نوجوان زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ہوئی بے رحم عصمت دری اور قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

گزشتہ ۲۱ ستمبر ۲۰۲۴ کو منعقد احتجاجی مارچ، وسط کولکاتا کے کالج اسٹریٹ سے شروع ہوا اور تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے شیام بازار کی طرف بڑھا۔

مظاہرین کے مطالبات میں فوری انصاف اور قصورواروں کو سخت سزا، کولکاتا کے پولیس کمشنر کا استعفیٰ (جو مظاہرہ کر رہے ڈاکٹروں کی بھی مانگ تھی اور جسے سرکار نے قبول کر لیا ہے)، اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا استعفیٰ شامل تھا، جن کے پاس صحت اور خاندانی بہبود، اور امور داخلہ اور پہاڑی علاقوں کا چارج بھی ہے۔

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: مغربی میدنی پور میں آئی سی ڈی ایس ملازمین کی ضلع سکریٹری شکلا گھوش کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں کواپور کی لڑکیاں محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں۔ دائیں: میتا رے زرعی مزدور ہیں اور ہگلی کے ناکندہ سے احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے آئی ہیں

تیلوتّما تومار نام، جُڑچھے شوہور، جُڑچھے گرام [تیلوتّما تمہارے نام سے شہر اور گاؤں جڑ رہے ہیں]!‘‘ ریلی میں یہ نعرہ گونج رہا ہے۔ ’تیلوتمّا‘ وہ نام ہے جو شہر نے ۳۱ سالہ متوفی کو دیا ہے۔ یہ دیوی دُرگا کے متعدد ناموں میں سے ایک ہے اور اس کا مطلب ہے ’جو سب سے عمدہ مٹی سے بنی ہو‘۔ یہ کولکاتا شہر کے لیے بھی بطور خاص استعمال ہوتا ہے۔

مغربی میدنی پور میں آئی سی ڈی ایس ملازمین کی ضلع سکریٹری شکلا سوال پوچھتی ہیں، ’’عورتوں کو محفوظ محسوس کرانا پولیس اور افسروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر لڑکیوں کو نظر آ رہا ہے کہ وہ ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو وہ کیسے خود کو محفوظ محسوس کریں گی؟‘‘

مظاہرین میں شامل میتا رے پوچھتی ہیں، ’’انہوں نے [سرکار] ہم زرعی مزدوروں کی حفاظت کے لیے کیا کیا ہے؟ گاؤں کی لڑکیاں رات میں باہر جانے سے ڈرتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں یہاں آئی ہوں۔ ہمیں عورتوں اور لڑکیوں کی حفاظت کے لیے لڑنا ہوگا۔‘‘ میتا رے، ہُگلی ضلع کے ناکُندہ کی ایک زرعی مزدور ہیں۔

میتا (۴۵) کہتی ہیں کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کرنے کی بجائے ایک پکّے بیت الخلاء کو ترجیح دیں گی۔ میتا کے پاس دو بیگھہ زمین ہے، جس پر وہ آلو، دھان اور تل کی کھیتی کرتی ہیں، لیکن حالیہ سیلاب نے فصل کو برباد کر دیا ہے۔ میتا کہتی ہیں، ’’ہمیں کوئی معاوضہ نہیں ملا۔‘‘ وہ ایک دن میں ۱۴ گھنٹے کام کر کے ۲۵۰ روپے کماتی ہیں۔ وہ اپنے کندھے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کا سرخ پرچم لیے ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کو کھو دیا، لیکن انہیں بیوہ پنشن نہیں ملتی۔ انہیں ترنمول کانگریس کی قیادت والی حکومت کی ایک بڑی اسکیم، لکشمی بھنڈار کے تحت ۱۰۰۰ روپے ملتے ہیں، لیکن وہ بتاتی ہیں کہ یہ ان کی فیملی کو چلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

کولکاتا کے نیشنل میڈیکل کالج اور ہسپتال کی دیواروں پر بنے خاکے

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: نیشنل میڈیکل کالج اور ہسپتال کی دیواروں پر بنائے گئے خاکوں میں لکھا ہے، ’حکومت زانیوں کو بچاتی ہے، اس لیے حکومت زانی ہے‘۔ دائیں: ’پدری نظام برباد ہو‘

*****

’’میں یہاں آئی ہوں کیوں کہ عورت ہوں۔‘‘

مالدہ ضلع کے چانچل گاؤں کی زرعی مزدور بانو بیوہ نے اپنی پوری زندگی کام کرتے ہوئے گزاری ہے۔ بانو (۶۳) اپنے ضلع کی دیگر خواتین کے ایک گروپ میں کھڑی ہیں، جنہوں نے ریلی میں حصہ لیا ہے اور خواتین مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑنے کی خاطر پرعزم ہیں۔

’’عورتوں کو رات میں کام کر سکنے کی آزادی ہونی چاہیے،‘‘ نمیتا مہتو حکومت کی اس ہدایت کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اسپتالوں میں خواتین ملازمین کو رات کی ڈیوٹی نہیں دی جائے گی۔ معاملہ کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ نے اس ہدایت کی مذمت کی ہے۔

عمر کی پانچویں دہائی میں نمیتا، پرولیہ ضلع کی خواتین کے ایک گروپ کے ساتھ کالج اسکوائر کے گیٹ کے سامنے کھڑی ہیں – یہ ایک مصروف ترین علاقہ ہے، جہاں تین یونیورسٹیاں، اسکول، کتابوں کی کئی دکانیں اور اسٹور اور انڈین کافی ہاؤس واقع ہے۔

گورنگڈی گاؤں کی نمیتا، کُرمی برادری (ریاست میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج) سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک ٹھیکیدار کے یہاں رنگ مستری (پینٹر) کے طور پر کام کرتی ہیں، جس کے لیے انہیں ایک دن کے ۳۵۰-۳۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں لوگوں کے گھروں کی کھڑکیاں، دروازے اور گریل پینٹ کرتی ہوں۔ ایک بیوہ ہونے کے ناطے، انہیں حکومت کے ذریعہ دی جانے والی پنشن ملتی ہے۔

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: مالدہ کی زرعی مزدور بانو بیوہ (ہری ساڑی میں) کہتی ہیں، ’میں یہاں آئی ہوں کیوں کہ عورت ہوں۔‘ دائیں: پرولیہ ضلع کی دہاڑی مزدور نمیتا مہتو (گلابی ساڑی میں) کہتی ہیں کہ ان کے کام کی جگہ پر سیکورٹی کو یقینی بنانا ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: مظاہرین میں سے ایک انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے گیت گا رہے ہیں۔ دائیں: مغربی بنگال زرعی مزدور یونین کے صدر توشار گھوش کہتے ہیں، ’آر جی کر کے واقعہ کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں میں مزدور طبقہ کی خواتین کی روزمرہ کی جدوجہد کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے‘

نمیتا اپنے بیٹے، جو لوہے کی ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے، اور اپنی بہو اور ایک پوتی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی خود کی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ وہ شکایت کرتی ہیں، ’’آپ جانتے ہیں، اس نے تمام امتحانات اور انٹرویو پاس کیے، لیکن اس کا جوائننگ لیٹر کبھی نہیں آیا۔ اس حکومت نے ہمیں نوکریاں نہیں دیں۔‘‘ فیملی سال میں ایک بار اپنی ایک بیگھہ زمین پر دھان کی کھیتی بھی کرتی ہے اور اپنی فصلوں کی پیداوار کے لیے بارش کے پانی پر منحصر ہے۔

*****

آر جی کر معاملہ میں جس نوجوان ڈاکٹر پر اس کے کام کی جگہ پر حملہ ہوا اور قتل کر دیا گیا، اس نے مزدور طبقہ کی عورتوں کے مسائل کو مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ مغربی بنگال زرعی مزدور یونین کے صدر توشار گھوش بتاتے ہیں کہ ماہی گیروں، اینٹ بھٹہ اور منریگا مزدوروں کے لیے بیت الخلاء کی کمی، کریچ کی عدم موجودگی اور مردوں کے مقابلے عورتوں کی اجرت میں بڑا فرق جیسے ایشوز اہم ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’آر جی کر کے واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں مزدور طبقہ کی عورتوں کی روزمرہ کی جدوجہد کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے۔‘‘

گزشتہ ماہ ۹ اگست ۲۰۲۴ کو ہوئے واقعہ کے بعد سے، مغربی بنگال میں احتجاجی مظاہروں کی لہر چل رہی ہے۔ شہروں، قصبوں اور گاؤوں سے عام لوگ، جن میں کافی تعداد میں عورتیں شامل ہیں، رات کے وقت اور عوامی مقامات پر اپنے حقوق کو پھر سے قائم کرنے کے لیے سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ ریاست کے مختلف حصوں سے جونیئر ڈاکٹروں کا احتجاجی مظاہرہ بھی سرکاری میڈیکل کالجوں میں پھیلی بدعنوانی، طاقت کے غلط استعمال اور ڈرانے دھمکانے کے کلچر کو اجاگر کر رہا ہے۔ واقعہ کے ایک مہینہ سے زیادہ عرصے کے بعد بھی احتجاجی مظاہروں میں کوئی کمی آنے کے اشارے نہیں مل رہے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sarbajaya Bhattacharya

సర్వజయ భట్టాచార్య PARIలో సీనియర్ అసిస్టెంట్ ఎడిటర్. ఆమె బంగ్లా భాషలో మంచి అనుభవమున్న అనువాదకురాలు. కొల్‌కతాకు చెందిన ఈమెకు నగర చరిత్ర పట్ల, యాత్రా సాహిత్యం పట్ల ఆసక్తి ఉంది.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Editor : Priti David

ప్రీతి డేవిడ్ పీపుల్స్ ఆర్కైవ్ ఆఫ్ రూరల్ ఇండియాలో జర్నలిస్ట్, PARI ఎడ్యుకేషన్ సంపాదకురాలు. ఆమె గ్రామీణ సమస్యలను తరగతి గదిలోకీ, పాఠ్యాంశాల్లోకీ తీసుకురావడానికి అధ్యాపకులతోనూ; మన కాలపు సమస్యలను డాక్యుమెంట్ చేయడానికి యువతతోనూ కలిసి పనిచేస్తున్నారు.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

కమర్ సిద్దీకీ, పీపుల్స్ ఆర్కైవ్ ఆఫ్ రూరల్ ఇండియాలో ఉర్దూ భాష అనువాద సంపాదకులుగా పనిచేస్తున్నారు. ఆయన దిల్లీకి చెందిన పాత్రికేయులు.

Other stories by Qamar Siddique