میں نے پنامک میں واقع ابتدائی طبی مرکز یا پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) پر تقریباً ۱۰۰ لوگوں کو کووڈ۔۱۹ ویکسین کا انجکشن لگوانے کے لیے انتظار کرتے پایا۔ تاریخ تھی ۱۱ اگست، ۲۰۲۱۔ کیا یہ سب ہندوستان کے دوسرے حصوں میں لاکھوں لوگوں کے ویکسین کے لیے ہزاروں مراکز پر انتظام کرنے جیسا ہی ہے؟ نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ لیہہ کے پنامک بلاک میں سب سے زیادہ اونچائی پر واقع جگہ کی سمندری سطح سے اونچائی ۱۹ ہزار ۹۰۱ فٹ ہے۔ حالانکہ، اسی نام کے (پنامک) گاؤں کی اونچائی اس کے مقابلے کچھ ہزار فٹ کم ہے۔ لیکن، تقریباً ۱۱۰۰۰ فٹ کی اونچائی پر ہوتے ہوئے بھی یہ ابتدائی طبی مرکز، اب بھی ملک میں سب سے زیادہ اونچائی پر واقع ٹیکہ کاری مراکز میں سے ایک ہے۔
مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ کے زیادہ تر حصوں تک کووڈ۔۱۹ ویکسین لے آ پانا اور ان کا ذخیرہ رکھنا بھی بہت بڑی بات ہے۔ دور دراز کے علاقوں سے لوگوں کو مرکز پر ویکسین لگوانے کے لیے پہنچنے میں درپیش مشکلوں پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔
حالانکہ، اس مرکز کی سمندر کی سطح سے اونچائی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جو کافی غور طلب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مرکز سمندر کی سطح سے غیر معمولی اونچائی پر واقع ہے۔ لیہہ میں سیاچن گلیشیئر کے کافی قریب واقع اس ابتدائی طبی مرکز کے نام ایک انوکھا ریکارڈ درج ہے: یہاں ایک ہی دن میں فوج کے ۲۵۰ جوانوں کو ویکسین کی خوراک دی گئی تھی۔ وہ بھی انٹرنیٹ کی معمولی سہولت اور بے حد خراب مواصلاتی نظام کے ہوتے ہوئے۔ ضروری سہولیات کی اس قسم کی کمی کے باوجود، لداخ میں واقع کچھ دیگر مراکز کی ہی طرح پنامک میں واقع اس ابتدائی طبی مرکز نے بھی ٹیکہ کاری مہم کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔
یہ سوچنے والی بات ہے کہ لیہہ قصبہ سے تقریباً ۱۴۰ کلومیٹر دور واقع اس ابتدائی طبی مرکز پر انٹرنیٹ کی سہولت کے بغیر یہ کام کیسے کیا جاتا ہے؟ یہاں کے کولڈ چین آپریٹر سیرک انچوک کی باتوں سے لگا جیسے یہ سب بے حد آسان ہو۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہم نے بس تھوڑا تحمل سے کام لیا۔ ہم گھنٹوں تک کام میں لگے رہے اور آخرکار ہم اپنے کام میں کامیاب رہے۔‘‘ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ان لوگوں نے بے حد خراب انٹرنیٹ کنکشن کے باوجود، گھنٹوں تک کام کرنا جاری رکھا جسے کرنے میں دیگر جگہوں پر صرف کچھ منٹ ہی لگتے تھے۔ اور ویکسین لگانے کے عمل میں تو اور بھی زیادہ وقت لگا۔
ابتدائی طبی مرکز پر بطور فارماسسٹ کام کرنے والی اسٹینزن ڈولما کو گھنٹوں تک کام کرنے کے دوران، عام طور پر اپنے آس پاس ہی موجود ۸ سالہ بیٹے پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرا چھوٹا بیٹا زیادہ وقت کے لیے مجھ سے دور نہیں رہ سکتا۔ اس لیے، جب زیادہ دیر تک کام کرنا ہوتا ہے (خاص طور پر ٹیکہ کاری کے دنوں میں)، تو میں اسے اپنے ساتھ ہی لے آتی ہوں۔ وہ دن بھر ابتدائی طبی مرکز میں ہی رہتا ہے۔ رات کی شفٹ کے دوران بھی وہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ وہ بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کے خطرے سے انجان ہیں، لیکن انہیں لگتا ہے کہ اس طرح وہ اس کی بہتر دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں آنے والے مریض اور میرا بیٹا، دونوں ہی میرے لیے برابر اہمیت رکھتے ہیں۔‘‘
بنیادی طور پر منی پور کے رہنے والے، طبی مرکز کے ریزیڈنٹ ڈاکٹر چابونگ بام میرابا میئی تیئی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’شروع شروع میں تھوڑی بد نظمی تھی۔ محدود سہولیات اور محدود معلومات کے ساتھ ہی ہم نے نظام کو درست کرنے کی بہتر کوشش کی۔ آخرکار حالات ہمارے قابو میں آ گئے اور اس کے ساتھ ہی ہم نے گاؤوں والوں کو ویکسین کی اہمیت سمجھاتے ہوئے بیدار کرنے کی بھی کوشش کی۔
کووڈ کی دوسری لہر میں ملک کے زیادہ تر حصوں کی طرح لداخ بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔ مسلسل آمد و رفت، موسمی مزدوروں کے آنے جانے، اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے باہر تعلیم حاصل کر رہے یا کام کر رہے لداخ کے لوگوں کی لیہہ قصبہ میں واپسی کو وبائی مرض کے معاملوں میں اضافہ کے سبب کی طرح ہی دیکھا جاتا ہے۔
لیہہ کے ضلع ٹیکہ کاری افسر، تاشی نامگیال وبائی مرض کے شروعاتی دور کے بارے میں کہتے ہیں، ’’وہ بے حد خراب دور تھا۔ اس وقت ہمارے پاس ضروری انفراسٹرکچر نہیں تھے کہ ہم لیہہ قصبہ میں بڑے پیمانے پر بیماری کی علامات والے لوگوں کی جانچ کر سکیں۔ اس لیے، ہمیں جانچ کے لیے نمونے چنڈی گڑھ بھیجنے پڑتے تھے۔ جانچ کے نتیجے آنے میں کئی دن لگ جاتے تھے۔ لیکن، اب ہم یہاں لیہہ کے سونم نوربو میموریل اسپتال میں ہر دن تقریباً ایک ہزار لوگوں کی جانچ کر سکتے ہیں۔ اس سال کی شروعات میں ہم نے سردیوں کی ابتدا سے پہلے، ٹیکہ کاری کے عمل کو انجام تک پہنچا دینے کا منصوبہ بنایا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اکتوبر کے آخر تک ہمیں یہ مکمل کر لینا ہے۔‘‘
یہاں طبی مراکز میں خراب انٹرنیٹ کنکشن اور لوگوں کی مواصلات کی تکنیکی خدمات تک محدود رسائی کے سبب، انہیں ٹیکہ کاری کے عمل کو پورا کرنے کے لیے بالکل نئے اور عملی طور طریقوں کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ لیہہ ضلع میں سمندر کی سطح سے ۹۷۹۹ فٹ کی اونچائی پر واقع کھالسی گاؤں کی صحت کارکن کنجانگ چورول کہتی ہیں، ’’عمر دراز لوگ اسمارٹ فون کا بالکل استعمال نہیں کرتے ہیں۔ اور انٹرنیٹ سے جڑے مسائل بھی موجود ہیں۔‘‘ اب سوچنے والی بات ہے کہ انہوں نے ایسے حالات کا سامنا کیا، تو کیسے کیا؟
کنجانگ کو یہاں ’کُنے‘ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پہلی خوراک کے بعد ہم نے ’یونیک نمبر‘ اور ویکسین کی دوسری خوراک کی تاریخ کاغذ پر لکھ کر رکھ لی۔ اس کے بعد، ہم نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو لوگوں کی ضروری دستاویزوں کے ساتھ منسلک کر دیا۔ مثلاً، ان کے آدھار کارڈ کے ساتھ۔ کچھ اسی طرح ہم نے پورے عمل کو کسی طرح مینج کیا۔ اور اب تک یہ طریقہ گاؤں کے لوگوں کے لیے بے حد کارگر ثابت ہوا ہے۔‘‘
وہ آگے کہتی ہیں، ’’ویکسین کی پوری ڈوز ہونے کے بعد، ہم نے ٹیکہ کاری سرٹیفکیٹ پرنٹ کیا اور اسے لوگوں کے حوالے کر دیا۔‘‘
جب تقریباً تمام طبی مراکز اور اسپتال اپنے پورے وسائل کا استعمال کووڈ سے نمٹنے کے لیے کر رہے تھے، فیانگ گاؤں کے ابتدائی طبی مرکز میں ٹیکہ کاری مہم کے متوازی ہی بچوں کے لیے معمول کی ٹیکہ کاری کی خدمات فراہم کرنے کا واقعہ میرے لیے بے حد چونکا دینے والا تھا۔ فیانگ گاؤں کی سمندر کی سطح سے اونچائی تقریباً ۱۲ ہزار فٹ ہے۔
مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ کی انتظامیہ کی طرف سے اب اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہاں ٹیکہ لگوانے کی مقررہ عمر کے ۱۰۰ فیصد لوگوں کو کووڈ۔۱۹ ویکسین کی پہلی خوراک لگ چکی ہے۔ اس قسم کا دعویٰ اپنے آپ میں کھلے عام قابل اعتراض ہے ۔ حالانکہ، ابھی بھی یہاں زمین پر کام کرتے ہوئے دور دراز کے پہاڑوں پر آمد و رفت کر رہے اور حوصلہ افزا رول ادا کرتے طبی ملازمین کو پیش آ رہی تمام طرح کی مشکلات اور چیلنجز پر کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے۔ مستقل طور پر ٹھنڈے اور خشک موسم میں، سمندر کی سطح سے ۸۰۰۰ سے ۲۰ ہزار فٹ کی رینج والی اونچائی پر رہنے والے لداخ کے تقریباً ۲ لاکھ ۷۰ ہزار باشندوں کو ویکسین مہیا کروانے میں کافی مشقت کرنی پڑی۔
لیہہ کے ویکسین اور کولڈ چین مینیجر جگمت نامگیال بتاتے ہیں، ’’ہمیں بے حد چنوتی بھرے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی دنوں میں ہمیں کوون ایپ پر کام کرنا سیکھنا پڑا۔ پنامک واقع ابتدائی طبی مرکز کی طرح، دور دراز کے علاقوں میں واقع کئی طبی مراکز میں صحیح انٹرینٹ کنکشن بھی نہیں ہے۔‘‘ نامگیال اس ٹھنڈے ریگستان میں اکثر ۳۰۰ کلومیٹر سے بھی زیادہ دوری کا سفر طے کرتے ہیں، تاکہ ویکسین کے مناسب درجہ حرارت پر ذخیرہ اور تمام اسٹوریج مراکز پر ان کی مناسب مقدار میں دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
کھالسی تحصیل کے ابتدائی طبی مراکز میں کام کرنے والے ڈیچن آنگمو کہتے ہیں، ’’صرف کوون ایپ کا استعمال کرنا ہی نہیں، بلکہ بڑا چیلنج تو ٹیکہ کی بربادی سے جڑا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ٹیکہ برباد نہ کرنے کے لیے سخت ہدایات دی گئی ہیں۔‘‘
آنگمو نے جس بات کی طرف اشارہ کیا وہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک شیشی سے ہم ویکسین کی ۱۰ خوراک دے سکتے ہیں۔ لیکن، جب شیشی ایک بار کھل جاتی ہے، تو چار گھنٹے کے اندر اس کا پوری طرح استعمال کر لینا ہوتا ہے۔ کھالسی واقع ہمارے گاؤں جیسے دور دراز کے گاؤوں میں، چار گھنٹے کی مدت میں مشکل سے چار سے پانچ لوگ ٹیکہ لگوانے آتے ہیں، کیوں کہ انہیں یہاں آنے کے لیے کافی زیادہ دوری طے کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے، بربادی کا امکان کافی بڑھ جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے، میرے بہت سے ساتھی ایک دن پہلے گاؤں میں یہ یقینی بنانے کے لیے جاتے تھے کہ لوگ وقت رہتے طبی مرکز آ جائیں۔ یہ کافی مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے، لیکن اس سے بات بن گئی۔ نتیجتاً ہمارے مرکز پر ویکسین کی بربادی نہیں ہوتی۔‘‘
بعد میں مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ کھالسی کے طبی عملہ کے لوگ ویکسین ساتھ لیکر لنگشیٹ نام کے کافی دور دراز واقع گاؤں تک گئے۔ یہ گاؤں بھی تحصیل کے دائرے میں ہی آتا ہے۔ خواتین اور زچگی کی ماہر ڈاکٹر پدما اس دن کے لیے ٹیکہ کاری انچارج تھیں؛ وہ کہتی ہیں، ’’شروع شروع میں لوگوں میں ویکسین کو لیکر تھوڑی ہچکچاہٹ تھی، لیکن ہمارے سمجھانے کے بعد انہیں اس کی اہمیت سمجھ آ گئی۔ اب ہم نے ایک دن ۵۰۰ لوگوں کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اور ہم نے یہ کامیابی ٹیم کی طرح کام کرتے ہوئے حاصل کی۔’’
جگمت نامگیال کہتے ہیں، ’’مجھے اس بات سے حیرانی ہوتی ہے کہ نرسوں، فارماسسٹوں اور ڈاکٹروں نے اس چیلنج کا سامنا کیسے کیا اور ٹیکہ کاری مہم کو کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا۔ اس وقت ہم نہ صرف لداخ کے لوگوں کو ٹیکہ لگا رہے تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم موسمی مہاجر مزدوروں، نیپال سے آئے کارکنوں، اور یہاں تک کہ دوسری ریاستوں سے آنے والے اُن مسافروں کو بھی جنہیں ٹیکہ لگا تھا، ویکسین کی خوراک دے رہے تھے۔‘‘
یہ کوئی جھوٹا دعویٰ نہیں ہے۔ میری جھارکھنڈ کے کچھ موسمی مہاجر مزدوروں سے ملاقات ہوئی، جو پنامک واقع ابتدائی طبی مراکز کے پاس ہی سڑک بنا رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’ہم اس بات کے لیے شکرگزار ہیں کہ ہم لداخ میں ہیں۔ ہم سبھی کو ٹیکہ کی پہلی خوراک لگ چکی ہے۔ اب ہم دوسری خوراک کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس لیے، جب ہم اپنے گھر واپس جائیں گے، تو ہمارے اندر کووڈ کے خلاف مدافعتی طاقت تیار ہو چکی ہوگی۔ اور اس طرح ہم اپنی فیملی کو محفوظ رکھ پائیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز