کورائی گھاس (یا موتھا) کاٹنے میں مہارت رکھنے والے کو اس پودے کو کاٹنے میں ۱۵ منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے، اسے جھاڑنے میں آدھا منٹ، اور اس کا بوجھ (گٹھر) بنانے میں مزید چند منٹ لگتے ہیں۔ گھاس جیسا یہ پودا ان سے زیادہ لمبا ہوتا ہے، اور ہر ایک بوجھ کا وزن تقریباً پانچ کلو ہوتا ہے۔ عورتیں اسے آسانی سے کر لیتی ہیں، ایک بار میں ۱۲-۱۵ کلو گھاس سر پر رکھ کر وہ تپتی دھوپ میں تقریباً آدھا کلومیٹر چلتی ہیں – فی بوجھ صرف ۲ روپے کمانے کے لیے۔
دن ختم ہوتے ہوتے، خواتین میں سے ہر ایک کورائی کے ۱۵۰ بوجھ (بنڈل) بنا لیتی ہیں، جو تمل ناڈو کے کرور ضلع میں ندی کے کنارے کے کھیتوں میں بڑی مقدار میں اُگتی ہے۔
کاویری ندی کے کنارے، کرور کے منواسی گاؤں کی ایک بستی، ناتھ میڈو میں کورائی کاٹنے والی – تقریباً سبھی عورتیں – بغیر کوئی وقفہ لیے، دن میں آٹھ گھنٹے کام کرتی ہیں۔ وہ گھاس سے بھرے کھیتوں میں اسے کاٹنے کے لیے جھکتی ہیں، اپنے ننگے ہاتھوں سے اسے جھاڑتی ہیں اور بوجھ بناتی ہیں، جسے وہ جمع کرنے والی جگہ پر لے جاتی ہیں۔ اس میں مہارت اور طاقت چاہیے۔ اور یہ انتہائی مشکل کام ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر چھوٹی عمر سے ہی کورائی کاٹنے کا کام کر رہی ہیں۔ ’’میں جس دن پیدا ہوئی تھی، اسی دن سے کورائی کاڈو [’جنگل‘] میری دنیا رہا ہے۔ میں نے ۱۰ سال کی عمر سے ہی کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، ایک دن میں تین روپے کماتی تھی،‘‘ ۵۹ سالہ اے سوبھاگیم کہتی ہیں۔ ان کی آمدنی سے اب پانچ رکنی فیملی کا پیٹ بھرتی ہے۔
ایک بیوہ اور اسکول جانے والے دو بیٹوں کی ماں، ۳۳ سالہ ایم ماگیشوری یاد کرتی ہیں کہ ان کے والد انہیں گائے کو گھاس چرانے اور کورائی کاٹنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ ’’میں نے تو کبھی اسکول میں قدم بھی نہیں رکھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’یہ کھیت میرا دوسرا گھر ہیں۔‘‘ ۳۹ سالہ آر سیلوی نے اپنی ماں کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا۔ ’’وہ بھی کورائی کاٹتی تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ کام بہت پہلے شروع کر دیا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
یہ عورتیں، جن کا تعلق موتھریار برادری – تمل ناڈو میں پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج – سے ہے، ان میں سے تمام تروچیراپلی ضلع کے اَمور کی رہنے والی ہیں۔ ناتھ میڈو سے ۳۰ کلومیٹر دور، مُسیری تعلقہ کا یہ گاؤں کاویری ندی کے کنارے واقع ہے۔ لیکن اَمور میں پانی کی کمی ہو گئی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس علاقہ میں ریت کی کانکنی ہے۔ ’’میرے گاؤں میں کورائی تب اُگتی ہے، جب [ندی] نہر میں پانی ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں، چونکہ ندی میں پانی بہت کم ہو گیا ہے، اس لیے ہمیں کام کے لیے بہت دور جانا پڑتا ہے،‘‘ ماگیشوری کہتی ہیں۔
اس لیے امور کی یہ عورتیں پڑوس کے کرور ضلع میں پانی سے بھرے کھیتوں میں جاتی ہیں۔ وہ خود اپنے طریقے سے کرایہ دیکر بس کے ذریعہ، بعض دفعہ لاری سے وہاں جاتی ہیں اور ایک دن میں تقریباً ۳۰۰ روپ کماتی ہیں۔ ۴۷ سالہ وی ایم کنّن، جو اپنی بیوی، ۴۲ سالہ کے اکّنڈی کے ساتھ کورائی کاٹتے ہیں، اس المیہ کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’کاویری کا پانی دوسروں کے لیے نکال لیا جاتا ہے، جب کہ مقامی باشندوں کو پانی کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔‘‘
۴۷ سالہ اے مریایی، جو ۱۵ سال کی عمر سے کورائی کاٹ رہی ہیں، کہتی ہیں، ’’تب ہم ایک دن میں ۱۰۰ بوجھ (بنڈل) جمع کر لیا کرتے تھے۔ اب ہم کم از کم ۱۵۰ جمع کرتے ہیں اور ۳۰۰ روپے کماتے ہیں۔ پہلے مزدوری بہت کم ہوا کرتی تھی، ایک بنڈل (گٹھر) کے صرف ۶۰ پیسے۔‘‘
’’۱۹۸۳ میں ایک بنڈل کی قیمت ساڑھے ۱۲ روپے تھی،‘‘ کنّن یاد کرتے ہیں، جو ۱۲ سال کی عمر سے کورائی کاٹ رہے ہیں، تب وہ ایک دن میں ۸ روپے کماتے تھے۔ صرف ۱۰ سال پہلے کی بات ہے، جب ٹھیکہ داروں سے کئی بار اپیل کرنے کے بعد، قیمت فی بنڈل ۱ روپے، اور کچھ دنوں بعد ۲ روپے بڑھائی دی گئی تھی، وہ بتاتے ہیں۔
ٹھیکہ دار، منی، جو اَمور کی ان مزدوروں کو کام پر رکھتے ہیں، کاروباری طور پر کورائی اُگانے کے لیے ایک سے ڈیڑھ ایکڑ زمین پٹّہ پر لیتے ہیں۔ کھیتوں میں جب پانی کم ہوتا ہے، تو ایک ایکڑ کا ماہانہ کرایہ ۱۲-۱۵ ہزار روپے ہوتا ہے، وہ بتاتے ہیں۔ ’’پانی کی سطح زیادہ ہونے پر یہ کرایہ ۳-۴ گُنا زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ہر مہینے ان کا مجموعی منافع فی ایکڑ صرف ۱۰۰۰-۵۰۰۰ روپے ہے – جو کہ شاید کم کرکے بتائی گئی رقم ہے۔
کورائی، سائپریسی نسل کی ایک قسم کی گھاس ہے؛ یہ لمبائی میں تقریباً چھ فٹ تک اُگتی ہے۔ اسے مشہور پائی (چٹائی) اور دیگر مصنوعات کے پیداواری مرکز، مُسیری کی کورائی چٹائی بُننے کی صنعت کے لیے، کاروباری طور پر کرور ضلع میں اُگایا جاتا ہے۔
یہ صنعت کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی محنت سے چلتی ہے۔ ایک دن میں ۳۰۰ روپے کمانا عورتوں کے لیے آسان نہیں ہے، جو صبح ۶ بجے سے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں، لمبے پودے کو جھک کر، ہنسیا سے پوری مہارت سے کاٹتی ہیں۔ وہ مانسون کے چند دنوں کو چھوڑ کر، پورے سال کام کرتی ہیں۔
اس کام کی کافی مانگ ہے، ۴۴ سالہ جینتی کہتی ہیں۔ ’’میں روزانہ صبح کو چار بجے سوکر اٹھ جاتی ہوں، فیملی کے لیے کھانا بناتی ہوں، پھر دوڑ کر بس پکڑتی ہوں تاکہ کھیت میں کام کر سکوں۔ وہاں پر میں جو پیسہ کماتی ہوں اسی سے بس کا کرایہ چکاتی ہوں، کھانا اور گھر کا خرچ چلاتی ہوں۔‘‘
’’لیکن میرے پاس دوسرا متبادل کیا ہے؟ میرے لیے صرف یہی کام دستیاب ہے،‘‘ ماگیشوری کہتی ہیں، جن کے شوہر کا چار سال پہلے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا تھا۔ ’’میرے دو بیٹے ہیں، پہلا ۹ویں جماعت میں ہے اور دوسرا ۸ویں جماعت میں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
تقریباً سبھی عورتیں کورائی کاٹنے سے ہونے والی کمائی سے اپنا گھر چلاتی ہیں۔ ’’اگر میں دو دن اس گھاس کو کاٹنے کا کام نہ کروں، تو گھر پر کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا،‘‘ سیلوی کہتی ہیں، جو اپنی چار رکنی فیملی کی مدد کرتی ہیں۔
لیکن یہ پیسہ کافی نہیں ہے۔ ’’میری ایک چھوٹی بیٹی نرس کی پڑھائی کر رہی ہے، اور میرا بیٹا ۱۱ویں کلاس میں ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں اس کی تعلیم کے لیے پیسے کا انتظام کہاں سے کروں گی۔ میں قرض لیکر اپنی بیٹی کی فیس بھر رہی ہوں،‘‘ مریایی کہتی ہیں۔
ان کی یومیہ آمدنی جب بڑھ کر ۳۰۰ روپے ہو گئی تو اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ ’’پہلے، جب ہم ۲۰۰ روپے گھر لیکر آتے تھے، تو اس سے ہمیں ڈھیر ساری سبزی مل جاتی تھی۔ لیکن اب، ۳۰۰ روپے بھی کافی نہیں ہیں،‘‘ سوبھاگیم کہتی ہیں۔ ان کی پانچ رکنی فیملی میں ان کی ماں، شوہر، بیٹا اور بہو شامل ہیں۔ ’’میری آمدنی سے ہی ہم سب کا خرچ چلتا ہے۔‘‘
یہاں کے زیادہ تر کنبے پوری طرح عورتوں کی آمدنی پر منحصر ہیں کیوں کہ مردوں کو شراب پینے کی عادت ہے۔ ’’میرا بیٹا ایک راج مستری ہے۔ وہ اچھا کماتا ہے، ایک دن میں تقریباً ۱۰۰۰ روپے،‘‘ سوبھاگیم بتاتی ہیں۔ ’’لیکن وہ اپنی بیوی کو پانچ پیسہ بھی نہیں دیتا، اور سارا پیسہ شراب پر خرچ کر دیتا ہے۔ جب اس کی بیوی پوچھتی ہے، تو وہ اسے بری طرح پیٹتا ہے۔ میرے شوہر کافی بوڑھے ہیں، وہ کوئی کام کرنے کے لائق نہیں ہیں۔‘‘
اس مشکل زندگی کا عورتوں کی زندگی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ ’’میں چونکہ دن بھر جھک کر کاٹنے کا کام کرتی ہوں، اس لیے میرے سینہ میں بہت درد ہوتا ہے،‘‘ جینتی بتاتی ہیں۔ ’’میں ہر ہفتے اسپتال جاتی ہوں، اور ۵۰۰-۱۰۰۰ روپے کا بل آتا ہے۔ میں جتنا کماتی ہوں وہ سب دواؤں پر خرچ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’میں یہ کام زیادہ دنوں تک نہیں کر سکتی،‘‘ ناراض مریایی کہتی ہیں۔ وہ کورائی کاٹنا بند کرنا چاہتی ہیں۔ ’’میرے کندھوں، کولہے، بازوؤں اور ٹانگوں میں درد ہوتا ہے۔ پودے کے دھاردار کناروں سے میرے ہاتھ اور پیر چھل جاتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے تیز دھوپ میں یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے؟‘‘
متن میں اپرنا کارتی کیئن کے اِن پُٹ کے ساتھ۔
مترجم: محمد قمر تبریز