نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ذریعے حال ہی میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، مہاراشٹر میں سال ۲۰۱۳ میں ۳۱۴۶ کسانوں نے خودکشی کر لی تھی ان اعداد و شمار کو شامل کرنے کے بعد، مغربی ہندوستان کی اس ریاست میں سال ۱۹۹۵ سے اب تک خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد ۶۰ ہزار ۷۵۰ تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد بھی مہاراشٹر کے یہ اعداد و شمار خبروں سے غائب ہیں۔ سال ۲۰۰۴ کے بعد سے ریاست کے حالات مزید بگڑے ہیں۔ سال ۲۰۰۴ سے ۲۰۱۳ کے درمیان ہر سال اوسطاً ۳۶۸۵ کسانوں نے اپنی جان دی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ مہاراشٹر، جو اپنے اگلے اسمبلی انتخابات سے محض ایک مہینہ دور ہے، میں گزشتہ ۱۰ سالوں سے روزانہ اوسطاً ۱۰ کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سال ۱۹۹۵ سے ۲۰۰۳ کے درمیان کے ہر دن اوسطاً ۷ کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار سے بھی کہیں زیادہ افسوسناک دکھائی دیتے ہیں۔ واضح لفظوں میں کہا جائے تو کسانوں کی خودکشی میں ۴۲ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ (نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے سال ۱۹۹۵ سے اپنی رپورٹ ’ہندوستان میں ناگہانی اموات اور خودکشی‘ میں کسانوں کی خودکشی کا ڈیٹا بھی شامل کرنا شروع کیا تھا۔)
سال ۱۹۹۵ سے اب تک کل ۲ لاکھ ۹۶ ہزار ۴۳۸ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔
دریں اثنا، پچھلے سال کے مقابلے اس سال مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ سال ۲۰۱۲ کے مقابلے مہاراشٹر میں اس سال ۶۴۰ کسانوں کی خودکشی کم ہوئی ہے۔ یہ گراوٹ کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں اول رہنے والی سبھی ۵ ریاستوں میں دکھائی دیتی ہے۔ آندھرا پردیش میں یہ گراوٹ ۵۵۸ ہے، وہیں چھتیس گڑھ میں ۴، مدھیہ پردیش میں ۸۲، اور کرناٹک میں ۴۷۲ کسان خودکشیاں کم ہوئی ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ مانا جائے کہ اب کم تعداد میں کسان خودکشی کر رہے ہیں؟ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ اے ڈی ایس آئی رپورٹ تو یہی بتا رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اس سال ملک بھر میں سال ۲۰۱۲ کی ۱۳۷۵۴ کسان خودکشیوں کے مقابلے ۱۹۸۲ کم، یعنی ۱۱۷۴۴ کسان خودکشیاں ہوئی ہیں ( http://ncrb.gov.in/adsi2013/table-2.11.pdf )۔
یہ اعداد و شمار ظاہری طور پر تو بہتر نظر آتے ہیں، مگر غور سے دیکھنے پر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ پورا سچ نہیں ہے۔ مجموعی تعداد میں سے ۷۶۵۳ خودکشیوں کا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ اس معاملے میں اول رہنے والی ۵ ریاستوں میں اب بھی ملک بھر میں ہونے والی کل کسان خودکشیوں میں سے دو تہائی خودکشیاں ہوئی ہیں۔ ان ریاستوں میں کسان خودکشیوں کے پیٹرن کے حساب سے کوئی بھی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ اس کے علاوہ، ۱۵ دیگر ریاستوں میں معمولی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ان میں سے، ہریانہ کے اعداد و شمار میں ۹۸ کسان خودکشیوں کا اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار میں آئی یہ گراوٹ ایک چلن کی طرف دیکھنے کو مجبور کرتی ہے۔ اس کے مطابق، ماضی میں کئی ریاستوں میں بڑی تعداد میں کسان خودکشیاں ہوتی رہی ہیں، لیکن وہ حالیہ برسوں میں صفر یا اس کے قریب خودکشیاں بتا رہی ہیں۔ سال ۲۰۱۱ سے چھتیس گڑھ نے ایسا ہی کیا ہے۔ ریاست نے ان تین سالوں میں بالترتیب صفر، ۴، اور صفر خودکشیاں دکھائی ہیں۔ مغربی بنگال نے بھی سال ۲۰۱۲ اور ۲۰۱۳ میں ایک بھی کسان کے ذریعے خودکشی نہیں کرنے کا دعویٰ کیا۔ مگر اس کھیل کو لاگو کرنے سے ٹھیک پہلے کے تین سالوں کا اگر اوسط نکالیں، تو چھتیس گڑھ میں یہ اوسط ۱۵۶۷ کا تھا، وہیں مغربی بنگال میں اوسط ۹۵۱ کا تھا۔ ان دونوں اعداد و شمار کا جمع ۲۵۱۸ ہوتا ہے۔ اگر انہیں سال ۲۰۱۳ کے اعداد و شمار کے ساتھ جوڑ دیا جائے، تو یہ ۱۴۲۶۲ پر پہنچ جاتا۔ یعنی سال ۲۰۱۲ کے اعداد و شمار سے بھی زیادہ ہو جاتا؛ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سال ۲۰۱۲ کی تعداد میں بھی ایسا ہی کھیل دیکھنے کو ملا تھا۔
اگر سال ۲۰۱۳ میں درج ہوئی ۱۱۷۴۴ کسان خودکشیوں کے اعداد و شمار کو ہی صحیح مان لیا جائے، تو سال ۱۹۹۵ سے اب تک کسانوں کی موت کی تعداد ۲ لاکھ ۹۶ ہزار ۴۳۸ تک پہنچ جاتی ہے۔ (این سی آر بی اے ڈی ایس آئی رپورٹ، ۲۰۱۳-۱۹۹۵)
ایسا نہیں ہے کہ ریاستوں کے اعداد و شمار میں کسی قسم کی کوئی گراوٹ نہیں دیکھی جا سکتی۔ (ایک بار کی یہ سالانہ گراوٹ یا اضافہ بے حد عام بات ہے)۔ مگر گزشتہ ۳ سالوں میں اعداد و شمار میں ہوئی گراوٹ کی نوعیت شک پیدا کرتی ہے۔ چھتیس گڑھ، جہاں سال ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۰ کے درمیان ۱۴ ہزار کسان خودکشیاں ہوئیں وہاں اچانک اگلے تین سال خودکشیاں ہی نہیں ہوئیں۔ یہ ماڈل سننے میں تو پیروی کرنے لائق لگتا ہے نا؟ دیگر ریاستیں تو کچھ ایسا ہی سوچتی ہیں۔ وہ بھی اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے ذریعے دھوکہ بازی میں شامل ہونے لگی ہیں۔
سبھی مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے درمیان کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں پڈوچیری کا ڈیٹا سب سے خراب رہا ہے۔ اس ریاست نے سال ۲۰۱۱، ۲۰۱۲ اور ۲۰۱۳ میں کسان خودکشیوں کے صفر معاملے دکھائے۔ سال ۲۰۱۰ میں یہ ڈیٹا ۴ دکھایا گیا۔ جب کہ سال ۲۰۰۹ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ ۱۵۴ تھا۔
چنئی کے ایشین کالج آف جرنلزم میں معاشیات کے پروفیسر کے ناگ راج کہتے ہیں، ’’یقیناً اعداد و شمار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے۔‘‘ پروفیسر ناگ راج کے ذریعے خودکشیوں پر سال ۲۰۰۸ میں کیا گیا مطالعہ بے حد اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آپ کسی ایک کالم کے اعداد و شمار کے ساتھ کھلواڑ کرکے اسے سیدھے طور پر مٹا نہیں سکتے ہیں۔ یقینی طور پر آپ کو انہیں کسی ’دیگر زمرے‘ میں منتقل کرنا ہوگا۔ انچاہے نمبروں کو اس طرح ’دیگر‘ کے زمرے میں ڈالنا اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرنے کا سب سے عام طریقہ ہے۔‘‘
اسی طریقہ کو اپناتے ہوئے ریاستوں نے اپنے اعداد و شمار این سی آر بی کوسونپے ہیں۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ریاستی سطح پر ہو رہی اعداد و شمار کی اس ہیر پھیر میں ایک اور بات غور کرنے والی ہے۔
این سی آر بی کی فہرست، جو ’’ذاتی طور پر با روزگار (کھیتی/زراعت)‘‘ زمرہ کے اعداد و شمار کو ظاہر کرتی ہے، والے صفحہ پر ہی ایک کالم اور جوڑا گیا ہے۔ اس کالم کا عنوان ’’ذاتی طور پر با روزگار (دیگر)‘‘ ہے۔ ( http://ncrb.gov.in/adsi2013/table-2.11.pdf )
جب چھتیس گڑھ میں کسان خودکشیوں کے اعداد و شمار کو صفر دکھایا گیا ہے، اسی وقت ریاست کے ’’ذاتی طور پر با روزگار (دیگر)‘‘ کالم کے اعداد و شمار لگاتار بڑھ رہے ہیں۔ سال ۲۰۰۸ اور ۲۰۰۹ میں، یعنی اُن سالوں میں جب چھتیس گڑھ میں کسان خودکشی کے اعداد و شمار صفر تھے، تب اس ’’دیگر‘‘ زمرہ کے اعداد و شمار بالترتیب ۸۲۶ اور ۸۵۱ تھے۔ مگر گزشتہ دو سالوں میں جب کسان خودکشیوں کے اعداد و شمار صفر ہو گئے ہیں، تب یہ اس کالم کا اعداد و شمار بالترتیب ۱۸۲۶ اور ۲۰۷۷ ہو گیا ہے۔ مہاراشٹر، جہاں کے اعداد و شمار میں گزشتہ سال کے مقابلے ۶۴۰ خودکشیاں کم ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، کے اعداد و شمار میں ’’ذاتی طور پر باروزگار (دیگر)‘‘ کالم کے تحت ۱۰۰۰ اموات کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح، مدھیہ پردیش میں ۸۲ کسان خودکشیاں کم ہوئیں، مگر ’’دیگر‘‘ زمرہ میں ۲۳۶ خودکشی کے معاملے بڑھ گئے۔
یہی حال پڈوچیری کا بھی ہے۔ وہیں، مغربی بنگال نے اس مسئلہ سے چھٹکارہ پانے کے لیے سال ۲۰۱۲ میں کسی بھی قسم کا ڈیٹا ہی جاری نہیں کیا۔ کھیل صاف ہے کہ اگر آپ اعداد و شمار چھپا نہیں سکتے، تو ان میں سے کچھ کو ’’دیگر‘‘ زمرہ میں ڈال دو، اور ایک الگ تصویر پیش کرو۔
جو لوگ ان اعداد و شمار پر بھروسہ کرتے ہوئے خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد کم ہونے پر خوش ہو رہے ہیں، وہ ایک انتہائی اہم حقیقت سے انجان ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، سال ۲۰۱۲ میں ۲۰۱۱ کے مقابلے ۷۷ لاکھ کسان کم ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ یا تو کاشتکاری چھوڑ رہے ہیں یا کسی وجہ سے کاشتکار کہلانے کا درجہ کھو رہے ہیں۔ اسی مدت کے دوران ملک بھر میں تقریباً دو ہزار کسان روزانہ کم ہوئے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ سال ۲۰۱۳ میں کسانوں کی تعداد مزید کم ہوئی ہوگی۔ ایسے میں خودکشی کے ان اعداد و شمار کو کسانوں کی گھٹتی تعداد کے برعکس دیکھنے پر کیا پتہ چلتا ہے؟
پروفیسر ناگ راج اور ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایم ایس ایس آر ایف) کے محققین نے مردم شماری اور این سی آر بی کے پچھلے سال کے اعداد و شمار کا گزشتہ ایک دہائی کے اعداد و شمار کے ساتھ مطالعہ کیا اور بتایا کہ ’’اعداد و شمار کی ہیر پھیر کے باوجود، سال ۲۰۱۱ میں کسان خودکشیوں کی شرح سال ۲۰۰۱ کے مقابلے کافی زیادہ ہے۔‘‘ ( http://psainath.org/farmers-suicide-rates-soar-above-the-rest/ )
اس مطالعہ کے مطابق، سال ۲۰۱۱ میں ہندوستانی کسانوں کی خودکشی کی شرح، بقیہ آبادی کی شرح کے مقابلے ۴۷ فیصد زیادہ تھی۔ زبردست زرعی بحران کا سامنا کر رہی کچھ ریاستوں میں یہ ۱۰۰ فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کی شرح، بقیہ آبادی کی شرح کے مقابلے ۱۶۲ فیصد زیادہ تھی۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اس ریاست کے کسان دیگر پیشوں سے جڑے لوگوں کے مقابلے ڈھائی گنا زیادہ تیزی سے خودکشی کر رہے تھے۔
لیکن کیا یہ خودکشیاں فصلوں کے برباد ہونے یا پھر خشک سالی کی وجہ سے ہو رہی ہیں؟
کسان خودکشیوں کے معاملے تب بھی درج ہو رہے تھے جب فصل نسبتاً اچھی ہو رہی تھی؛ اور تب بھی، جب فصل برباد ہو رہی تھی۔ مختلف حالات میں الگ الگ سال بڑی تعداد میں کسانوں کی خودکشی ہوئی ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تب بھی وہ اپنی جان گنواتے ہیں، جب بارش نہیں ہوتی تب بھی۔ جن سالوں میں مانسون اچھا رہا ہے ان سالوں میں بھی خودکشی کے خطرناک اعداد و شمار دیکھنے کو ملے ہیں۔ جن سالوں میں سوکھا پڑا، اس دوران اعداد و شمار اور بھی خطرناک رہے۔
نقدی فصل اگانے والے کسانوں نے نسبتاً زیادہ تعداد میں خودکشی کی ہے۔ یہ کسان اپنے کھیتوں میں کپاس، گنّا، مونگ پھلی، ونیلا، کافی، کالی مرچ جیسی فصلیں اگا رہے تھے۔ گیہوں یا دھان کی کھیتی کرنے والے کسانوں کے درمیان خودکشی کے معاملے نسبتاً کم رہے ہیں۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خشک سالی نقدی فصل اگانے والوں کی جان لیتی ہے، غذائی فصلیں اگانے والوں کی نہیں؟
یہ بات صحیح ہے کہ مانسون کا کھیتی باڑی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ کسانوں کی خودکشی کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ سب سے زیادہ نقدی فصلوں کے کسانوں کے درمیان ہو رہی ان خودکشیوں کے پیچھے قرض کے معاملے، حد سے زیادہ کاروباریت، بڑھتی لاگت، پانی کے استعمال کے طریقے، فصل کی کم ہوتی قیمت اور قیمتوں کے عدم استحکام جیسے معاملے ذمہ دار ہیں۔ یہ مسائل بنیادی طور پر ریاست کی خراب پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے رہے ہیں۔
ان مسائل اور ان سے جڑے حقائق کی روشنی میں ایک بات تو واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر اس سال سوکھا پڑتا ہے، تو کسان بڑی مصیبتوں سے گھر جائیں گے۔ یہ بات ہمیں جلد ہی پتہ چل جائے گی۔ جولائی کا مہینہ مانسون کا اہم مہینہ ہوتا ہے۔ اس دوران، سیزن کی ۵۰ فیصد سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ اس طرح سے یہ مہینہ اکیلا ہی جون، اگست اور ستمبر کے برابر ضروری ہوتا ہے۔ جس طرح کے حالات بنتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے کسان خودکشیوں کے کاغذی اعداد و شمار کو دیکھ کر خوش ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
تیزی سے بڑھ رہیں کسانوں کی خودکشیاں: http://psainath.org/farmers-suicide-rates-soar-above-the-rest/
سال ۲۰۱۲ میں بھی کم نہیں ہوئیں کسان خودکشیاں: http://psainath.org/farm-suicide-trends-in-2012-remain-dismal/
روزانہ کاشتکاری چھوڑ رہے ۲۰۰۰ کسان: http://psainath.org/over-2000-fewer-farmers-every-day/
سال ۱۹۹۵ سے ۲۰۱۳ کے درمیان مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار
سال کے حساب سے مہاراشٹر میں کسانوں کی خودکشی کے اعداد و شمار
۱۹۹۵ - ۱۰۸۳
۱۹۹۶ - ۱۹۸۱
۱۹۹۷ - ۱۹۱۷
۱۹۹۸ - ۲۴۰۹
۱۹۹۹ - ۲۴۲۳
۲۰۰۰ - ۳۰۲۲
۲۰۰۱ - ۳۵۳۶
۲۰۰۲ - ۳۶۹۵
۲۰۰۳ - ۳۸۳۶
میزان ۲۰۰۳-۱۹۹۵ - ۲۳۹۰۲
۲۰۰۴ - ۴۱۴۷
۲۰۰۵ - ۳۹۲۶
۲۰۰۶ - ۴۴۵۳
۲۰۰۷ - ۴۲۳۸
۲۰۰۸ - ۳۸۰۲
۲۰۰۹ - ۲۸۷۲
۲۰۱۰ - ۳۱۴۱
۲۰۱۱ - ۳۳۳۷
۲۰۱۲ - ۳۷۸۶
۲۰۱۳ - ۳۱۴۶
میزان ۲۰۱۳-۲۰۰۴ ۳۶۸۴۸
میزان ۲۰۱۳-۱۹۹۵ ۶۰۷۵۰
یہ اسٹوری سب سے پہلے http://psainath.org/maharashtra-crosses-60000-farm-suicides/#prettyPhoto پر شائع ہوئی تھی۔
اس اسٹوری کا مختصر ایڈیشن بی بی سی میں شائع
ہوا تھا:
http://www.bbc.co.uk/news/world-asia-india-28205741
مترجم: محمد قمر تبریز