پھیلے ہوئے بازو اور کھلی ہتھیلی پر ناریل کو رکھے ہوئے پجاری انجنے یولو مُدّلاپورم کے کھیتوں پر چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں اس کا انتظار ہے کہ ہتیھلی پر رکھا ناریل گھومنے لگے گا اور لڑھک کر زمین پر گر جائے گا۔ آخرکار، ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ ہمیں اعتماد دلانے والی نظر سے دیکھتے ہیں اور زمین پر کراس کا نشان لگا دیتے ہیں۔ ’’یہیں آپ کو پانی ملے گا۔ ٹھیک اسی جگہ پر بورویل کی کھدائی کیجئے، آپ کو یقین ہو جائے گا،‘‘ وہ ہم سے اننت پور ضلع کے اس گاؤں میں کہتے ہیں۔
ٹھیک بغل کے ایک دوسرے گاؤں میں رایولو دومتِمّنا بھی ایک دوسرے کھیت میں اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے نکیلی ٹہنیوں والی ایک بڑی شاخ پکڑ رکھی ہے جو انہیں رائلپّ دوڈّی میں آبی ذریعہ تک پہنچائے گی۔ ’’جب یہ شاخ اوپر کی طرف جھٹکے کھانے لگے گی، ٹھیک اسی جگہ پانی ملے گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ رایولو تذبذب کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’ان کی یہ ترکیب ۹۰ فیصد کامیاب ہے۔‘‘
اننت پور کے ایک الگ بلاک میں چندر شیکھر ریڈی اس سوال سے پریشان ہیں جس نے صدیوں سے فلسفیوں کو حیران کر رکھا ہے۔ کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ ریڈی کو یہ لگتا ہے کہ وہ اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔ ’’پانی ہی زندگی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے ایک قبرستان میں چار بورویل کھودے ہیں۔ ان کے کھیتوں میں مزید ۳۲ بورویل ہیں، اور انہوں نے پانی کے ان ذرائع کی توسیع ۸ کلومیٹر لمبے پائپ لائن کے ذریعہ اپنے گاؤں جمبُل دِنے تک کر دی ہے۔
اننت پور میں پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے لوگوں نے بد اعتقادی (اندھ وشواس)، خفیہ علم، ایشور، سرکار، ٹیکنالوجی اور ناریل تک…سب کچھ آزما لیا ہے۔ ان سبھی ترکیبوں کی آزمائش کے باوجود ان کی کامیابی بہت مایوس کرنے والی ہے۔ لیکن پجاری انجنے یولو کچھ اور ہی دعویٰ کرتے ہیں۔
بات چیت میں بہت ہی نرم اور ملنسار پجاری کہتے ہیں کہ ان کا طریقہ کبھی ناکام نہیں ہوتا ہے۔ انہیں یہ علم ایشور نے دیا ہے۔ ’’یہ صرف تب ناکام ہوتا ہے، جب لوگ ان سے غلط وقت پر اس کام کو کرانے کا دباؤ ڈالتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ (ایشور کی ’ہدایت‘ پر وہ ایک بورویل کی کھدائی کے لیے ۳۰۰ روپے لیتے ہیں)۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر کھیتوں میں گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی کھلی ہتھیلی میں ناریل ویسا ہی رکھا ہے۔
بہرحال، لوگوں کے من میں شک ہمیشہ رہے گا۔ مثلاً اس طریقہ کو آزمانے والا ایک کسان اس کی ناکامی سے آج بھی غصہ میں ہے۔ ’’ہمیں تھوڑا بہت جو پانی ملا وہ اس کم بخت ناریل کے اندر ہی تھا،‘‘ گالی دیتے ہوئے اس نے مایوسی کے ساتھ کہا۔
اسی درمیان، رایولو کے ہاتھ کی شاخ اوپر کی طرف جھٹکے کھانے لگتی ہے۔ ان کو یقینی طور پر پانی مل چکا ہے۔ وہ جہاں کھڑے ہیں، وہاں ایک جانب پانی کا تالاب ہے اور دوسری جانب ایک بورویل، جو اب بھی کام کر رہا ہے۔ رایولو کہتے ہیں کہ وہ ایشور کو نہیں مانتے ہیں۔ قاعدہ قانون کی بات الگ ہے۔ ’’اپنے اس ہنر کے سبب مجھے جعل سازی کے الزام میں عدالت تک نہیں گھسیٹا جا سکتا ہے یا میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں؟‘‘ وہ اپنی بات پر ہم سے اتفاق کرنے کی امید کرتے ہیں۔ ہم بھی ان سے متفق نظر آتے ہیں۔ آخرکار، ان کی کامیابی کا اوسط حکومت کی طرف سے ہونے والے پانی کے سروے سے خراب تو نہیں ہی ہو سکتا ہے۔
اس معاملے میں انڈر گراؤنڈ واٹر ڈپارٹمنٹ (زیر زمین پانی کے محکمہ) کے ماہرین ارضیات کا ریکارڈ مایوس کن ہی نہیں، بلکہ چند ایک معاملوں میں تو لاپروائی اور من مرضی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اگر آفیشل ریکارڈ دستیاب ہو پاتے، تو اس کی تصدیق کی جا سکتی تھی۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر لگانے کی بجائے کسی واٹر ڈیوائنر کو ایک چھوٹی رقم ادا کر دینا زیادہ سستا اور آسان طریقہ ہے۔ اور، اگر آپ کے نام کے ساتھ ’ایکسپرٹ‘ کا ٹیگ بھی لگا ہو، تو صارفین کی لائن لگنا طے ہے۔ بہرحال، جن چھ ضلعوں میں ہم گئے، وہاں ان ماہرین کے ذریعے بتائے گئے زیادہ تر مقامات سے پانی نہیں نکلا، جب کہ کئی جگہوں پر تو بورویل کو ۴۰۰ فٹ کی گہرائی تک کھودا گیا۔ پجاری اور رایولو تو واٹر ڈیوائنر ، یعنی کہ پانی تلاش کرنے کی غیبی طاقت حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی لگاتار بڑھتی ہوئی فوج کے صرف دو ممبر ہیں۔
پانی تلاش کرنے والے اس غیبی کاروبار میں مصروف تمام لوگوں کے اپنے خود کے روایتی طریقے ہیں۔ وہ پوری ریاست میں موجود ہیں، اور نالگونڈہ میں رہنے والے ’دی ہندو‘ کے ایک نوجوان رپورٹر ایس راجو نے ان کی بکواس تکنیکوں کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے۔ ایک عقیدہ کے مطابق، ڈیوائنر کو ’او‘ پازیٹو بلڈ گروپ کا ہونا چاہیے۔ دوسرا ڈیوائنر اس جگہ کے نیچے پانی کو تلاش کرتا ہے جہاں سانپ اپنا گھر بناتے ہیں۔ اننت پور میں پانی کی تلاش میں لگے ایسے بیوقوفوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
سطح پر دکھائی دیتے ان مناظر کے اندر اُس ضلع میں زندہ بچے رہنے کی ایک خوفناک جدوجہد ہے، جو گزشتہ چار سالوں سے برباد فصلوں کی زد میں ہے۔ ریڈی کے قبرستان کے بورویل سے بھی اتنا پانی نہیں آ رہا، جتنی انہوں نے امید کی تھی۔ کل ملا کر اس ولیج آفیسر (وی او) نے پانی کی تلاش میں دس لاکھ سے بھی زیادہ روپے خرچ کر ڈالے ہیں۔ ہر مہینے ان کا قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ ’’پچھلے ہفتہ ہی میں نے سرکار کی ہیلپ لائن پر فون کیا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اس طرح کب تک چلے گا؟ ہمیں پانی تو چاہیے ہی چاہیے۔‘‘
یہ ہیلپ لائن آندھرا پردیش کی وائی ایس راج شیکھر ریڈی حکومت نے کھیتی کے بڑھتے مسائل اور مسلسل خودکشی کرنے کے لیے مجبور کسانوں کے مسائل سے نمٹنے کے مقصد سے شروع کی تھی۔ آندھرا پردیش کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں زیادہ تر ریاستوں سے آگے رہا ہے، اور اننت پور میں اس کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے۔ پچھلے سات سالوں میں ’سرکاری‘ اعداد و شمار کے مطابق، ۵۰۰۰ سے زیادہ کسان خودکشی کرنے کو مجبور ہو چکے ہیں۔ حالانکہ دوسری آزاد ایجنسیاں اس ڈیٹا کو گمراہ کن بتاتی ہیں، اور ان کے مطابق یہ تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
بہرحال، ہیلپ لائن کو ریڈی کے ذریعہ فون کیے جانے کے خطرناک معنی ہیں۔ پانی کی دستیابی کے لحاظ سے ایک حساس علاقہ میں رہنے کے سبب وہ سب سے زیادہ مظلوم گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پانی کے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے قرض کے دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ان کی باغبانی کا پیشہ، جس میں انہوں نے کافی پیسے لگا رکھے ہیں، بربادی کے دہانے پر ہے۔ یہی حالت ان کے بورویل کی بھی ہے۔
اس بحران سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے شمار پیسے والے کاروباری پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ پانی کا پرائیویٹ بازار خوب پھل پھول رہا ہے۔ ’پانی کے مافیا‘ اپنے بورویل اور پمپوں کے ذریعہ پانی بیچ کر کھیتی کی بہ نسبت کئی گنا موٹی کمائی کر رہے ہیں۔
مجبور کسانوں کے پاس ۷۰۰۰ یا اس سے زیادہ کی موٹی رقم ادا کر کے ایک ایکڑ کھیت میں سینچائی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی پڑوسی کو، جس نے کسی طرح اس باڑے تک اپنی پہنچ بنائی ہے، کو دستیاب پانی کے عوض ادائیگی کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ معمولی چھڑکاؤ کے لیے کسان چاہے تو پانی سے بھرا ایک ٹینکر بھی خرید سکتا ہے۔
ایسے نظام میں جلد ہی کاروبار کے سامنے برادری پیچھے چھوٹ جاتی ہے۔ ’’کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس سے فی ایکڑ ہماری کھیتی کے خرچ پر کیا فرق پڑا ہے؟‘‘ ریڈی سوال کرتے ہیں۔ ان کاروباریوں کی قطار میں اب اپنا کرشمہ دکھانے والے یہ واٹر ڈیوائنر اور ہائی وے پر دوڑتی بھاگتی بورویل ڈرلنگ رِگ مشینیں بھی شامل ہو گئی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لیے آمدنی کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پینے کے پانی کا بحران بھی کم سنگین نہیں ہے۔ ایک اندازہ کی بنیاد پر، ڈیڑھ لاکھ کی آبادی والا ہندوپور گاؤں تقریباً ۸۰ لاکھ روپے سالانہ پینے کے پانی کے لیے خرچ کرتا ہے۔ پانی کے ایک مقامی کاروباری نے ٹھیک میونسپلٹی کے دفتر کے آس پاس ہی اچھا خاصا اثاثہ کھڑا کر لیا ہے۔
بد اعتقادی، خفیہ علم، ایشور، سرکار، ٹیکنالوجی اور ناریل جیسی تمام کوششیں اننت پور میں پانی کی بے تحاشہ تلاش میں جھونک دی گئی ہیں۔ لیکن، اتنی ساری ترکیبوں کے بعد بھی پانی کی تلاش کی یہ قواعد بہت کامیاب نہیں ہو پائی ہے
آخرکار بارش شروع ہو گئی ہے۔ چار دنوں کی اس بوچھار میں کم از کم بیج روپنے کا کام تو ہو ہی جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ امیدیں لوٹ آئیں گی اور کسانوں کی خودکشی بھی رک جائے گی۔ لیکن، پریشانی سے نجات شاید ہی مل سکے گی۔ اچھی فصل سے سبھی خوش ہوں گے، لیکن تب دوسری مشکلیں بھی تیزی سے پیدا ہوں گی۔
’’المیہ یہ ہے کہ اچھی فصل کے باوجود کچھ کسان خودکشی کرنے کے لیے مجبور ہوں گے،‘‘ ایکولوجی سنٹر آف دی رورل ڈیولپمنٹ ٹرسٹ، اننت پور کے ڈائرکٹر ملّا ریڈی کہتے ہیں۔ ’’ایک کسان زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے کی کمائی کرنے کے قابل ہوگا، لیکن کئی سالوں سے فصلوں کے تباہ ہو جانے کے سبب ہر ایک کے سر پر ۵ سے ۶ لاکھ روپے تک کا بوجھ ہے۔ اس بحران کی وجہ سے کئی لوگوں کی شادیوں میں بھی تاخیر ہو چکی ہے۔ ان ذمہ داریوں کو اب پورا کرنا ہوگا۔‘‘
’’کھیتی اور دوسرے کاموں کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ کوئی کسان ایک ساتھ اتنے محاذوں پر کیسے لڑ سکتا ہے؟ اگلے کچھ مہینوں میں مہاجنوں کے دباؤ بھی بہت بڑھ جائیں گے۔ اور، قرض لینے کا سلسلہ مستقل طور پر کبھی نہیں ختم ہو سکے گا۔‘‘
جہاں تک یہاں کے کسانوں کے مسائل کی بات ہے، تو وہ بارش سے بھی زیادہ رفتار سے برستی دکھائی دیتی ہیں۔ پانی کا خواب دیکھتے ہوئے یہاں کسان قرض کے بوجھ میں دبتے جا رہے ہیں۔
مترجم: قمر صدیقی