’’اے بیٹی، تنی ایک کھودا چنہا لے لے۔
مرتو جیتو میں ساتھ ہوئے لا…
جئیسن آئیل ہے تئیسن اکیلے نہ جا…‘‘

’’[اے بیٹی، ایک گودنا گودوا لو۔
موت و حیات میں یہ تمہارے ساتھ رہے گا…
تم یہاں سے اکیلی نہیں جاؤگی جیسے کہ اکیلی آئی تھی…]‘‘

راج پتی دیوی، مانڈر بلاک کے گاؤوں میں گھر گھر جاتی ہیں اور یہ لائنیں گاتی ہیں۔ ان کے کندھے پر پلاسٹک کی بوری لٹکی ہوئی ہے اور ان کے ساتھ کچھ برتن اور سوئیوں کا ایک ڈبہ ہے۔ راج پتی گودنا کار (ٹیٹو فن کار) ہیں، اور پیسوں کے عوض پھول، چاند، بچھو اور نقطے وغیرہ گود سکتی ہیں۔ یہ ۴۵ سالہ گودنا کار ان خواتین فنکاروں میں سے ہیں جو آج بھی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جا کر اس قدیم ہنر کا مشق کرتی ہیں۔

’’مائی سنگی جات رہی ت دیکھت رہی اوہن گودت رہن، ت ہمہو دیکھا دیکھی سیکھت رہی۔ کرتے کرتے ہم ہو سیکھ گئیلی، [میں اپنی ماں کے ساتھ جاتی تھی اور انہیں گودنا گودتے دیکھتی تھی۔ اور اس طرح میں نے بھی اسے سیکھ لیا]،‘‘ پانچویں نسل کی گودنا کار راج پتی کہتی ہیں۔

گودنا صدیوں پرانا علاقائی ہنر ہے، جو ملار برادری (ریاست میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج) میں نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ راج پتی بھی اسی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ گودنے میں، جسم کے الگ الگ حصوں پر ڈیزائن بنائے جاتے ہیں، اور ان کے معنی اور علامت الگ الگ علاقوں اور برادریوں میں الگ ہوتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے گودنا عورتیں زیادہ بنواتی ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: راج پتی دیوی اپنے شوہر شیو ناتھ ملار، بیٹے سونو اور پوتے اتُل کے ساتھ گھر کے سامنے بیٹھی ہیں۔ دائیں: وہ اپنے بازو پر بنا گودنا دکھاتی ہیں – پوتھی (اوپر) اور ڈنکا پھول (نیچے)

دوپہر کے تین بج رہے ہیں اور راج پتی چھ گھنٹے سے جھارکھنڈ کے رانچی ضلع کے گاؤوں میں پیدل گھوم رہی ہیں۔ وہ مانڈر کے کنارے آباد ملار برادری کی ایک چھوٹی سی – کھڑگے – بستی میں اپنے دو کمروں کے کچے گھر میں لوٹتی ہیں۔ کئی بار وہ ۳۰ کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرتی ہیں، اور گھر پر بنائے برتن بیچتی ہیں اور لوگوں سے گودنا گودوانے کی اپیل کرتی ہیں۔

ان برتنوں کو ان کے ۵۰ سالہ شوہر شیو ناتھ بناتے ہیں، جس کے لیے وہ ڈوکرا نامی دھات سے جڑی روایتی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔ گھر کے مرد – ان کے بیٹے اور شوہر – ہی ایلومینیم اور پیتل کی چیزیں تیار کرتے ہیں، حالانکہ گھر کا ہر ممبر کسی نہ کسی شکل میں ان کی مدد کرتا ہے۔ راج پتی، ان کی بیٹی اور بہو تمام دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ سانچے بناتی ہیں اور انہیں دھوپ میں سُکھاتی ہیں۔ فیملی روزمرہ کے ضروری سامان بناتی ہے – مٹی کے تیل کے لیمپ، پوجا میں استعمال ہونے والے برتن، مویشیوں کی گھنٹیاں اور چیزوں کی پیمائش کے برتن۔

’’یہ چھوٹا والا ۱۵۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے،‘‘ راج پتی کہتی ہیں، جسے ان کی ناگپوری زبان میں پئیلا کہتے ہیں۔ ’’یہ چاول ناپنے کے کام آتا ہے؛ اگر آپ اس میں چاول بھریں گے، تو وزن ٹھیک چوتھائی کلو نکلے گا،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ان کے مطابق، اس عاقہ میں پئیلا کو مبارک مانا جاتا ہے، اور ایسا عقیدہ ہے کہ اس سے گھر میں اناج کی کمی نہیں ہوتی ہے۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: شیو ناتھ، ڈوکرا نامی دھات سے جڑی روایتی تکنیک کا استعمال کر کے برتن بناتے ہیں۔ دائیں: ان کے گھر کے باہر کی وہ جگہ جہاں پر برتن بناتے ہیں

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: راج پتی، رانچی ضلع کے مانڈر بلاک میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جا کر برتن بیچتی ہیں۔ دائیں: چیپھادوہر گاؤں کی رہنے والی گوہمنی دیوی چاول ناپنے کے لیے استعمال کیا جانے والا پئیلا دکھا رہی ہیں

*****

ہمیں ایک چھوٹا سا پیلا ڈبہ دکھاتے ہوئے گودنا کار کہتی ہیں، ’’اس میں سوئیاں ہیں اور اس میں جرجری کاجر [کاجل] ہے۔‘‘

پلاسٹک کی تھیلی سے ایک کاغذ نکالتے ہوئے، راج پتی اپنے بنائے ڈیزائن کے بارے میں بتاتی ہیں۔

’’اس کو پوتھی کہتے ہیں، اور اس کو ڈنکا پھول،‘’ راج پتی ایک ڈیزائن کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس میں گملے میں کھلا پھول نظر آتا ہے، جسے انہوں نے اپنے بازو پر بنوایا ہوا ہے۔ ’’اس کو ہسولی کہتے ہیں، یہ گلے میں بنتا ہے،‘’ راج پتی آدھے چاند سا ڈیزائن دکھاتے ہوئے کہتی ہیں۔

راج پتی عام طور پر جسم کے پانچ حصوں پر گودنا گودتی ہیں: ہاتھ، پیر، ٹخنہ، گردن اور پیشانی۔ اور ہر ایک کے لیے خاص ڈیزائن ہوتا ہے۔ ہاتھ میں عموماً پھول، پرندے اور مچھلیاں گودی جاتی ہیں، جب کہ گردن اور گھماؤ دار لکیروں اور نقطوں کے سہارے دائرہ کار پیٹرن بنایا جاتا ہے۔ پیشانی کا گودنا قبیلہ کے حساب سے الگ ہوتا ہے۔

’’ہر آدیواسی برادری کی اپنی الگ گودنا روایت ہے۔ اوراؤں لوگ مہادیو جٹّ [مقامی پھول] اور دیگر پھول بنواتے ہیں؛ کھڑیا لوگوں کے گودنے میں تین سیدھی لکیریں نظر آتی ہیں اور مُنڈا نقطوں والا گودنا گودواتے ہیں،‘‘ راج پتی بتاتی ہیں۔ ان کے مطابق، پچھلے زمانے میں لوگوں کو ان کی پیشانی پر گودے گودنے سے پہچانا جاتا تھا۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: راج پتی عام طور پر جسم کے پانچ حصوں پر گودنا گودتی ہیں: ہاتھ، پیر، ٹخنہ، گردن اور پیشانی۔ ہر ایک کا خاص ڈیزائن ہوتا ہے۔ پیشانی کا گودنا قبیلہ کے حساب سے الگ ہوتا ہے۔ دائیں: راج پتی دیوی کے ساتھ موہری دیوی۔ وہ بھی ایک گودنا کار ہیں

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: سنیتا دیوی نے اپنے ہاتھ پر پھول کا گودنا بنوایا ہے، جسے مقامی لوگ مہادیو جَٹّ کہتے ہیں۔ دائیں: ان کے پیروں پر سُپلی (بانس کی ٹوکری) کا گودنا بنا ہوا ہے، جو ان کی دلت برادری میں تقدس کو ظاہر کرتا ہے، اور اس سے انہیں مبینہ اونچی ذات کے زمینداروں کے کھیتوں میں کام کرنے کو مل جاتا ہے

سنیتا دیوی کے پیر پر سُپلی (بانس کی ٹوکری) کا گودنا بنا ہوا ہے۔ پلامو ضلع کے چیچریا گاؤں کی رہنے والی ۴۹ سالہ سنیتا کا کہنا ہے کہ ان کا گودنا تقدس کو ظاہر کرتا ہے۔ ’’پہلے کے دور میں، اگر آپ کے پاس یہ گودنا نہیں ہوتا تھا، تو آپ کھیتوں میں کام نہیں کر سکتے تھے۔ ہمیں ناپاک تصور کیا جاتا تھا، لیکن گودنا بنوانے کے بعد ہم پاک ہو گئے،‘‘ دلت برادری کی یہ کاشتکار بتاتی ہیں۔

رائے پور کی پنڈت روی شنکر شکلا یونیورسٹی کے قدیم ہندوستانی تاریخ، ثقافت اور آثار قدیمہ کے محقق آنسو تِرکی بتاتے ہیں، ’’گودنا ہنر کی جڑیں نئے حجری دور کے غاروں میں بنی تصویروں تک جاتی ہیں۔ غاروں سے، یہ گھروں اور جسموں تک پہنچیں۔‘‘

گوہمنی دیوی جیسے تمام لوگ مانتے ہیں کہ گودنا میں علاج کی طاقت بھی ہوتی ہے۔ گوہمنی (۶۵) جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع کے چھپادوہر گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ وہ پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے گودنا ہنر کی مشق کر رہی ہیں اور اپنے جہر (زہر) گودنا کے لیے جانی جاتی ہیں، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔

’’میں نے گودنا کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کا گھینگھا مرض ٹھیک کیا ہے،‘‘ وہ اپنی ماں کے گودے گودنے سے ٹھیک ہوئے اپنے گھینگھا مرض کا ذکر کرتے ہوئے فخر سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ چھتیس گڑھ، بہار اور بنگال جیسی دیگر ریاستوں سے لوگ ان کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں۔

گھینگھا کے علاوہ، گوہمنی نے گھٹنے کا درد، مائگرین اور دیگر پرانی تکلیفوں کا علاج کیا ہے۔ حالانکہ، انہیں ڈر ہے کہ یہ ہنر جلد ہی غائب ہو جائے گا۔ ’’اب کوئی بھی پہلے کی طرح گودنا نہیں بنواتا؛ جب ہم گاؤوں میں جاتے ہیں، تو کوئی کمائی نہیں ہوتی ہے […] ہمارے بعد، کوئی بھی یہ کام نہیں کرے گا،‘‘ گوہمنی کہتی ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: گوہمنی دیوی اپنے گھر کے باہر گودنا میں استعمال ہونے والی سوئی اور کاجل کے ڈبے کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ دائیں: وہ اپنی کلائی پر بنا ٹیپا کھودا (اوپر) اور پوتھی گودنا دکھا رہی ہیں

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: بہاری ملار، گوہمنی کے بیٹے ہیں اور اپنی ماں کے بنائے جہر گودنا کو دکھا رہے ہیں، جسے ان کے پیٹ درد کو ٹھیک کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ دائیں: گوہمنی کے شوہر اپنے پیر پر بنا جہر گودنا دکھا رہے ہیں۔ اس علاقہ کے تمام لوگوں کا ماننا ہے کہ گودنا میں علاج کی طاقت ہے

*****

گودنا بنانے کے لیے، گودنا کار کو للکوری کے دودھ (دودھ پلانے والی ماں کا دودھ)، کاجل، ہلدی اور سرسوں کے تیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ پیترموہی سوئی نامی پیتل کی سوئیوں کے استعمال سے گودنا بنایا جاتا ہے، جس کی نوک پیتل کی ہوتی ہے۔ یہ اسے زنگ سے بچاتا ہے اور انفیکشن کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ راج پتی کہتی ہیں، ’’پہلے ہم اپنا کاجل خود بناتے تھے، لیکن اب خریدنا پڑتا ہے۔‘‘

گودنے کے ڈیزائن کے حساب سے، کم از کم دو سوئیوں یا زیادہ سے زیادہ گیارہ سوئیوں کا استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے، گودنا کار دودھ اور کاجل سے پیسٹ بناتی ہیں اور اس میں تھوڑا سا سرسوں کا تیل ملاتی ہیں۔ پھر پین یا پینسل سے ڈیزائن کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ سوئیوں کو ڈیزائن کے حساب سے منتخب کیا جاتا ہے – باریک پیٹرن کے لیے دو یا تین سوئیاں اور موٹے بارڈر کے لیے پانچ یا سات سوئیاں منتخب کی جاتی ہیں۔ راج پتی چڑھانے کے انداز میں کہتی ہیں، ’’ہمارے گودنا میں زیادہ درد نہیں ہوتا۔‘‘

گودنا کے سائز کی بنیاد پر، ’’چھوٹا گودنا بنانے میں کچھ منٹ لگتے ہیں، اور بڑے گودنا میں کچھ گھنٹے لگ جاتے ہیں،‘‘ راج پتی کہتی ہیں۔ گودنا بنانے کے بعد اسے پہلے گائے کے گوبر سے اور پھر ہلدی سے دھویا جاتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ گائے کا گوبر بری نظر سے بچاتا ہے، اور پھر انفیکشن سے بچانے کے لیے ہلدی اور سرسوں کا تیل لگایا جاتا ہے۔

راج پتی بتاتی ہیں، ’’پرانے دور میں عورتیں گودنا گودواتے وقت گاتی تھیں، لیکن اب کوئی نہیں گاتا۔‘‘ وہ گودنا بنانے کے لیے چھتیس گڑھ اور اوڈیشہ بھی جا چکی ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: گودنا بنانے کے لیے، گودنا کار کو للکوری کے دودھ، کاجل، ہلدی اور سرسوں کے تیل کے ضرورت پڑتی ہے۔ پیترموہی سوئی نامی پیتل کی سوئیوں سے گودنا بنایا جاتا ہے، جو اسے زنگ سے بچاتے ہیں اور مبینہ طور پر انفیکشن کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ دائیں: جرجری کاجل کا ڈبہ، جس کی مدد سے گودنا بنایا جاتا ہے

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: چنتا دیوی کے بازو پر ٹیپا کھودا گودنا بنا ہوا ہے، جس میں نقطوں، سیدھی اور گھماؤدار لکیروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ دائیں: ان کی سہیلی چنڈی دیوی اپنے بازو پر بنا گودنا دکھا رہی ہیں، جو شادی شدہ عورتوں کی نشانی ہے

راج پتی اپنی کلائی کے گودنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس تین نقطے والے گودنے میں ۱۵۰ روپے لگے ہیں اور پھول والے پیٹرن میں ۵۰۰ روپے۔ کبھی کبھی ہمیں پیسے ملتے ہیں، کبھی کبھی لوگ گودنے کے عوض چاول، تیل اور سبزیاں یا ساڑی دے دیتے ہیں۔‘‘

جدید ٹیٹو مشینوں نے روایتی گودنا فنکاروں کی کمائی پر کافی اثر ڈالا ہے۔ راج پتی کہتی ہیں، ’’اب بہت کم لوگ گودنا بنواتے ہیں۔ لڑکیاں اب مشین سے بنے ٹیٹو پسند کرتی ہیں۔ وہ اپنے فون پر ڈیزائن دکھاتی ہیں اور انہیں بنانے کو بولتی ہیں۔‘‘

ان کے مطابق، ’’پہلے کی طرح، اب لوگ اپنے پورے جسم پر گودنا نہیں کرواتے۔ چھوٹا سا پھول یا بچھو بنوا لیتے ہیں۔‘‘

اس ہنر سے ہونے والی کمائی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی نہیں ہے اور وہ گزر بسر کے لیے زیادہ تر برتنوں کی فروخت پر منحصر رہتے ہیں۔ ان کی آمدنی کا بڑا حصہ رانچی میں لگنے والے سالانہ میلہ سے آتا ہے۔ ’’اگر ہم میلہ میں تقریباً ۵۰-۴۰ ہزار کماتے ہیں، تو وہ کمائی اچھی لگتی ہے۔ ورنہ تو روز کے صرف ۲۰۰-۱۰۰ روپے ہی ہاتھ آتے ہیں،‘‘ راج پتی کہتی ہیں۔

’’گودنا بہت مبارک ہوتا ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ’’یہ واحد ایسی چیز ہے جو موت کے بعد بھی جسم کے ساتھ رہتی ہے۔ باقی سب پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔‘‘

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ashwini Kumar Shukla

అశ్విని కుమార్ శుక్లా ఝార్కండ్ రాష్ట్రం, పలామూలోని మహుగావాన్ గ్రామానికి చెందినవారు. ఆయన దిల్లీలోని ఇండియన్ ఇన్స్టిట్యూట్ ఆఫ్ మాస్ కమ్యూనికేషన్ నుంచి పట్టభద్రులయ్యారు (2018-2019). ఆయన 2023 PARI-MMF ఫెలో.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

సర్వజయ భట్టాచార్య PARIలో సీనియర్ అసిస్టెంట్ ఎడిటర్. ఆమె బంగ్లా భాషలో మంచి అనుభవమున్న అనువాదకురాలు. కొల్‌కతాకు చెందిన ఈమెకు నగర చరిత్ర పట్ల, యాత్రా సాహిత్యం పట్ల ఆసక్తి ఉంది.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

కమర్ సిద్దీకీ, పీపుల్స్ ఆర్కైవ్ ఆఫ్ రూరల్ ఇండియాలో ఉర్దూ భాష అనువాద సంపాదకులుగా పనిచేస్తున్నారు. ఆయన దిల్లీకి చెందిన పాత్రికేయులు.

Other stories by Qamar Siddique